فیصل آباد کے محلہ ہجویری ٹاؤن میں سات فروری کو چند افراد نے ایک رکشہ ڈرائیور وارث علی کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق مقتول نے فہیم نامی سود خور سے 35 ہزار روپے قرض لیے تھے جس پر سود اور جرمانوں کی مد میں وہ اسے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کر چکا تھا۔ تاہم اس کے باوجو د ملزم فہیم اس سے مزید 70 ہزار روپے ادا کرنے کا تقاضا کرتا رہا اور عدم ادائیگی پر اس کی بیٹی کو اٹھا لے جانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
مقتول کی بیوہ گلناز بتاتی ہیں کہ وقوعہ کے روز فہیم اور اس کے ساتھی سود کی رقم وصول کرنے گھر آئے تھے اور اس کے خاوند کو زبردستی موٹرسائیکل پر بیٹھا کر اپنے ڈیرے پر لے گئے جہاں انہوں ںے اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر گھر کے قریب لا کر پھینک دیا۔
"میرے شوہر کی حالت بہت خراب تھی۔ ہم انہیں ہسپتال لے کر گئے لیکن تب تک وہ دم توڑ چکے تھے"۔
پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم فہیم نے ضمانت قبل از گرفتار ی کروا لی ہے۔
اس واقعے کے بعد گلناز اپنے بچوں کے ساتھ ایک رشتہ دار الطاف کے ہاں مقیم ہیں۔ الطاف بھی رکشہ چلاتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ملزموں نے اس علاقے میں دیگر کئی افراد کو بھی سود پر قرض دے کر اپنے جال میں پھنسایا ہوا ہے جس کی وجہ سے کوئی ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرات نہیں کرتا۔
اس مقدمے کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر افسر ساجد کا کہنا ہے کہ ملزم کی جانب سے سود پر دی گئی رقم کی واپسی کے لئے لوگوں سے ناروا سلوک کی باتیں انہوں نے سنی ہیں لیکن وارث علی کی بیوہ کے علاوہ تاحال کسی نے اس کے قانونی کاروائی کے لئے درخواست نہیں دی۔
فیصل آباد میں کرسچئن ٹاون کے کرامت مسیح بھی سود خور کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
کرامت ایک سرکاری ادارے میں خاکروب ہیں جن کا کہنا ہے کہ انہوں نے سو فیصد شرح سود پر 50 ہزار روپے قرض لیا تھا۔ اس طرح انہوں نے سود خور کو مجموعی طور پر ایک لاکھ روپے واپس کرنا تھے جس کے لئے پانچ ہزار روپے ماہانہ قسط طے پائی تھی۔ تاخیر سے ادائیگی پر جرمانوں اور پھر ان جرمانوں پر سود در سود رقم جمع ہونے سے یہ قرض اصل رقم سے تین گنا سے بھی بڑھ چکا ہے۔
"میں بہت سے لوگوں کا مقروض تھا، ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی قرض خواہ میرے دروازے پر آیا ہوتا تھا، ان سے جان چھڑانے کے لیے میں نے سوچا کہ ایک جگہ سے اکٹھا قرض لے کر سب کو ادائیگی کر دوں گا تو زندگی کچھ آسان ہو جائے گی۔ اب مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں سود کے اس چکر سے کیسے نکلوں گا۔ قرض کی ادائیگی میں اگر چند دن کی تاخیر ہو جائے تو سود خور گھر آ کر گالم گلوچ شروع کر دیتے ہیں اور جرمانہ الگ کرتے ہیں۔"
فیصل آباد میں سود پر قرضہ دینے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے
کرامت نے بتایا کہ انہیں کئی لوگوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ سودخور کے خلاف پولیس کو درخواست دے دیں لیکن انہیں ڈر ہے کہ تھانے جا کر وہ الٹا کسی نئی مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔
ستیانہ روڈ پر نان ٹکی کی ریڑھی لگانے والے محمد ماجد بھی پچھلے تین سال سے سود خوروں کی گرفت میں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے دوران ان کا روزگار ختم ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں مجبوری میں سود پر قرض لینا پڑا۔
"وبا کے دوران سود خوروں نے جتنا کمایا ہے اتنا شاید ہی کسی اور نے کمایا ہو۔میرے جیسے درجنوں لوگ تب سے سود کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں"۔
ماجد کے مطابق انہوں نے ستیانہ روڈ پر واقع قسطوں کی دکان کے مالک شیر خان کے پاس اپنے مکان کے کاغذات رہن رکھوا کر ایک لاکھ روپے قرضہ لیا تھا۔ یہ قرض تو ادا نہیں ہو سکا لیکن اس پر سود بڑھتا جا رہا ہے جس کی ادائیگی کے لیے وہ بہت سے لوگوں کے مقروض ہو گئے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں ںے رقم ادا نہ کی تو سود خور ان کا مکان بیچ دے گا۔
سود پر قرضہ دینے والے زیادہ تر لوگ اسی طرح دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف بھاری سود لیتے ہیں بلکہ ادائیگی میں تاخیر پر جرمانے کی مد میں بھی بھاری رقومات وصول کرتے ہیں۔ ایسے قرض داروں سے موٹرسائیکلیں چھینے جانے اور بعض واقعات میں ان کے گھروں پر مسلح افراد بھجوائے جانے کی بھی شکایات سامنے آئی ہیں۔
اس سلسلے میں فیصل آباد پولیس سے معلومات کے حصول کے لئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت دی گئی درخواست کے جواب میں بتایا گیا کہ گزشتہ تین سال کے دوران سود پر قرض دینے والوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔
ڈی ایس پی لیگل محمد شہزاد علیانہ کہتے ہیں جب تک کوئی متاثرہ شہری کسی سود خور کے خلاف کارروائی کے لئے درخواست نہیں دے گا اس وقت تک پولیس اس پر کیسے ایکشن لے سکتی ہے۔
''پولیس کے پاس سود پر قرضہ دینے والوں کی کوئی فہرست نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے ہمیں سود خوروں کے خلاف کسی خصوصی کارروائی کی کوئی ہدایات ملی ہیں۔''
تاہم انٹیلی جنس بیورو میں ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ وارث علی کے قتل کے واقعے کے بعد شہر بھر میں سود پر قرضہ دینے والوں کی فہرستیں دوبارہ تیار کی گئی ہیں۔
ان کے مطابق فیصل آباد میں سود پر قرضہ دینے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے اور ہجویری ٹاؤن، نگہبان پورہ، بھولے دی جھگی، اسلام نگر، طارق آباد، منصورہ آباد، فتح آباد، الہی آباد، وارث پورہ، غلام محمد آباد، رضا آباد، رحمت آباد، عیسٰی نگری، سدھار اور نیاموآنہ سمیت بہت سی متوسط و غریب آبادیوں میں یہ کام کھلے عام ہو رہا ہے۔ان علاقوں میں الیکٹرانکس کا گھریلو سامان قسطوں پر دینے کی آڑ میں سود پر قرضے دیے جاتے ہیں۔
سود دینے والے شخص کو دس لاکھ روپے جرمانہ اور تین سے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے
ماجد کو سود پر قرضہ دینے والے شیر خان لوگوں کو نقد رقم نہیں دیتے بلکہ انہیں اتنی ہی مالیت کا کوئی موبائل فون خرید کر کر قسطوں پر دے دیتے ہیں اور ضرورت مند اس فون کو مارکیٹ میں یا دوبارہ اکبر خان کو ہی فروخت کرکے نقد رقم حاصل کر لیتا ہے۔
وہ اپنے کاروبار کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کسی شخص کو سود پر قرض لینے کے لئے مجبور نہیں کرتے بلکہ لوگ خود چل کر ان کے پاس آتے ہیں۔
"جس طرح بینک والے گاڑی قسطوں پر دے کر سود سمیت اصل رقم واپس لیتے ہیں اسی طرح ہم بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ اگر بینک والے سود کے بغیر قرض نہیں دیتے تو ہم کسی کو بغیر سود کیسے قرض دے سکتے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سود خوری پر پابندی لگانا چاہتی ہے تو پہلے بینکوں کو ایسا کرنے سے روکا جائے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آن لائن نجی قرضہ دینے والی ایپس آنے کے بعد ان کے کاروبار میں کمی آئی ہے اور اب لوگ اپنی ضرورت موبائل فون پر ایپ کھول کر ہی پوری کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
زمینداروں کے قرضے تلے دبے نسل در نسل غلام زرعی مزدور: 'یہ زنجیریں کبھی نہیں ٹوٹیں گی'۔
موبائل ایپس کے ذریعے قرضہ دینے والے بھی وہی کام کر رہے ہیں جو ہم کرتے ہیں لیکن انہیں سکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے رجسٹریشن دی ہوئی ہے اور اسی کام پر ہمیں مجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے"۔
پنجاب میں نجی قرض پر سود کی پابندی کے ایکٹ 2022 کے تحت حکومت سے رجسٹرڈ بینکوں اور مالیاتی اداروں کے علاوہ کسی شخص کی جانب سے قرض دی گئی رقم پر اضافی رقم کی وصولی سود کہلاتی ہے۔ اس قانون کے تحت ایسا کرنے والے شخص کو دس لاکھ روپے جرمانہ اور تین سے دس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
قانونی ماہر امتیاز احمد وینس کہتے ہیں کہ حکومت نے قانون تو بنا دیا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا۔
"سود پر قرضہ لینے والے زیادہ تر انتہائی غریب لوگ اور دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ کسی سود خود کے خلاف قانونی کارروائی کے لئے پولیس کو درخواست دے سکیں"۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو سود خوروں سے بچانا ہے تو پولیس کو اس کام میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا پابند کرنا ہو گا۔
تاریخ اشاعت 14 مارچ 2023