جانی خیل میں بچوں کا قتل: پسِ پردہ حقائق کیا ہیں

postImg

غلام دستگیر

postImg

جانی خیل میں بچوں کا قتل: پسِ پردہ حقائق کیا ہیں

غلام دستگیر

بارہ سالہ نظام ﷲ اپنے تین ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ جنگلی خرگوش کا شکار کرنے کے لئے چار مارچ 2021 کو گھر سے نِکلا  لیکن واپس نہ آیا۔  

اس کے بوڑھے والد جسمانی معذوری کے باعث اس کی تلاش میں نہیں جا سکتے تھے چنانچہ اس کی ضعیف والدہ غائب ہونے والے ایک دوسرے بچے، عاطف ﷲ، کے والد زر نواز کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ہر روز قرب و جوار میں اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلتیں۔ زر نواز کا اس بارے میں کہنا ہے: "ہم روزانہ صبح اپنے بچوں کو ڈھونڈنے نکلتے اور رات کو ان کا کھوج لگائے بغیر گھر لوٹ آتے"۔ 

بالآخر 21 مارچ کوایک گڈریے نے اتفاقاْ نظام ﷲ اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں دریافت کیں۔ 

اس دن بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے گڈریے نے اپنے کتے کو زمین کھودتے دیکھا جس میں سے تھوڑی دیر میں ایک انسانی ہاتھ برآمد ہوا۔ اس نے کتے کو فوراْ اس جگہ سے ہٹایا اور کچھ دور ایک جنازے کے لئے جمع ہونے والے لوگوں کو فون پر اس صورتِ حال کے بارے میں آگاہ کیا۔ جب لوگوں نے اکٹھے ہو کر اس جگہ کو مزید کھودا تو اس میں سے یکے بعد دیگرے نظام اللہ اور اس کے تینوں ساتھیوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ایک کا سر کٹا ہوا تھا اور دیگر تین کے چہرے مسخ تھے۔

یہ واقعہ خیبر پختونخوا کے جنوبی شہر بنوں سے تقریباً 30 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع جانی خیل نامی علاقے میں پیش آیا جہاں ایک پختون قبیلے، جانی خیل، کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اس کے مشرق میں ضلع لکی مروت اور جنوب میں جنوبی وزیرستان واقع ہیں۔

لاشوں کا پتہ چلنے کے بعد جانی خیل کے قبائلی رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ وہ انہیں اس وقت تک دفن نہیں کریں گے جب تک ریاستی ادارے ان کے علاقے میں امن قائم کرنے کی ضمانت نہیں دیتے۔ انہوں نے نظام اللہ کے بھائی نواب خان کو اس بارے میں آگاہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "اگر میرے دس بھائیوں کی لاشیں بھی پڑی ہوتیں اور ان کے ذریعہ ہمارے علاقہ میں امن آ سکتا تو میں انہیں منع نہ کرتا"۔

چنانچہ اگلے روز سہ پہر کے وقت ہلاک شدگان کی نمازِ جنازہ پڑھا کر جانی خیل سے تعلق رکھنے والے چار افراد ان کی میتیں لے کر ایک ایسے مقامی قلعے کے باہر دھرنا دے کر بیٹھ گئے جہاں 2009 سے پاکستان آرمی کے دستے تعینات ہیں۔ اسی روز خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد وزیر (جن کے حلقہ انتخاب میں جانی خیل بھی شامل ہے) ضلع بنوں کے ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ اس دھرنے میں پہنچ گئے تاکہ وہ مظاہرین کو احتجاج ختم کر نے پر راضی کر سکیں۔  

ان حکام کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں جانی خیل سے تعلق رکھنے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی عدنان وزیر کا کہنا ہےکہ "ان کے ساتھ ہماری تمام گفتگو بے سود تھی کیونکہ علاقے میں امن کی ضمانت دینا نہ تو صوبائی وزیر کے دائرہ اختیار میں ہے اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کے"۔

ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد دھرنے میں لوگوں کی شمولیت بڑھنے لگی اور چند دن میں مظاہرین کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی۔ اس دوران حکومت کی طرف سے کئی لوگوں نے مظاہرین سے بات چیت کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ 

دھرنے کے آٹھویں روز یعنی 28 مارچ کو مظاہرین نے بالآخر لاشوں کو اٹھایا اور بنوں شہر کی جانب چل پڑے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ بنوں کے بعد ان کا اگلا پڑاؤ اسلام آباد ہو گا۔ لیکن مقامی انتظامیہ نے بنوں کے راستے میں آنے والے ایک پل پر انہیں روک دیا اور ایک بار پھر انہیں مذاکرات کی پیش کش کی۔ 

عدنان وزیر، ، جن کا خاندان جانی خیل قبیلے کا سربراہ بھی ہے، کہتے ہیں: "اس دوران صوبائی وزیر برائے سوشل ویلفئیر ھشام انعام ﷲ میرے پاس آئے اور انہوں نے اپنی چادر میرے پیروں پر رکھ کر کہا کہ خدارا آگے نہ جائیں اور مذاکرات کریں لیکن جب ہم نے مذاکرات کی پیش کش قبول کر لی تو ھشام انعام ﷲ غائب ہو گئے"۔ 

لہٰذا، عدنان وزیر کے مطابق، مظاہرین نے انتظامیہ کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹیں عبور کر کے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ "ابھی ہم نے تھوڑا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ انتظامیہ نے ہمیں آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ سے روکنے کی کوشش کی"۔

اس موقعے پر قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن شاہ جی گل نے عدنان وزیر اور ان کے ساتھیوں سے رابطہ کیا اور انہیں بنوں کے کمشنر ہاؤس میں موجود جرگہ ہال میں مذاکرات کے لئے راضی کر لیا۔ یہ مذاکرات رات گیارہ بجے شروع ہوئے اور اگلی صبح مکمل ہوئے۔

ان کے نتیجے میں مظاہرین اپنے گھروں کو چلے گئے اور چاروں ہلاک شدگان کی لاشوں کو ان کے آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ دوسری طرف فوج نے امن و امان قائم برقرار رکھنے کی ضمانت دی اور تقریباً پانچ ماہ سے زیرِ حراست ایک قبائلی امین ﷲ کو رہا کر دیا۔ وہ ایک ہلاک شدہ بچے، عاطف ﷲ، کے بھائی ہیں۔ 

بچوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون؟

جانی خیل میں گردش کرنے والے کچھ ماہ پرانے ایک ویڈیو کلِپ میں تیرہ سالہ عاطف اللہ کو نظام اللہ اور ایک تیسرے بچے کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ تینوں فوج کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے طالبان جنہوں نے علاقے میں فوجی آپریشن کے بعد ہتھیار ڈال دیے ہیں اور 'اچھے طالبان' کے نام سے جانے جاتے ہیں ان کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان بچوں کا کہنا ہے کہ وہ فوج کے جاسوس ہیں اس لئے ان کے خلاف لڑنا بھی روا ہے۔ 

اس ویڈیو کے پہلی بار منظرِ عام پر آنے کے بعد 'اچھے طالبان' نے عاطف ﷲ کو پکڑ کر اس سے ایک اور ویڈیو ریکارڈ کرائی جس میں وہ اقرار کرتا سنائی دیتا ہےکہ اس نے پہلی ویڈیو فوج کے خلاف لڑنے والے 'برے طالبان' کے کہنے پر ریکارڈ کی تھی۔ جانی خیل کے ایک باسی کے مطابق لگ بھگ تین چار ماہ قبل 'اچھے  طالبان' نے ویڈیو میں نظر آنے والے تینوں بچوں کے والدین کو تنبیہہ بھی کی کہ وہ اپنے بچوں کو اس قسم کی حرکات دوہرانے سے روکیں۔

مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ یہی کلِپ تینوں بچوں کی موت کا سبب بنے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس واقعے میں 'اچھے طالبان' (جنہیں مقامی لوگ گُڈ طالبان کہتے ہیں) ملوث ہیں کیونکہ بچوں کی لاشیں جس علاقے سے برآمد ہوئیں وہ انہی طالبان کے زیرِ اثر ہے۔ 

لیکن اس واقعے کے پسِ پردہ کئی ایسے عوامل کار فرما ہیں جن کا تعلق جانی خیل کی معیشت، معاشرت اور تاریخ پر ہے۔

یہ علاقہ زیادہ تر بنجر زمینوں پر مشتمل ہے جہاں تعلیم اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیرونِ ملک، خصوصی طور پر سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں، مزدوری کرتی ہے۔ 1980 کی دہائی سے یہاں کے مقامی لوگ افغانستان جا کر وہاں موجود غیر ملکی فوجوں کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک وہاں مارے بھی گئے ہیں۔

اسی طرح 1996 میں جب افغانستان میں طالبان نے اپنی حکومت قائم کی تو جانی خیل میں بھی مقامی مذہبی رہنما شرعی قوانین کے تحت لوگوں کو سزائیں دینے لگے۔ مقامی طالبان 2002 اور 2006 کے درمیان اس قدر مضبوط ہو گئے کہ انہوں نے رستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے لوگوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ 2008 میں بنوں شہر کے تنازعات بھی جانی خیل میں قائم شرعی عدالتیں حل کرنے لگیں۔

عدنان وزیر کہتے ہیں کہ 2002 میں مقامی طالبان نے ان کے بھائی کی شادی کے موقع پر ڈھول بجانے کے جرم میں ان کے خاندان پر تین ہزار روپے جرمانہ عائد کر دیا۔ اسی طرح جب 2008 میں انہوں نے اپنے آبائی علاقہ سے انتخاب لڑنے کا ارادہ کیا تو انہیں طالبان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ ان کے مخالف امیدوار کی حمایت نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

افغانستان میں طالبان کے آنے سے طورخم بارڈر کے آر پار لوگوں اور تجارتی سامان کی آمدورفت شدید مشکلات کا شکار۔

انتخاب کے ایک سال بعد جب جانی خیل میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو یہاں اُزبک، تُرکمان، چیچن اور عرب جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں القاعدہ کے دو ارکان ابو معظم اور ابو دُجانہ بھی شامل تھے جو اسی علاقے میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ 

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ ابتداء میں جانی خیل میں حافظ گل بہادر گروپ کا اثر و نفوذ زیادہ تھا۔لیکن فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد دیگر گروپ – سیف الدین گروپ، اختر محمد گروپ، صدر حیات گروپ، شیر عالم گروپ اور مولوی اسحاق گروپ – فوج کے خلاف متحد ہو گئے اور اکٹھے فوج سے لڑنے لگے۔ بعد ازاں ان میں سے مولوی اسحاق کے گروپ نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور 'اچھے طالبان' کا لقب حاصل کیا۔ 

امن و امان کا مطالبہ

ایک مقامی قبائلی رہنما وزیر زادہ کہتے ہیں کہ جب جون 2009 میں فوجی آپریشن شروع ہوا تو جانی خیل کی تمام آبادی کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ لگ بھگ دو ماہ بعد فوج نے ان کے علاقے کو دہشت گردوں سے پاک قرار دے کر انہیں گھر واپس آنے کی اجازت دے دی لیکن اس دوران ان کا تمام اسلحہ ان سے لے لیا گیا تھا۔ وزیر زادہ کہتے ہیں:"میں نے خود فوج کو اپنی دو کلاشنکوف رائفلیں جمع کرائیں"۔ 

لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ ان کے مطابق، "اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ دہشت گردوں نے لوگوں کو ان کے گھروں میں گھس کر قتل کیا ہو لیکن اب رات کی تاریکی میں ایسا بھی ہونے لگا کیونکہ لوگ نہتے تھے اور حملہ آور مسلح"۔ 

عدنان وزیر کو بھی اسی طرح کی شکایات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "فوج گزشتہ بارہ سال سے ہمارے علاقہ میں موجود ہے۔ اس نے یہاں کئی آپریشن بھی کئے ہیں جن میں مقامی لوگوں کے گھر تک مسمار کیے گئے اور کئی لوگ لاپتہ بھی ہو گئے ہیں لیکن شدت پسندی کا مسئلہ جوں کا توں ہے"۔ ان کا مطالبہ ہے کہ "ہمیں امن چاہئے لیکن اس کے لئے عام لوگوں کے خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہایا جائے"۔ 

اس مطالبے کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "ہم اپنی زمین کو طالبان کے وجود سے پاک چاہتے ہیں چاہے وہ اچھے طالبان ہوں یا بُرے طالبان۔ اگر ان کا تعلق جانی خیل قبیلہ سے ہے تو بھی انہیں پکڑ کر جہازوں سے زمین پر دے ماریں لیکن ہمیں امن سے رہنے دیں"۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 9 اپریل 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 12 جنوری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

غلام دستگیر خیبر پختونخوا کے سیاسی، معاشی و سماجی امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

سندھ: ہولی کا تہوار، رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

thumb
سٹوری

پانی کی تقسیم پر آگ کا کھیل: ارسا آرڈیننس، سندھ، پنجاب کی تکرار کو جھگڑے میں بدل سکتا ہے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

وادی تیراہ میں کھاد کی ترسیل اور امن و امان کے درمیان کیا تعلق ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ، کلیم اللہ

آزاد کشمیر: مظفر آباد کی بیکری جہاں خواتین کا راج ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.