لاہور کے علاقے چونگی امرسدھو میں دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ ایک کمرے کے گھر میں رہنے والھے 45 سالہ مولوی لطیف پاکستان الیکٹرون لمیٹڈ (پیل) کمپنی میں بطور سینئر مشین آپریٹر کے طور پچھلے 20 سال سے مستقل بنیادوں پر کام کررہے تھے۔ پچھلے سال انہیں بغیر نوٹس دیے نوکری سے نکال دیا گیا۔
نکالےجانے سے پہلےفیکٹری انتظامیہ نہیں انہیں بلا کر بتایا کہ ان کا لاہور میں ہی کمپنی کے دوسری برانچ میں تبادلہ کر دیا گیا ہے۔
لطیف اس فیصلے پر خوش تھے کیوں کہ ان کے بقول دوسری برانچ کے بارے میں انھوں نے سن رکھا تھا کہ وہاں پر ملازمین کی تںخواہیں زیادہ بہتر ہیں۔ لیکن اگلے روز جب وہ دوسری برانچ میں گئے تو پہلے انہیں دو گھنٹے انتظار کرایا گیا، پھر ان سے چند کاغذات پر دستخط کرائے گئے اور پھر کہہ دیا گیا کہ وہ اب فیکٹری کے ملازم نہیں رہے۔
پریشانی کے عالم میں جب وہ گھر پہنچے تو ڈپریشن کے باعث ان کی طبیعت بگڑ گئی تھی۔ گھر والوں نے ان کی ہمت بندھائی تو ان کے حواس بحال ہو گئے۔
مولوی لطیف نے 20 سال تک اس فیکٹری میں نوکری کی لیکن صرف ایک ہی پل میں انہیں فارغ کردیا گیا جس سے ان کے معاشی حالات بگڑ گئے۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کرنے کی ٹھانی اور مزدوروں کے حق کے لیے لاہور میں ہونے والے مظاہروں میں جانے لگے۔ اس دوران ان کی فیکٹری کے چند دیگر ملازمین بھی ان کے ساتھ آ ملے جنہیں انہی کی طرح اچانک نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔
لطیف نے جب اپنے حق کے لیے مہم چلائی تو انہیں چھ ماہ بعد کمپنی انتظامیہ نے دوبارہ بلایا اور دھوکے سے ایک خالی اسٹامپ پیپر پر دستخط کرا لیے۔ ان کے بقول انہیں یہ کہا گیا تھا کہ انہیں نوکری پر بحال کیا جارہا ہے تاہم بعد میں انہیں علم ہوا کہ ان سے یہ دستخط لے کر جس تحریر پر استعمال کیے گئے تھے اس میں ان کی جانب سے جلسے جلوسوں اور کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے پر معافی مانگی گئی تھی۔
چونکہ لطیف پڑھے لکھے نہیں ہیں اس لیے انہیں اس سازش کی سمجھ نہ آئی۔
مولوی لطیف نے ایک مرتبہ پھر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر مظاہرے شروع کردیے تو انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اگر کمپنی کے خلاف کوئی بات کی تو ان کے دستخط شدہ معافی نامے کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ خالی کاغذ پر دستخط کرانے کے بعد انہیں بونس اور دیگر مراعات کی مد میں صرف دو لاکھ 60 ہزار روپے دیے گئے حالانکہ پراویڈنٹ فنڈ، ای او بی آئی فنڈ اور پنشن کی مد میں دیگر مراعات کے ساتھ کمپنی کی طرف ان کے نو لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔
نوکری کھونے کے بعد لطیف نے اپنی بچیوں کو سکول سے ہٹا کر مدرسے میں داخل کرا دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کمپنی کو اپنی زندگی کے 20 قیمتی سال دیے لیکن اس نے 45 سال کی عمر میں انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کردیا ہے۔
لطیف پچھلے ایک سال سے بے روزگار ہیں۔ انھوں نے کئی جگہ نوکری کی کوشش کی لیکن عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسری کمپنیاں یا فیکٹریاں انہیں نوکری دینے سے گریز کرتی ہیں۔
لطیف دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کو نوکری سے فارغ کیے جانے کے بعد سے اب تک پیل کمپنی نے مزید ایک ہزار مزدوروں کو فارغ کیا ہے جن میں سے تقریباً چار سو مزدور ان کے ساتھ اپنے حق کے لیے احتجاج کررہے ہیں۔ کمپنی نے بہت سے مزدوروں کو لالچ دیا کہ اگر وہ احتجاج نہ کریں تو انہیں بقایا جات کی ادائیگی کر دی جائے گی۔ کئی مزدور اس لالچ میں آ کر کمپنی کے ساتھ مل گئے ہیں۔
2022 میں جاری کردہ پیل کمپنی کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس میں چار ہزار 921 ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں چار ہزار 386 صرف فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔
لاہور کے علاقے قینچی بازار میں بوستان کالونی کے رہائشی 50 سالہ رانا رشید پچھلے دس سال سے اس کمپنی میں کام کر رہے تھے۔ جب انہیں نوکری سے فارغ کیا گیا تو ان کی تنخواہ 25 ہزار ر وپے تھی۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے دس سال اس کمپنی کو دیے لیکن اس کا صلہ انہیں یہ ملا کہ کمپنی والوں نے بغیر نوٹس دیے انہیں نوکری سے نکال دیا۔
رشید بھی ایک سال سے بےروزگار ہیں۔ ان کے پاس کوئی جمع پونجی نہیں اور کسی جگہ نوکری دستیاب نہ ہونے کے باعث وہ لوگوں سے قرض لے کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
رشید کا 14 سالہ بیٹے اور اور گیارہ اور چھ سال عمر کی بیٹیوں کے باپ ہیں۔ ان کی ایک بیٹی کو مرگی کا مرض لاحق ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کمپنی میں نوکری کی وجہ سے پہلے انہیں سوشل سکیورٹی ہسپتال سے بچی کی دوا مل جاتی تھی۔ لیکن جب سے نوکری ختم ہوئی ہے اس وقت سے ان کے پاس بیٹی کی دوا خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ کبھی وہ ایک ہسپتال جاتے ہیں اور کبھی دوسرے کا رخ کرتے ہیں جبکہ ان دنوں اسے سرے سے دوا دی ہی نہیں جا رہی۔
وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پیل کمپنی میں ایک مزدور سے تین تین کام کروائے جاتے ہیں۔ اگر کوئی مزدور انکار کرتا ہے تو اسے کمپنی سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی تین تین کام کرتے رہے ہیں کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں کام سے انکار کی وجہ سے انہیں نوکری سے ہی نہ نکال دیا جائے۔ لیکن جب کام کا بوجھ ان کے بس سے باہر ہو گیا تو انہوں نے اپنے سپروائزر سے درخواست کی کہ وہ اتنا کام نہیں کرسکتے۔ سپروائزر اور مینیجر نے انہیں ایسے سیکشن میں بھیج دیا جہاں سب سے زیادہ گرم ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔
اس کے بعد ایک اور سیکشن میں ان کا تبادلہ کیا گیا اور پھر 2022 میں یہ کہہ کر انہیں نوکری سے نکال دیا گیا کہ وہ کام نہیں کر سکتے۔
رشید کا کہنا ہے کہ ان کا آور ٹائم نکالا جائے تو اندازہ ہو گا کہ وہ مقررہ وقت سے زیادہ کام کرتے رہے ہیں اور انہون ںے بلاوجہ کوئی چھٹی بھی نہیں کی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب انہیں نوکری سے نکالا جارہا تھا تو اس وقت بہت سارے مزدوروں کو ایک ہال میں اکٹھا کیا گیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں سیکورٹی گارڈ بھی موجود تھے۔ فیکٹری انتظامیہ ایک ایک مزدور کو بلاتی اور اس سے اسٹامپ پیپر پر دستخط کرنے اور اپنے واجبات وصول کرنے کو کہا جاتا تھا۔ یہ واجبات اس رقم سے بہت کم تھے جو قانوناً ان کا حق تھی۔ اس کے بعد سکیورٹی گارڈ انہیں گیٹ تک چھوڑ کرآتے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ کمپنی یا تو انہیں نوکری پر بحال کرے یا انہیں ان کے جائز واجبات دلائے جائیں۔
لطیف احمد اور دیگر مزدوروں نے اپنے حقوق کیلئے لاہور ہی میں قائم ڈایئریکٹوریٹ لیبر ساوتھ میں ایک درخواست دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ لاہور میں فیروز پور روڈ پر قائم پیل ون اور پیل ٹو فیکٹری میں کام کرتے رہے ہیں اور کبھی انتظامیہ کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔
اس کے باوجود انہیں نوکری سے فارغ کیا گیا ہے اور جائز بقایاجات اور واجبات بھی ادا نہیں کئے گئ۔ انہوں نے ڈایئریکٹوریٹ لیبر سے نوکری پر بحال کرنے یا مکمل واجبات ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
لیبر ڈیپارٹمنٹ ساؤتھ کی ایریا آفیسر مہوش عرفان کہتی ہے کہ انہوں نے اس درخواست پر کارروائی کی اور لیبر ڈیپارٹمنٹ نے پیل کمپنی کے کئی مزدوروں کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنایا جبکہ بعض مزدوروں کو کمپنی نے نوکری پر بحال بھی کیا۔ کمپنی نے محکمے کو بتایا تھا کہ وہ موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ان لوگوں کو ملازمت پر رکھ سکے۔ علاوہ ازیں کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مزدوروں کو نکالے جانے سے پہلے بقاعدہ نوٹس دیا گیا تھا۔
لیکن لطیف اس بات کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا تھا بلکہ ایک ہی دن میں ان سے دھوکہ دہی سے دستخط لے کر ان کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔
پاکستان لیبر قومی مومنٹ کے چیئرمین بابا لطیف انصاری پیل کمپنی کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پاکستان میں الیکٹرانکس کا سامان بنانے والی بڑی کمپنی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں پر مزدوروں کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کی جانب سے ایل سی یعنی خام مال اور ڈالر کی قلت کا بہانہ بنا کر ہزاروں مزدوروں کو ناجائز طور پر بغیر نوٹس اور واجبات ادا کئے نوکریوں سے نکالا گیا ہے جو لیبر قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے۔
انہوں ںے بتایا کہ اس صورتحال پر ان کی تنظیم نے احتجاج اور مظاہرے بھی کئے جس سے نکالے گئے لوگ تو نوکریوں پر بحال نہیں ہوئے لیکن مزید لوگوں کو نکالنے کا سلسلہ بند ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں
کھیت مزدوروں کے قانونی حقوق: 'بڑے زمینداروں کے اثرورسوخ کے باعث ہاریوں کو انصاف نہیں ملتا'
لاہور ہائیکورٹ میں وکالت کرنے والے چوہدری شعیب سلیم ان مزدوروں کی نوکری ختم کیے جانے کو لیبر قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی مزدور ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ جاتا ہے تو کمپنی اس پر بدنظمی یا کوئی دوسرا الزام لگا کر نوکری سے فارغ کر دیتی ہے تاکہ اسے ریٹائرمنٹ کی مد میں مراعات نہ دینا پڑیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی مزدور اتنی سکت نہیں رکھتا کہ وہ کسی دوسری جگہ نوکری کرلے یا عدالتوں میں سالہا سال چکر لگاتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیل اور ایسی دیگر کمپنیوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ مزدور طویل عرصہ قانونی چارہ جوئی نہیں کر پائیں گے اور مقدموں کی پیروی چھوڑ دیں گے۔
لوک سجاگ نے اس معاملے میں پیل کمپنی کا موقف جاننے کے لیے بارہا اس کی انتظامیہ سے رابطے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اس نمائندے نے کمپنی کے سیکرٹری محمد عمر فاروق کو بذریعہ ای میل بھی سوالات بھی ارسال کئے لیکن انہوں نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔
تاریخ اشاعت 5 ستمبر 2023