علی حیدر کو ہر اٹھارہ دن بعد خون کی دو بوتلیں لگوانا ہوتی ہیں۔
وہ کورونا وبا کی وجہ سے لگائی جانے والی کاروباری بندشوں کے باعث کئی ماہ سے بے روزگار ہیں مگر اس سے پہلے وہ لاہور کے ایک ریستوران میں باورچی کے طور پر کام کرتے تھے۔ مئی 2021 کے ایک گرم دن وہ جنوبی لاہور میں واقع کوٹ لکھپت ریلوے سٹیشن سے ملحقہ آبادی میں اپنے گھر کے واحد کمرے میں صوفے پر بیٹھے پلاسٹک کے ایک تھیلے میں دوائیاں ڈال رہے ہیں۔ صحن میں ان کی والدہ لوہے کی چار پائی پر بیٹھی تسبیح پر کچھ پڑھ رہی ہیں۔
وہ تیس سال کے ہو چکے ہیں تاہم اس تمام عرصے میں ان کی زندگی کا انحصار باقاعدگی سے خون لگوانے پر رہا ہے کیونکہ وہ تھیلیسیمیا نامی ایک ایسی پیدائشی بیماری کا شکار ہیں جس کے مریضوں کو ہر چند روز بعد خون کی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
علی حیدر کہتے ہیں: "خون لگوانا ایک تکلیف دہ عمل ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں غیر متوقع جسمانی رد عمل سامنے آ سکتے ہیں"۔ اسی لئے ان کے پاس کسی بھی منفی رد عمل سے بچنے کے لئے ہر وقت ادویات موجود ہوتی ہیں جنہیں عام طور پر وہ خون لگوانے سے پہلے استعمال کرتے ہیں۔
لیکن تمام تر احتیاط کے باوجود وہ ہیپاٹائٹس کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق "جب دس سال پہلے مجھے ہیپاٹائٹس کا مرض لاحق ہوا تو اس کی وجہ یا تو مجھے لگنے والا خون تھا یا وہ سرنج تھی جس سے مجھے خون لگایا گیا"۔
سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتقالِ خون ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پنجاب میں 2018 میں کیے گئے ایک حکومتی سروے کے مطابق ہیپاٹائٹس بی کے 66 فیصد مریض ایسے تھے جنہوں نے ماضی میں کم از کم ایک دفعہ خون لگوایا تھا۔ اسی طرح ہیپاٹائٹس سی کے 11 فیصد مریض ایسے تھے جنہوں نے پچھلے ایک سال میں خون لگوایا تھا۔
اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پنجاب کی خواتین میں ہیپاٹائٹس سی کی موجودگی کی شرح (9.1 فیصد) مردوں میں اس مرض کی شرح (8.8 فیصد) سے زیادہ ہے۔ خون کی منتقلی کے عمل کی نگرانی کرنے کے لئے بنائے گئے ایک صوبائی سرکاری ادارے پنجاب بلڈ ٹرانس فیوژن اتھارٹی کی سیکرٹری ڈاکٹر شہناز نعیم کے مطابق اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ زچگی کی وجہ سے عورتوں کو مردوں کی نسبت انتقالِ خون کی زیادہ ضرورت پڑتی ہے۔
ہیپاٹائٹس کیوں پھیل رہا ہے؟
پنجاب ہیپاٹائٹس ایکشن پلان (2019-2022) نامی سرکاری دستاویز کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 50 لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں۔ صرف پنجاب میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد 80 لاکھ کے لگ بھگ ہے جو اس صوبے کی مجموعی آبادی کا 8.9 فیصد بنتا ہے حالانکہ 2008 میں یہ تناسب6.7 فیصد تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہیپاٹائٹس مقامی آبادی میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس کے پھیلاؤ میں صحت کے شعبے میں ہونے والی بے احتیاطیاں خاص طور پر ایک نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان میں آلودہ انجکشن سرنج کا استعمال، طبی آلات کو صحیح طریقے سے جراثیم سے پاک نہ کرنا اور غیر محفوظ انتقالِ خون شامل ہیں۔
ڈاکٹر شہناز نعیم کا کہنا ہے کہ پنجاب میں انتقالِ خون سے ہیپاٹائٹس کے قریبی تعلق کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس صوبے میں خون کا عطیہ دینے والوں میں ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا لوگوں کا تناسب بالترتیب 1.55 فیصد اور 2.66 فیصد ہے۔
پاکستان میں خون کے عطیات کے دو اہم ذرائع ہیں۔ ملک میں سالانہ استعمال ہونے والے 30 لاکھ یونٹ خون کا 75 فیصد کے قریب مختلف سرکاری اور غیر سرکاری بلڈ بنک فراہم کرتے ہیں جبکہ باقی خون رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ کرنے والے لوگوں سے لیا جاتا ہے۔ اس تمام خون کی منتقلی سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس میں کہیں ہیپاٹائٹس بی، ہیپا ٹائٹس سی، ایڈز، سفلس اور ملیریا کے آثار تو شامل نہیں۔
یہ جانچ کرنے کے لئے سب سے زیادہ آئی سی ٹی (immunochromatographic test) کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جسے ریپڈ کِٹ (rapid kit) ٹیسٹ بھی کہتے ہیں۔ چھوٹے سرکاری اور نجی ہسپتالوں سمیت اکثر بلڈ بنک اور خون کے عطیات سے منسلک بیشتر غیر سرکاری ادارے خون کی جانچ پڑتال کے لئے اسی کِٹ کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ خون کی بیماریوں کے ماہرین اسے محفوظ نہیں سمجھتے۔اس حوالے سے کئی ایسی تحقیقات موجود ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ ریپڈ کِٹ کے ذریعے جانچے گئے خون کو جب کسی دوسرے طریقے سے جانچا کیا گیا تو نتائج مختلف نکلے۔
ڈاکٹر شہناز نعیم بھی آئی سی ٹی کِٹ کے ذریعے خون کی جانچ پڑتال کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ ان کے خیال میں "اس کِٹ کی درستگی کی شرح 90 فیصد ہے" جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ذریعے کیے گئے کم از کم دس فیصد ٹیسٹ ان بیماریوں کو پکڑ ہی نہیں سکتے جو خون کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پنجاب بلڈ ٹرانس فیوژن اتھارٹی نے خون کے عطیات سے منسلک کئی اداروں کو نوٹس بھیجے ہیں کہ وہ خون کی جانچ پڑتال کے دوسرے طریقے اپنائیں۔ لیکن پنجاب میں خون جمع کرنے والے زیادہ تر ادارے اس اتھارٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہی نہیں لہٰذا اِس کے پاس ان کے کام پر نظر رکھنے کے لئے بنیادی معلومات ہی موجود نہیں۔
اس صورتِ حال میں یہ طے کرنا ممکن ہی نہیں کہ ان میں سے کتنے ادارے محفوظ انتقالِ خون کے لئے ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں اور کتنے ان تدابیر کا کچھ خیال نہیں رکھتے۔ تاہم پنجاب ہیپاٹائٹس ایکشن پلان (2019-2022 ) کے مطابق پنجاب میں انتقالِ خون کا عمل بالکل بھی محفوظ نہیں کیونکہ یہاں ایک فرد سے دوسرے فرد کو منتقل کیے جانے والے خون میں 40 فیصد کی کوئی جانچ نہیں کی جاتی جبکہ بقیہ 60 فیصد میں سے بیشتر کو ناقص طریقوں سے جانچا جاتا ہے۔
اس طرح جانچے گئے خون کے صحت مند ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو جانا ایک لازمی امر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نزہت مشاہد کہتی ہیں کہ ان شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے خون کو منتقل کرنے سے پہلے ریپڈ کٹ کے بجائے دوسرے طریقوں سے اس کی جانچ کرنا بہت ضروری ہے۔
وہ پاکستان آرمی کے میڈیکل کور سے بریگیڈئر کے طور پر ریٹائر ہوئی ہیں اور انتقالِ خون کے حوالے سے بہت سی تحقیق کر چکی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک محفوظ انتقالِ خون کا نظام رائج کرنے کے لئے نا صرف اس عمل سے منسلک اداروں کو قانونی دائرہِ کار اور قواعد و ضوابط کا پابند بنانا لازم ہے بلکہ خون کی جانچ کے جدید طریقوں جیسے کلایا (CLIA) اور نیٹ (Nucleic Acid Amplification Test ) کو اپنانا بھی بہت اہم ہے "ورنہ آنے والے سالوں میں انتقالِ خون سے پھیلنے والی طبی پیچیدگیوں کا کنٹرول اور علاج نا ممکن ہو جائے گا"۔
جب کبھی ایسی صورتِ حال پیدا ہو جائے گی تو علی حیدر جیسے لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے دوائیوں اور احتیاط کی نہیں بلکہ کسی معجزے کی ضرورت ہو گی۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 2 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 16 دسمبر 2021