رواں سال جون میں یونان کے سمندر میں کشتی ڈوبنے کے واقعے میں آزاد کشمیر کے گاؤں بنڈلی سے تعلق رکھنے والے 28 افراد بھی جاں بحق ہوئے۔ یہ لوگ آنکھوں میں اچھے مستقبل کے خواب سجائے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ حادثے کے بعد ان کا کوئی سراغ نہ مل سکا اور انہیں لاپتہ قرار دے دیا گیا جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے۔
بنڈلی گاؤں آزاد کشمیر کے ضلع کوٹلی کی تحصیل کھوئی رٹہ میں واقع ہے۔ یہاں کے بلدیاتی کونسلر ادیب ظفر اس علاقے میں چند بڑنے اور خوبصورت گھروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے گھر ہیں جو دس پندرہ سال پہلے اٹلی چلے گئے تھے۔
ان کے بقول مقامی طور پر روزگار کے مواقع موجود نہیں ہیں۔ نوجوان جب اٹلی اور یورپ میں موجود لوگوں کے گھروں میں خوش حالی دیکھتے ہیں تو ہر خطرہ مول لینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
لاپتہ محمد شمریز بھی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں تھے۔ ان کی والدہ روبینہ بی بی بتاتی ہیں کہ شمریز کے والد ان کے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے جس کے بعد انہوں ںے اکیلے ان کی پرورش کی۔ بالغ ہونے پر انہوں ںے سنار کا کام سیکھنا شروع کر دیا اور اس طرح باروزگار ہو گئے اور ان کی شادی بھی ہو گئی جس سے ان کے تین چھوٹے بچے ہیں۔
روبینہ بتاتی ہیں کہ جب ان کے بیٹے نے اٹلی جانے کا فیصلہ کیا تو وہ تینوں بچوں کے ساتھ ان کے پاس آئے اور کہا کہ "یہ بچے آپ کے حوالے ہیں۔ میں جلد واپس آؤں گا۔"
شمریز کی اہلیہ کنیز فاطمہ نے بتایا کہ محبت کی شادی کرنے کے بعد ان زندگی بہت پُرسکون تھی۔ البتہ کاروبار میں دھوکا کھانے کے بعد شمریز نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہاں گزارا مشکل ہے۔
"ہمارے علاقے کے ایک ایجنٹ نے شمریز کو کہا کہ وہ انہیں 15 دن میں اٹلی پہنچا دے گا۔ میں نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کہتے تھے کہ دیکھو کس طرح میری کمائی کو لوٹ لیا گیا ہے۔ اتنی محنت اٹلی میں کی ہوتی تو اب تک بہت سے پیسے کما چکا ہوتا۔
اس علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت صوبیدار (ر) خان ملک کا بیٹا اور بھانجا بھی اس حادثے میں لاپتا ہیں۔ ان کا کہنا ہے وہ نہیں جانتے کہ کب اور کیسے وہ دونوں ایجنٹوں کے جال میں پھنس گئے۔
"میرے بیٹے سلیمان اور بھانجے یونس دونوں کی عمر تقریباً 28 سال ہے۔ دونوں شادی شدہ اور دو دو بچوں کے والد ہیں۔ دونوں ہی علاقے میں اپنی اپنی دکان چلاتے تھے۔ مجھے ان کے لیبیا پہنچنے کے بعد پتا چلا کہ ان کی ذہن سازی کرنے والا ایجنٹ ہمارے ہی علاقے کا ہے۔ اس نے انھیں بتایا کہ دیکھو میں نے فلاں فلاں کو باہر بھجوایا ہے اب وہ یورو کما کر گھر بھیجتے ہیں۔"
لاپتہ محمد سمیر بھی حادثے کا شکار ہونے والی کشتی پر سوار تھے۔ وہ پاکستان میں ٹریکٹر چلاتے تھے۔ ان کے والد نور محمد نے بتایا کہ کشتی پر بیٹھتے وقت محمد سمیر نے فون پر انہیں کہا تھا کہ وہ اٹلی پہنچ کر ان سے بات کریں گے۔ لیکن ان کا فون کبھی نہیں آیا۔"
نور محمد بتاتے ہیں ان کے بیٹے نے ایجنٹ کو 25 لاکھ روپے دیے تھے۔ مگر یہ پیسے بلیک میلنگ کر کے لیے گئے۔
خان ملک کا کہنا ہے کہ بیٹے اور بھانجے نے انہیں بتایا تھا کہ ایجنٹ کو پیسے اٹلی پہنچنے پر دینا ہے۔ مگر دبئی میں انھوں نے فون پر کہا کہ "ایجنٹ کہتا ہے کہ پیسے ابھی ملیں گے تو آگے جاؤ گے ورنہ نہیں۔"
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی اس لیے انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں ملنے والا ایک پلاٹ اونے پونے داموں فروخت کر دیا۔
کنیز فاطمہ کہتی ہیں کہ جب ان کے شوہر شمریز دبئی پہنچے تو انھوں نے مجھے کہا کہ جو 23 لاکھ روپے ایجنٹ کو اٹلی پہنچنے پر دینا ہیں وہ ابھی دے دوں۔ ان کی جانب سے پیسے منگوانے کا سلسلہ لیبیا پہنچنے تک جاری رہا۔
کنیز فاطمہ بتاتی ہیں کہ شمریز دبئی سے مصر اور پھر مصر سے لیبیا پہنچے جہاں پر ان کا قیام بہت طویل ہو گیا تھا۔ وہاں شمریز پر تشدد بھی کیا گیا۔
"ایک مرتبہ فون پر مجھے کہنے لگے کہ یہ بہت ظالم لوگ ہیں۔شمریز کو کئی کئی دن تک اس کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا۔ انہوں ںے مجھے کہا کہ میں اپنا زیور فروخت کر کے ایجنٹ کو پیسے دوں تاکہ وہ مجھےمنزل پر پہنچائے۔ میں نے زیور پانچ لاکھ روپے میں فروخت کیے اور ایجنٹ کو رقم دیتے ہوئے کہا کہ میں تمھارے پاؤں پکڑتی ہوں شمریز کو واپس بھیج دو۔ ایجنٹ نے کہا کہ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے تاہم کچھ دن تک وہ اٹلی پہنچ جائے گا۔"
خان ملک کہتے ہیں کہ بیٹے اور بھانجے نے انہیں بتایا تھا کہ وہ 15 دن میں اٹلی ہوں گے مگر وہ کئی ہفتے سے لیبیا میں ہی تھے۔
"ایک روز میرا چھوٹا بیٹا لیبیا میں موجود اپنے بھائی سلیمان سے بات کر رہا تھا۔ میں نے اس سے فون لے لیا جس کے بعد جو سنا وہ میرے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ میرے بچوں کو وہاں پر تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا۔ پیسے بھی چھین لیے گئے تھے۔ میں نے بیٹے پوچھا کہ میں کیا کر سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ کچھ پیسے بھجوائیں جس پر ان کو مزید پیسے بھجوائے تھے۔"
یہ بھی پڑھیں
'پہلے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے، اب اس کی میت وطن واپس منگوانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے'
کشتی پر سوار 30 سالہ محمد یونس بنڈلی میں دیہاڑی پر مزدوری کرتے تھے۔ انہوں نے لواحقین میں بیوہ اور تین بچے چھوڑے ہیں۔ ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ اٹلی جانے کے لیے انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر پیسے اکھٹے کیے تھے۔ اس کے علاوہ 15 لاکھ روپے قرض بھی لیا تھا۔
"کشتی میں سوار ہوتے وقت اس نے کہا تھا کہ اٹلی میں مزدور کی بہت قدر ہے۔ میں وہاں پیسے کماؤں گا۔ ہم ایک شاندار گھر بنائیں گے جس میں ہم سب رہیں گے۔"
خان ملک کا کہنا ہے کہ علاقے کے بچوں کو ورغلایا گیا ہے۔ انھیں موت کے منہ میں دھکیلا گیا ہے۔ انھیں ایسی کشتی میں سوار کروایا گیا جس میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ خطرناک ترین سفر میں مناسب حفاظتی اقدامات اختیار نہیں کیے گئے۔ لائف جیکٹس بھی نہیں تھیں۔
ایسا کرنے والے معافی کے قابل نہیں ہیں۔
کنیز فاطمہ کہتی ہیں کہ وہ فیصلہ کر چکی ہیں کہ انصاف کے لیے آخری سانس تک لڑیں گی اور ہر دروازے پر دستک دیں گی کیونکہ ان کے بچوں کو یتیم کرنے والے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔
تاریخ اشاعت 16 اگست 2023