حسن ہر روز صبح سویرے جاگتے ہی اپنے موبائل فون پر روس اور یوکرین کی جنگ کے بارے میں خبریں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ تنازعہ جلد از جلد ختم ہو تاکہ وہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کر سکیں۔
ان کے والد، جو سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں، ہمیشہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر بنے۔ اس لیے خیبرپختونخوا کے ضلع مالاکنڈ کی تحصیل درگئی کے رہنے والے 22 سالہ حسن نے جیسے ہی انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تو انہیں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یوکرائن بھیج دیا گیا۔ لیکن وہاں کے شہر خارکیف میں تعلیم حاصل کرتے ابھی انہیں تین ماہ اور بیس دن ہی گزرے تھے کہ 24 فروری 2022 کو روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا جس سے وہاں کے تعلیمی ادارے بند ہو گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے چند روز پہلے ہی یوکرائن میں پاکستان کے سفارت خانے نے پاکستانی طلبا کو مشورہ دے دیا تھا کہ وہ جلد از جلد وہاں سے نکل جائیں۔ اس مشورے پر عمل درآمد کرتے ہوئے وہ خارکیف سے نکلے اور چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ایک ایسی جگہ چلے گئے جو جنگ سے محفوظ تھی۔ ان کے مطابق وہاں دو سو اور پاکستانی بھی موجود تھے۔
اس جگہ سے یہ لوگ سفارت خانے کی فراہم کردہ بسوں میں بٹیھ کر قریبی ملک پولینڈ پہنچ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پولینڈ میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے نے انہیں ایک ایسے کیمپ میں ٹھہرایا جہاں چار سو طلبہ سمیت چھ سو دیگر پاکستانی پہلے ہی قیام پذیر تھے۔
اسلام آباد میں مقیم دفتر خارجہ کے ایک اہل کار اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یوکرائن سے پاکستانیوں کے انخلا کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے وہاں تین ہزار طلبا سمیت سات ہزار پاکستانی رہتے تھے جنہیں بحفاظت پولینڈ، رومانیہ اور ہنگری جیسے ملکوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان میں سے تقریباً دو ہزار افراد کو اب تک پاکستان بھی لایا جا چکا ہے.
حسن بھی کئی دوسرے لوگوں کے ہمراہ ہوائی جہاز کے ذریعے پاکستان واپس پہنچے ہیں۔ لیکن یہاں آ کر وہ مسلسل پریشان رہتے ہیں کہ وہ اپنی پڑھائی کا کیا کریں۔
اگرچہ یوکرائن میں ان کی یونیورسٹی نے گزشتہ دو ماہ سے آن لائن پڑھائی شروع کر دی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے طب کی تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "محض آن لائن لیکچر سننے سے طبی مہارت حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کے لیے استاد سے سوال کرنا اور عملی طبی تربیت حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے"۔
تاہم اگر جنگ بند بھی ہو جائے تو ان کے پاس یوکرائن واپس جانے کے لیے مالی وسائل موجود نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کی پڑھائی کے لیے درکار 35 لاکھ روپے اکٹھے کرنے کے لیے نہ صرف اپنی تمام جمع پونجی استعمال کر ڈالی تھی بلکہ کچھ رقم اپنے دوستوں سے ادھار بھی لی تھی۔ لیکن حسن نہ تو اب یونیورسٹی میں جمع شدہ فیس واپس لے سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں یہ امید ہے کہ انہیں کبھی وہ رقم واپس مل سکے گی جو انہوں نے خار کیف میں رہائش کے لیے پیشگی ادا کر رکھی ہے۔
منصور احمد کو بھی اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ وہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھتے ہیں اور جنگ کے باعث اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر یوکرائن سے پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پولینڈ میں تعینات پاکستانی سفارتی عملے نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ جونہی جنگ ختم ہو گی تو حکومت پاکستان انہیں یوکرائن واپس جانے میں مدد دے گی۔ ان کے بقول انہیں یہ بھی کہا گیا کہ "اگر جنگ نے طول پکڑا تو پاکستان میں ہی ان کی پڑھائی کا بندوبست کر دیا جائے گا"۔
لیکن اب وہ "اپنے مستقبل کے بارے میں شدید غیریقینی کا شکار ہیں" کیونکہ، ان کے بقول، پاکستانی حکومت ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والوں نے اپنی آبائی زمین بیچ کر ان کی تعلیم کے لیے 25 لاکھ روپے کا انتظام کیا تھا اس لیے اب ان کے پاس ایسے کوئی مالی وسائل موجود نہیں جنہیں استعمال کر کے وہ خود ہی مزید تعلیم حاصل کر سکیں۔ نتیجتاً وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت ان جیسے طلبا کی مالی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انہیں پاکستانی تعلیمی اداروں میں داخلے دے اور ان کے تعلیمی اخراجات بھی خود برداشت کرے۔
تاہم جو پاکستانی طالب علم ابھی تک پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ میں مقیم ہیں ان میں سے بیشتر کا مطالبہ ہے کہ حکومتِ پاکستان نہ صرف ان کی باقی تعلیم کا خرچ خود اٹھائے بلکہ انہیں انہی ملکوں کے تعلیمی اداروں میں داخلے بھی لے کر دے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔
امتحان پر امتحان
طبی تعلیم کی نگرانی کرنے والا مرکزی سرکاری ادارہ پاکستان میڈیکل کمیشن بیرون ملک ڈاکٹر بننے والے پاکستانی طلبا کو اجازت دیتا ہے کہ مخصوص حالات میں وہ اپنی پڑھائی اپنے ہی ملک میں جاری رکھ سکیں۔ اس مقصد کے لیے کمیشن کے زیراہتمام ہر تین ماہ بعد نیشنل ایکوئی ویلنس بورڈ کا امتحان منعقد کیا جاتا ہے جسے پاس کرنے والے طلبا مقامی میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
لیکن بونیر سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ امین رحمان کہتے ہیں کہ یوکرائن سے واپس آنے والے ان کی طرح کے طلبا کو یہ سہولت نہیں دی جا رہی۔ وہ پچھلے چار ماہ میں کئی مرتبہ پاکستان میڈیکل کمیشن سے رابطہ کر چکے ہیں لیکن، ان کے مطابق، ہر مرتبہ انہیں انتظار کرنے کا کہا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انڈیا، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات اور برِاعظم افریقہ کے متعدد ممالک میں اُن کے ہم جماعت طلبا کو مقامی اداروں میں ہی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی سہولت دی گئی ہے اور اس کے لیے ان سے کوئی اضافی فیس بھی نہیں لی جا رہی۔
یہ بھی پڑھیں
موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت اور روس-یوکرین جنگ کی حدت: 'پاکستان کو گندم کی درآمد پر پہلے سے زیادہ خرچہ کرنا پڑے گا'۔
حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محمد ہمایوں مہمند نے 5 جولائی 2022 کو یہ معاملہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن کے اجلاس میں بھی اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے قواعدوضوابط کے مطابق بیرون ملک سے آئے ہوئے طالب علموں کو پاکستان میں پہنچنے کے دو سال بعد میڈیکل کالجوں کا داخلہ ٹیسٹ دینے کی اجازت ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ یوکرائن سے آنے والے طلبا کا معاملہ خاص ہے اس لیے "انہیں یا تو اس سال ستمبر میں ہی یہ داخلہ ٹیسٹ دینے کی اجازت دی جائے یا انہیں اسی سال دسمبر میں نیشنل ایکوئی ویلنس بورڈ کا امتحان دے کر مقامی میڈیکل کالجوں میں پڑھنے کا موقع دیا جائے"۔
کمیٹی نے ان کی تجاویز سے اتفاق کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کو بھی ان سے آگاہ کیا جائے گا۔ (تاہم کمیشن کے ایک اعلی عہدیدار، جن کے کہنے پر ان کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، کہتے ہیں کہ انہیں اس فیصلے کے حوالے سے کمیٹی کی طرف سے تا حال کوئی مراسلہ موصول نہیں ہوا۔)
دوسری طرف خیبر پختونخوا کے وسطی شہر مردان سے تعلق رکھنے والے طالب علم شعبان انجم سمجھتے ہیں کہ ان امتحانات کو پاس کرنے کی شرط کا بھی خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ وہ یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں میڈیکل کے دوسرے سال میں پڑھ رہے تھے جب جنگ شروع ہونے کی وجہ سے انہیں پولینڈ جانا پڑا۔ وہ تاحال وہیں مقیم ہیں اور کہتے ہیں کہ ان جیسے "طلبا اتنے ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کہ ان کے لیے پاکستان واپس آکر کسی قسم کا امتحان دینا ممکن ہی نہیں"۔ اس لیے وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں "غیرمشروط طور پر پاکستانی میڈیکل کالجوں میں داخلہ دیا جائے"۔
تاریخ اشاعت 15 اگست 2022