میری بیٹی کا ایک چینی لڑکے سے فیس بک پر رابطہ ہوا۔ دونوں کے درمیان چھ ماہ تک بات چیت ہوتی رہی۔ اس نے متعدد بار اپنے والدین اور دیگر گھر والوں سے بات کروائی۔ پھر دونوں نے شادی کر لی۔ میری بیٹی اب چین میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔
یہ کہنا ہے گوجرانوالہ کے علاقے کھوکھرکی کے سلیم مسیح کا جو ایک سرکاری ادارے میں درجہ چہارم کی ملامت کرتے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ چینی لڑکے سے ان کی سب سے بڑی بیٹی نے چند ماہ قبل دبئی میں شادی کی تھی جس کے بعد وہ چین چلی گئیں۔
سلیم مسیح کے مطابق ان کا اپنی بیٹی کے ساتھ تقریباً روزانہ رابطہ ہوتا ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش ہے۔ وہ خاوند کے ساتھ اس کی دکان پر بھی جاتی ہے اور وہاں کام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنی بیوی کے اصرار پر میں نے لڑکے سے بات چیت کی۔ مجھے نہ چینی اور نہ انگلش زبان آتی ہے۔ میں ویڈیو کال پر اشاروں اور گفتگو کے طریقے سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتا رہا کہ کہیں وہ جرائم پیشہ، جھوٹا یا فراڈیا تو نہیں۔ تاہم وہ مجھے بہتر لگا۔
"پاکستان میں بیٹی کی شادی کرنا کوئی آسان کام نہیں ، غریب ماں باپ زندگی بھر قرض اتارتے رہتے ہیں ، میری بیٹی گریجوایٹ تھی جس نے ہمیں پریشان نہیں ہونے دیا اور اپنا بوجھ خود ہی اٹھالیا، مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے کھوکھرکی اور اس سے ملحقہ علاقے سلیم کالونی کی تین لڑکیوں نے بھی چینی لڑکوں سے شادی کی تھی۔ چار سال قبل ان میں سے دو لڑکیاں چین سے واپس آ گئیں جبکہ تیسری وہیں رہی جو بتاتی ہے کہ اس خاوند اچھا ہے اور اس نے انہیں ہر طرح کی سہولت دے رکھی ہے۔
چند سال پہلے ایسے واقعات بھی سامنے آئے تھے کہ چینی لڑکوں کے ساتھ شادی کرنے والی پاکستانی لڑکیوں کو دھوکہ دیتے ہوئے انہیں جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔ بعض کے بارے میں یہ اطلاع بھی آئی کہ انہیں انسانی اعضا فروخت کرنے والے گروہ لے گئے ہیں۔
2019ء میں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ایسے واقعات تھی سامنے آئے جن میں پاکستانی لڑکیوں کی چین کے لڑکوں کے ساتھ شادیاں ہوئیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہ چل پائے اور اسی لیے ان کی علیحدگی ہو گئی۔
ایسے واقعات بہت سی پاکستانی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ کی طرف سے کہا گیا کہ لڑکا ان کے مذہب کا پیروکار نہیں یا ملحد ہے اور اس بارے میں ان سے جھوٹ بولا گیا۔ فریقین میں ایک دوسرے کے معاشرے کے بارے میں آگاہی نہ ہونے سے بھی مسائل پیدا ہوئے۔ بعض واقعات میں چینی لڑکے پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ ثقافتی و ذہنی ہم آہنگی پیدا نہ ہونے سے بیزار ہوئے جس کے باعث انہوں ںے بیویوں کو طلاق دے دی۔
ایف آئی اے کے عہدیدار محسن بٹ بتاتے ہیں کہ ان دنوں یہ معاملہ میڈیا میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آیا جس کےبعد پالیسی گائیڈ لائنز طے کی گئیں جن کے مطابق یہ دیکھا جاتا ہے کہ پاکستانی لڑکیاں کس کے ساتھ چین جا رہی ہیں اور ان کے خاندان کا کوئی رکن بھی ان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ اگر چین سے آنے والا لڑکا اکیلا آئے اور واپسی پر کسی لڑکی کو بیوی ظاہر کر کے لے جا رہا ہو تو اس بارے میں چھان بین کی جانے لگی۔
"اگر شادی میں والدین کی رضامندی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی کو چین جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ایسے والدین سے بھی پوچھنا چاہیے کہ کیا انہوں نے لڑکے کے بارے میں پوچھ گچھ کی ہے، کہیں وہ جرائم پیشہ یا انسانی سمگلنگ کے کسی گروہ کا حصہ تو نہیں۔"
ویمن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی صدر ثریا منظور کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں لڑکی کے پیدا ہوتے ہی والدین اس کی شادی کی فکر ہونے لگتی ہے اور بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ والدین کی یہی سوچ چینی لڑکوں کے ساتھ شادیوں میں بھی کارفرما ہے۔ غریب والدین یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ شادی پر اٹھنے والے اخراجات بچ گئے ہیں اور لڑکی بھی اپنے گھر چلی گئی ہے، انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ وہاں جاکر کیسے زندگی بسر کرے گی۔ جب میاں بیوی کا رہن سہن اور زبان ایک نہ ہو گی تو مسائل ضرور آئیں گے۔
ثریا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے ہاں شادی کرنے سے پہلے رنگ و نسل، مذہب اور مسلک ہی نہیں بلکہ برادری اور خاندان کی معاشی صورت حال کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اسی لیے اگر لڑکا برسر روزگار ہو، معقول تنخواہ پاتا، ہم مذہب بھی ہو اور غیر ملکی بھی تو اسے موقع جان کر قبول کر لیا جاتا ہے۔
میرج سنٹر چلانے والے ساجد ڈوگر پاکستانی لڑکے لڑکیوں کے بیرون ملک رشتے کروانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی کل آبادی ایک ارب 42 کروڑ کے قریب ہے جس میں ہر 100 خواتین کے مقابلے میں 105 مرد ہیں۔ اس طرح ملک کی مجموعی آبادی میں تین کروڑ مرد غیر شادی شدہ ہیں۔ چین میں لڑکیوں کو شادی سے زیادہ نوکری میں دلچسپی ہوتی ہے اور وہ پڑھائی مکمل کر کے نوکری یا کام کاج کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
"یہ تاثر غلط ہے کہ چینی لڑکے شادی کے لیے صرف پاکستانی لڑکیاں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ بھارت، افغانستان، سری لنکا، روس اور میانمار کی لڑکیوں سے بھی شادیاں کر رہے ہیں۔"
یہ بھی پڑھیں
مسیحی خاتون کی 20 سالہ جدوجہد، 'میں طلاق مانگتی رہتی ہوں مگر میرا شوہر میری جان نہیں چھوڑتا'
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ان دنوں بہت سے والدین بیرون ملک کے رشتے ڈھونڈنے کے لیے آ رہے ہیں۔ مالی لحاظ سے مستحکم لوگ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں رشتہ ڈھونڈتے ہیں جبکہ مالی لحاظ سے کمزور گھرانے چین اور عرب ممالک کے رشتوں کی بات کرتے ہیں۔
پاکستانی لڑکیوں کی چینی لڑکوں سے شادیوں کے حوالے سے حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں سینکڑوں پاکستانی لڑکیاں شادیاں کر کے چین جا چکی ہیں اور ان میں اکثریت مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کی ہے۔
ان لڑکیوں کے والدین کی جانب سے چینی لڑکوں سے بھاری رقوم وصول کرنے کی اطلاعات بھی آتی رہی ہیں۔ تاہم سلیم مسیح کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے چینی داماد سے کوئی رقم نہیں لی۔ البتہ ان کے داماد نے ہونے والی بیوی کو دبئی بھجوانے، کپڑوں، جوتیوں اور زیورات کے لیے رقم ضرور دی تھی۔
"ہم جہاز کی ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اسی لیے یہ خرچ داماد نے ہی کرنا تھا۔ یوں سمجھیں کہ ہمارا کوئی خرچہ نہیں ہوا اور بیٹی بیاہی گئی۔"
تاریخ اشاعت 17 اگست 2023