پنتتالیس سالہ سید بادشاہ، باجوڑ کے ضلعی ہیڈکوارٹر خار میں سٹیشنری کی چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس مہنگائی میں دو چار سو روپے روزانہ آمدن سے گزارا کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم جیسے تیسے گزر بسر ہو رہی تھی کہ دو سال قبل ان کے دو بیٹوں نے غیر قانونی راستے سے یورپ جانے کی ٹھان لی۔
"ایران کے راستے جانے کی کوشش میں دونوں گرفتار ہو گئے اور ان کی رہائی پر مجھے لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑے۔ جان لیوا سفر سے واپسی پر بڑے بیٹے نے تو ہار مان لی مگر دسویں جماعت میں زیر تعلیم چھوٹے بیٹے یونس کے سر سے یہ بھوت نہ اترا۔"
"وہ (یونس) کہتا تھا کہ اگر آپ لیبیا کے راستے مجھے دیگر نوجوانوں کے ساتھ یورپ نہیں بھیجیں گے تو میں چپکے سے دوبارہ براستہ ایران چلا جاؤں گا یا خود کشی کرلوں گا۔"
بادشاہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کی ضد پر اسے اٹلی پہنچانے کے لیے ایک مقامی ایجنٹ سے 26لاکھ روپے رقم طے کی اور رواں سال 10مئی کو انہیں پاسپورٹ کے ساتھ پانچ لاکھ روپے بھی دے دیے۔
"یونس 17 مئی کو لاہور ائیرپورٹ سے روانہ ہوئے اور براستہ دبئی دو دن بعد مصر سے لیبیا پہنچ گئے۔ طویل انتظار کے بعد وہاں سے 25 اگست کو اٹلی جانے کے لیے کشتی روانہ ہوئے ہی تھے کہ لیبیا کے حکام نے گرفتار کرکے طرابلس جیل بھیج دیا ۔"
یونس تبھی سے دیگر سیکڑوں غیرقانونی تارکین وطن ( ڈنکی لگانے والوں) کے ساتھ لیبیا کی جیل میں بند ہیں جن سے اب تک ان کے والدین کا رابطہ نہیں ہو سکا۔
تحقیق کار اور صحافی مجاہد حسین بتاتے ہیں کہ پاکستان اور ہمسایہ ممالک کے باشندے غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے کے لیے دو راستے استعمال کرتے ہیں۔
"کچھ لوگ بلوچستان سے ایران اور ترکی کے راستے یورپ میں داخل ہوتے ہیں تاہم یہ سفر گاڑی پر یا پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ اس راستے سے زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لوگ جاتے ہیں۔ دوسرا راستہ پنجاب اور کشمیر کے رہائشی زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہوائی جہا ز سے دبئی اور مصر کے راستے لیبیا پہنچتے ہیں اور وہاں سے کشتی پر یونان اور اٹلی جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں خیبر پختونخوا کے نوجوان بھی یہی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔"
سیدآغا (فرضی نام) برسوں سے انسانی سمگلنگ کا دھندہ کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ رواں سال 14 جون کو یونان کے قریب سمندر میں کشتی الٹنے سے پاکستانیوں سمیت سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
"حادثے کے بعد حکام نے لیبیا میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اقدمات اُٹھانا شروع کیے اور وہاں پر مقیم یورپ جانے کے منتظر ہزاروں افراد کو گرفتار کر لیا جن میں سیکڑوں پاکستانی بھی شامل ہیں۔"
ڈنکی لگانے والوں (غیر قانونی تارکین وطن) کو ایک بڑا سانحہ گذشتہ سال 14جون کو بھی پیش آیا تھا جس کی تصدیق اس وقت کے پاکستانی وزیر داخلہ رانا نثاء اللہ نے کی تھی۔ انہوں نے 23جون 2023ء کو قومی اسمبلی میں بتایا تھا کہ 400 افراد کی گنجائش والی کشتی میں 700 لوگوں کو سوار کیا گیا تھا۔
"یہ لوگ غیر قانونی طور پر اٹلی جارہے تھے کہ یونان کے قریب کشتی سمندر میں ڈوب گئی۔ ہلاک ہونے والوں میں 350 پاکستانی شامل تھے۔"
بیرون ملک قید پاکستانیوں کی مدد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ساڑھے 23 ہزار سے زائد پاکستانی قید ہیں جن کی سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یونان، بھارت اور عراق کی جیلوں میں ہے۔
جے بی پی کے رواں سال 24 فروری کو جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق بیرون ملک قید پاکستانیوں میں سے 74 فیصد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں قید ہیں۔
رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں حکومت بھی قومی اسمبلی کے اجلاس میں 20 ہزار سے زائد پاکستانیوں کے بیرون ملک حراست میں ہونے کی تصدیق کر چکی ہے جن میں سے 68 کو مختلف الزامات کے تحت سزائے موت کا سامنا ہے۔
"سعودیہ، امارات، بھارت، ملائیشیا کے علاوہ برطانیہ، عمان، ترکی، بحرین، یونان، چین، جرمنی، عراق، امریکہ، سری لنکا، سپین، افغانستان، جنوبی افریقہ اور فرانس میں بھی پاکستانی زیر حراست ہیں۔"
قومی اسمبلی میں پیش کردہ اس ڈیٹا میں لیبیا میں قید پاکستانیوں کے اعدادو شمار نہیں دیے گئے جس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ حکومت کے پاس بھی ان قیدیوں کی تصدیق شدہ تعداد نہیں ہیں؟
تاج محمد بھی باجوڑ کے رہائشی اور ایک سروس سٹیشن پر ملازمت کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ضلع باجوڑ کے تقریباً 100 خاندان ایسے ہیں جن کے ایک یا دو نوجوان لیبیا میں زیرحراست ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے 18 سالہ بھائی غلام قادر سکینڈ ائیر میں زیر تعلیم تھے کہ یورپ جانے کے چکر میں پڑ گئے، وہ اب طرابلس کی جیل میں قید ہیں۔
"ہم نے غلام قادر کو بھیجنے کے لیے گھر کا سامان بیچا اور لوگوں سے قرض لیا۔ ساڑھے پانچ ہزار ڈالر ایجنٹ کے کہنے پر ایک آدمی (ضامن) کے پاس رکھے۔ میں اپنے بھائی کے لیے کئی بار دفتر خارجہ اور دیگر اعلی حکام سے مل چکاہوں لیکن اب تک بھائی سے رابطہ تک نہیں ہو سکا۔"
تاج محمد کہتے ہیں کہ بوڑھے والدین ہر وقت غلام قادرکے بارے میں پوچھتے ہیں مگر انہوں نے اُن کی بیماری اور تکلیف کو محسوس کرنے ہوئے انہیں اب تک بھائی کی گرفتاری کا نہیں بتایا۔
"آخری بار بھائی سے میری بات 10 اگست کو تب ہوئی تھی جب اُن کو جیل منتقل کیا جا رہا تھا۔"
مجاہد حسین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ڈنکی لگانے کا لالچ دینے والے اکثر بڑے ایجنٹس روس، تاجکستان، دبئی، ایران اور یونان میں رہتے ہیں جو عام طور پر پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے نمائندوں کو استعمال کرتے ہیں۔
"جب کسی گاؤں کے ایک نوجوان کا بیرون ملک جانے کے لیے ایجنٹ سے رابطہ قائم ہوجاتا ہے تو وہ ساتھ کے علاقوں کے نوجوان بھی ان لوگوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں"۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایجنٹس نیٹ ورک کے صورت میں کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک آدمی نوجوانوں کو کوئٹہ سے لے جا کر ایرانی سرحد پر اپنے ساتھی کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس نیٹ ورک کا سلسلہ ترکی، دبئی، مصر، لبیا اور اٹلی تک پھیلا ہوا ہے جہاں جگہ جگہ ان کے لوگ موجود ہوتے ہیں۔
سر کاری ادارے اس نیٹ ورک کو توڑنے میں بےبس نظر آتے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف آئی اے) کے مطابق خیبر پختونخوا میں رواں سال انسداد انسانی سمگلنگ کے 408 واقعات ہوئے جن میں 76 کیسز میں ملزمان کو عدالت سے سزائیں ہوئیں۔
"ویزہ فراڈ کے 15، جعلی کاغذات بنانے کے 90 اور انسانی سمگلنگ کے 15مقدمات درج کیے گئے جبکہ 212 افراد کو ائیرپورٹ یا سرحدی مقامات پر آف لوڈ کیا گیا۔"
رواں سال جون میں یونان کے قریب کشتی کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں سے پانچ افراد کے نام اور معلومات خیبر پختونخوا ایف آئی اے انسداد انسانی سمگلنگ سرکل کو بھیجی گئی تھیں۔ اس واقعہ کے بعد انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی اے نے کارروائیاں شروع کی تھیں جو اب تک جاری ہیں۔
ایک عہدایدار نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ پانچ ہلاک شدگان میں سے ایک پشاور کے بجگی روڈ کے رہائشی تھے جن کا پورا خاندان کئی سال پہلے پنجاب کے شہر گجرات نقل مکانی کر گیا تھا۔
"ایک متوقی کا تعلق نوشہرہ سے تھا، جن کا ایجنٹ ترکی میں مقیم تھا۔ تین متوفی باجوڑ کے رہائشی بتائے گئے تھے جن میں سے ایک اپنے گھر میں صحیع سلامت موجود تھا جبکہ دو نوجوانوں کے والدین نے یہ کہہ کر ایجنٹ کی معلومات دینے سے گریز کیا کہ ہم نہیں جانتے۔"
یوں اس کیس میں نہ صرف کوئی پیش رفت نہ ہوسکی بلکہ کشتی حادثے پر خیبر پختونخوا میں ایف آئی اے کے کسی دفتر میں کوئی شکایت تک درج نہیں کرائی گئی۔
لیبیا میں قیدیوں کی حالت زار
تاج محمد کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق لیبیا میں جیل حکام کو رشوت دے کر ہی قیدیوں کا اپنے راشتہ داروں سے رابطہ کیا یا کرایا جاسکتا ہے جبکہ وہاں جیلوں میں خوراک انتہائی ناقص فراہم کی جاتی ہے۔
"طرابلس جیل میں بڑا مسئلہ جلدی امرض ہیں جو وہاں دوران جنگ مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے شروع ہوئے۔ بھائی کی رہائی کے لیے ہمارے پاس لاکھوں روپے نہیں ہیں تاہم ان کے کھانے پینے اور علاج کے لیے ہم کچھ پیسے بھیج سکتے ہیں مگر حکومت سے کوئی رہنمائی نہیں مل رہی۔"
دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ لیبیا میں بھارتی، بنگلہ دیشی اور مصری غیر قانونی تارکین وطن کی بھی بڑی تعداد قید ہے تاہم پاکستانی حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے قیدیوں کو زیادہ مسائل کاسامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کشتی ڈوبنے کے مسلسل واقعات کے بعد نہ صرف لیبیا بلکہ یونان و دیگر ممالک نے عالمی دباؤ پر بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں اور بہت سے لوگ گرفتار کیے ہیں۔
"ہم اپنے شہریوں کی رہائی اور ان کی قانونی امداد کے لیے عالمی اداروں سے رابطے میں ہیں۔ اُمید ہے جلد کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔"
ایجنٹ مزید رقم مانگتے ہیں
سید آغا اعتراف کرتے ہیں کہ اُن کے بھیجے ہوئے 100 سے زائد افراد لیبیا میں قید ہے۔ تاہم اب تک وہ خود یا اُن کا کوئی آدمی اس خوف سے ان سے ملاقات کے لیے جیل نہیں گیا کہ کہیں وہ خود ہی گرفتار نہ ہو جائیں۔
"لیبیا میں خانہ جنگی کے بعد کرپشن جیسے مسائل بڑھ چکے ہیں۔ کچھ مقامی بااثر افراد دس سے پندرہ لاکھ روپے لے کر قیدیوں کو رہا کرا سکتے ہیں۔ میں نے جو افراد بھیجے اُن کے راشتہ داروں سے پانچ پانچ لاکھ نقد وصول کرچکا ہوں۔"
"باقی رقم یہاں ضامن کے پاس ہے جو مجھے تب ملنی تھی جب ان کا بندہ اٹلی پہنچ جاتا۔ گرفتار افراد کے خاندان اپنے بندوں کی رہائی کے لیے دباؤ تو ڈال رہے ہیں لیکن ان کی رہائی کے لیے مزید رقم دینے کو تیار نہیں۔"
سیدبادشاہ کہتے ہیں کہ ایجنٹ ان کے بیٹے کی رہائی کے حوالے سے تاریخ پر تاریخ دے رہا ہے مگر مہینوں بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
"وہ (ایجنٹ) مزید آٹھ لاکھ روپے مانگ رہے ہیں جبکہ میں نے لوگوں کا پہلے والا قرض ہی واپس نہیں کیا تو اتنے بڑی رقم کہاں سے لاؤں؟ جرگے کے مدد سے ایجنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے لیکن کوئی حل نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔"
جے پی پی کے مطابق عرب امارات کی جیلوں میں ستمبر 2022ء تک پاکستانیوں کی تعداد ایک ہزار 600 کے قریب تھی جن میں سے بیشتر پر اوور سٹے(ویزے سے زیادہ مدت قیام) جبکہ 235 افراد پر منشیات، 48 چوری وڈکیتی، 46 افراد ’غیر اخلاقی سرگرمیوں، 21 قتل اور 13 ریپ کے الزمات تھے۔
یہ بھی پڑھیں
یورپ بھیجنے کے جھانسے میں اغوا برائے تاوان کی نئی وارداتیں
تاہم اب عرب امارات میں قید پاکستانیوں کی تعداد پانچ ہزار 292 تک پہنچ چکی ہے۔ جے پی پی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا امارات کے ساتھ سزا یافتہ افراد کو وطن واپس لا کر سزا پوری کرانے کا معاہدہ تو موجود ہے مگر زیرحراست پاکستانی شہریوں کو 'اپنے قانونی حقوق تک مکمل رسائی' حاصل نہیں ہوتی۔
" 2010ء سے فروری 2024ء تک بیرون ملک 188 پاکستانیوں کو سزائے موت ہوئی ان میں ایک خاتون سمیت 176 افراد کو صرف سعودی عرب میں موت کی سزا دی گئی۔"
بیورو آف امیگریشن اینڈ اورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق راوں سال اگست تک چار لاکھ 60 ہزار 262 پاکستانی قانونی طریقے سے بیرون ممالک ملازمت کے لیے جاچکے ہیں۔
جے پی پی کا کہنا ہے کہ ہر سال لاکھوں پاکستانی حکومتی حوصلہ افزائی کے باعث بہتر مواقع کی تلاش میں دیارغیر جاتے ہیں اور قیمتی زرمبادلہ بھیجتے ہیں مگر جب وہاں گرفتار ہوتے ہیں تو اجنبی عدالتوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
انہیں وکلاء، غیرجانبدار مترجم یا پاکستانی سفارتی مشنز کی طرف سے مناسب قونصلر سپورٹ نہیں ملتی۔
آئین اور بین الاقوامی قانون کے تحت پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیرون ملک زیرحراست اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔ حالیہ برسوں میں حکومت پاکستانی قیدیوں کے حقوق کے لیے کچھ کوششیں کرتی نظر آئی ہے تاہم قیدیوں کی بڑھتی تعداد ان اقدامات کو مزید تیز کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
تاریخ اشاعت 17 ستمبر 2024