انیس سالہ زرینہ بی بی سول ہسپتال کوئٹہ کے نرسنگ کالج میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ 600 کلو میٹردور ایرانی سرحد پر واقع ضلع پنجگورکی رہائشی ہیں۔ ان کے والد وہیں تحصیل پروم میں کجھور کے باغ میں کام کرتے ہیں جس سے وہ 20 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں۔
زرینہ بتاتی ہیں کہ ان کا گاؤں پنجگور شہر سے 95 کلو میٹر آگے ہے۔ دو سال قبل ان کی کزن کو ڈائریا ہو گیا تھا۔ وہ انہیں مقامی سرکاری ہسپتال لے گئیں۔ مریضہ پیٹ کے درد سے تڑپ رہی تھیں لیکن انجیکشن لگانے کے لیے ڈسپنسر تک دستیاب نہیں تھا۔
" مجبوراً ہم کزن کو اتائی کے پاس لے گئے۔وہاں میرے چچا اور بھائی نے مرد سے انجکشن یا ڈرپ لگوانے سے انکار کر دیا مگر بیٹی کی جان پچانے کے لیے آخرکار مان گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب میں نے نرسنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ "
کلثوم اقبال ڈائریکٹر نرسنگ کوئٹہ تعینات ہیں، قائم مقام ڈی جی نرسنگ بلوچستان کا اضافی چارج بھی انہی کے پاس ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ صوبے میں اس وقت لگ بھگ ساڑھے 14 سو نرسز کام کرہی ہیں۔ان میں سے 315 صوبائی دارالحکومت کے تین بڑے سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ہیں۔
ڈی جی ہیلتھ سروسز بلوچستان نور قاضی ان اعدادو شمار کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان میں بیشتر کا تعلق پنجاب سے ہے۔ صوبے کو سات ہزار نرسوں کی ضرورت ہے۔
نرسوں کی تعداد کم کیوں ہے؟
یورپ میں نرسنگ کا باضابطہ آغاز انیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ہی ہو گیا تھا۔ تاہم برصغیر میں نرسنگ کی تاریخ 'عجیب و غریب'ہے۔ یورپین چرچ نے مسیحیت کے فروغ کے لیے مشننریز کے ساتھ 'سسٹرز'کو بھیجنا شروع کیا۔ تو یہاں نرسنگ کی تربیت کے تمام ادارے چرچ سے منسلک کر دیے تھے۔
لاہور میں پہلا نرسنگ سکول اگرچہ میئو ہسپتال میں 1884ء میں بنایا گیا تھا لیکن اس کے نصاب کی 1907ء میں منظوری دی گئی تھی۔ تب تک مقامی مسیحی خواتین کے ساتھ کچھ ہندو اور مسلم لڑکیوں کو بھی نرسنگ کی تربیت میں شامل کیا جانے لگا تھا۔
'نرسنگ ہسٹری آف انڈو پاک' کے مطابق" ہندو اور مسلمان خواتین کو جہاں نرسنگ کا پیشہ اپنانے میں تحفظات تھے وہیں یورپی رویہ بھی حوصلہ افزا نہیں تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ 1934ء تک میئو ہسپتال میں کسی مقامی لڑکی کو باضابطہ 'بطور نرس' تعینات نہیں کیا گیا تھا۔'میٹرن' اور 'نرسنگ سپرنٹنڈنٹ' یورپ سے آتی تھیں۔
پاکستان میں پہلا باضابطہ نرسنگ سکول سر گنگا رام پرائیویٹ ہسپتال لاہور میں 1948ء میں قائم کیا گیا۔جہاں سے سات لڑکیوں پر مشتمل پہلے بیچ نے 1952ء میں کورس مکمل کیاتھا جبکہ کراچی نرسنگ سکول (جے پی ایم سی) میں پہلے گروپ نے 1957ء میں کورس مکمل کیاتھا۔
کوئٹہ میں اگرچہ پہلا نرسنگ سکول 1961ء میں سنڈیمن ہسپتال(سول ہسپتال)میں قائم کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس صوبے میں قبائلی رسم و رواج نے دیر تک بلوچ اور پشتون خواتین کو اس شعبے میں آنے سے روکے رکھا۔
لیکن اب صرف ذرینہ ہی نہیں بلکہ بلوچستان بھر کی لڑکیوں میں نرسنگ کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
حالات بہتر ہونے کی امید
ڈائریکٹر نرسنگ بتاتی ہیں کہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں186، بولان میڈیکل کالج ہسپتال میں 112 اور شیخ زید ہسپتال میں 17 نرسز کام کر رہی ہیں۔ تاہم تین ہسپتالوں میں بھی نرسز کی 200 سے زائد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے تعاون سے ہونے والے سروے کے مطابق بلوچستان کے صرف 36 فیصد سرکاری ہسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کی سہولت میسر ہے۔ ضلعی ہسپتالوں اور مراکز صحت میں تربیت یافتہ عملے کی کمی کا سامنا ہے۔
ڈی ایچ او حب ڈاکٹر عبدالغنی کے مطابق حب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں صرف 26 نرسیں کام کر رہی ہیں۔
کلثوم اقبال کہتی ہیں کہ صوبے میں اب 13 نرسنگ کالجز قائم ہو چکے ہیں، ان میں سے تین کوئٹہ میں ہیں۔ ان کے علاوہ پشین، لورالائی، سبی، خضدار، حب، ژوب، خاران اور پنجگور میں بھی طالبات نرسنگ کی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔دیگر شہروں میں جلد کلاسیں شروع ہو جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018ء سے قبل میٹرک کے بعد نرسنگ کا چار سالہ ڈپلومہ کرایا جاتا تھا۔ تاہم اب بی ایس ڈگری پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
"اب نرسنگ کی ڈگری میں داخلے کے لیے ایف ایس سی میڈیکل میں50 فیصد نمبروں کو لازمی قرار دیا گیا ہے"۔
کلثوم اقبال نے بتایا کہ بی ایس کے پہلے بیچ کی طالبات فورتھ ائیر تک پہنچی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
پورے ضلع صحبت پور میں ایک لیڈی ڈاکٹر: 'ایسا نہ ہوتا تو بیٹی کے سر پر ماں کا سایہ سلامت ہوتا'
ڈی جی ہیلتھ سروسزنور قاضی بلوچستان میں نرسنگ کے شعبے میں بہتری کے لیے پر امید ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ صوبے کے 13 نرسنگ کالجز سے سالانہ تین سو نرسز تربیت مکمل کریں گی اور جب پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے کے لیے میدان میں آئیں گی تو اس شعبے میں کمی پوری ہو جائے گی۔
میل نرس بابر انصاری سول سپتال کوئٹہ کے نرسنگ سپرٹنڈنٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نرسنگ کالج سنڈیمن میں پوسٹ گریجوایٹ ڈپلومہ بھی کرایا جا رہا ہے۔ جہاں پوسٹ کارڈیک، بیسک میڈیکل اورسرجیکل فیکلٹی کے لیے 25، 25 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ جبکہ انستھیزیا اور سائیکاٹری کےلیے 20، 20 سیٹیں ہیں۔
نرس کا عہد
"میں خدا اور لوگوں کے سامنےعزم کرتی ہوں کہ صاف ستھری زندگی گزاروں گی اور اپنے پیشے کو دیانتدای سےاستعمال کروں گی۔ ایسی کسی بھی چیز سے پرہیز کروں گا جو صحت کے لیے نقصان دہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"
نرسنگ کے سوا دنیا کا کوئی بھی پیشہ شروع کرنے سے پہلے ایسا عہد یا حلف (the pledge) لیا جاتا ہے نہ دیا جاتا ہے۔ آئینی عہدیدار اور حکمران حلف ضرور اٹھاتے ہیں مگر وہ آئین اور ملک سے وفاداری کا ہوتا ہے پیشے سے وفاداری کا نہیں۔
تاریخ اشاعت 21 نومبر 2023