ہڈیارہ لاہور کے نواح میں برکی روڈ پر واقع ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہاں ٹوٹی سڑکوں، کیچڑ بھری گلیوں، جا بجا بکھرے کوڑے اور زہریلے مادوں سے بھرے گندے نالوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے دنیا جہان کے مسائل اسی جگہ پائے جاتے ہیں۔ اگر مقامی عورتوں سے بات کی جائے تو بہت سے دوسرے بظاہر پوشیدہ مسائل بھی سامنے آتے ہیں جن میں غربت، گھریلو تشدد اور بے اختیاری خاص طور پر نمایاں ہیں۔
ہڈیارہ میں خواتین کو درپیش ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان میں کئی ایک کا نام ووٹر لسٹ میں درج نہیں ہے۔ یہ گاؤں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 132 میں آتا ہے جہاں مجموعی رجسٹرڈ ووٹروں میں خواتین کا تناسب صرف 39.9 فیصد ہے۔
حالیہ ہفتوں میں لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے خواتین کے ووٹوں کا اندراج کرنے کے لیے ایک ٹیم کو ہڈیارہ بھیجا۔ اس ٹیم کے ساتھ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کا ایک موبائل یونٹ بھی موجود تھا جو خواتین کا نام ووٹر لسٹ میں شامل کرنے سے پہلے ان کی شناختی دستاویزات کی تصدیق کرتا ہے۔
مگر اس علاقے میں بیشتر مقامی عورتوں کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہی نہیں ہیں جس کی موجودگی ووٹر کے طور پر نام درج کرانے کی بنیادی شرط ہے۔ نادرا کا موبائل یونٹ ایسی عورتوں کو موقع پر شناختی کارڈ کے لیے درخواست دینے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑی سہولت ہے۔
ہڈیارہ کی رہائشی نذیراں بی بی کو دیکھ کر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ مقامی عورتوں کے لیے شناختی کارڈ کا حصول کس قدر مشکل کام ہے۔ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس نذیراں بصد مشکل ہانپتی کانپتی نادرا کے موبائل یونٹ تک پہنچی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نادرا کا جاری کردہ ایک پھٹا پرانا کاغذ ہے۔ اس پر انگریزی میں کچھ لکھا ہے جسے وہ پڑھ اور سمجھ نہیں سکتیں۔ دراصل یہ نادرا کی جانب سے جاری کردہ ایک رسید ہے جس پر لکھا ہے کہ انہوں نے اس سال کے آغاز میں لاہور میں واقع نادرا کے دفتر میں نئے شناختی کارڈ کے حصول کے درخواست دی تھی کیونکہ ان کے پرانے کارڈ کی مدت 2007 میں مکمل ہو گئی تھی۔ وہ اب تک اس دفتر کے دو چکر لگا چکی ہیں اور اس کام پر ان کے محنت سے کمائے پیسے اور قیمتی وقت بھی صرف ہوا ہے۔ تاہم ابھی تک انہیں نادرا کی جانب سے نیا شناختی کارڈ نہیں مل سکا کیونکہ نادرا حکام نذیراں سے ایک ٹوکن مانگتے ہیں جو درخواست جمع کراتے وقت انہیں دیا گیا تھا اور بعد میں ان سے کہیں کھو گیا۔ نادرا حکام کا کہنا ہے کہ رسید کے بغیر وہ انہیں شناختی کارڈ جاری نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ مسئلہ حل کرانے کے لیے انہوں نے نادرا کے موبائل یونٹ سے رجوع کیا ہے۔
محمد اعظم ووٹر رجسٹریشن ٹیم کے لیے مقامی رابطہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹروں کے اندراج کا مروجہ نظام اس علاقے میں خواتین ووٹروں کی تعداد کم ہونے کی بنیادی وجہ ہے۔ یہ نظام اس قدر پیچیدہ ہے کہ دیہاتی اسے سمجھ ہی نہیں سکتے۔ محمد اعظم خود بھی مقامی حکومت کے آئندہ انتخابات میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پرانے نظام میں انتخابی امیدوار خود گھر گھر جا کر لوگوں کا بحیثیت ووٹر اندراج کرتے تھے کیونکہ ووٹروں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی انہیں اتنے ہی زیادہ ووٹ ملنے کی توقع ہوتی۔ اس عمل میں خواتین کی بڑی تعداد کا ووٹر لسٹ میں اندراج ممکن ہو جاتا تھا کیونکہ ووٹ درج کرنے والا عملہ ان کے گھر میں موجود ہوتا تھا۔ تاہم ووٹروں کے اندراج کے لیے متعارف کرائے گئے نئے ڈیجیٹل نظام میں پیدائش سرٹیفکیٹ، قومی شناختی کارڈ اور نکاح نامے سمیت بہت سی دستاویزات درکار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مرد اپنے گھر کی خواتین کے ووٹ رجسٹرڈ کرانے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔
چونکہ ان خواتین کا اپنے گھروں سے باہر کم ہی جانا ہوتا ہے اس لیے انہیں عموماً اپنی شناختی دستاویزات کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ نتیجتاً ووٹر کے طور پر رجسٹرڈ ہونے کے لیے درکار ان کی دستاویزات یا تو گم ہو چکی ہوتی ہیں یا ان کی حالت اچھی نہیں ہوتی۔
اگر کسی خاتون کے پاس اپنی شناختی دستاویزات اچھی حالت میں ہوں تو اس صورت میں بھی اسے اپنی شناختی تصدیق کے لیے گھر کے مرد ارکان کو ساتھ لانا پڑتا ہے۔ مگر بیشتر مرد یا تو اپنی خواتین کو باہر لانے سے ہچکچاتے ہیں یا تصدیق کے لیے وقت مقررہ پر موقع پر موجود نہیں ہوتے۔
اول الذکر مسئلہ ہڈیارہ میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
ثمینہ نامی مقامی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ووٹ نہیں دینا چاہتیں کیونکہ ان کے گاؤں میں مرد ووٹنگ جیسی سرگرمیوں کے لیے خواتین کا گھروں سے باہر آنا پسند نہیں کرتے۔
ثمینہ نے بھی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے نادرا کے موبائل یونٹ سے رجوع کیا ہے۔ تاہم ان کا مقصد ووٹر کی حیثیت سے اپنا نام درج کرانا نہیں بلکہ انہیں اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرانے کے لیے شناختی کارڈ کی ضرورت ہے۔ ثمینہ کے شوہر اور بھائی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ وہ کہتی ہیں 'ووٹ ڈالنا خواتین کا نہیں بلکہ مردوں کا کام ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ میرے ووٹ کی بھی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے'۔
اسی طرح 30 سالہ سعدیہ کا ووٹ رجسٹرڈ ہو بھی جائے تو تب بھی ان کا حق رائے دہی استعمال کرنا خارج از امکان ہے۔ وہ اپنے شناختی کارڈ کی تجدید کے لیے اپنے شوہر کے ہمراہ نادرا کے موبائل یونٹ آئی ہیں جو مقامی مدرسے میں پڑھاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میرے پاس سیاست اور ووٹنگ جیسے معاملات کے لیے وقت نہیں ہے۔ میں روزی روٹی کمانے کے لیے دن رات کام کرتی ہوں اور جو وقت بچ رہتا ہے اس میں گھریلو امور نپٹاتی ہوں'۔
سب عورتیں کہاں چلی گئیں؟
2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی میں خواتین کا تناسب 49 فیصد (قریباً 10 کروڑ 13 لاکھ) ہے۔ لیکن ان میں بہت سی خواتین ووٹ دینے کی اہل ہونے کے باوجود رائے دہندگان کی فہرستوں کا حصہ نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے جاری کردہ معلومات کی رو سے 2013 کے عام انتخابات میں خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعدا مرد ووٹروں کی تعداد سے قریباً دو کروڑ کم تھی۔
مندرجہ بالا جدول میں وفاق کے زیرانتظام سابقہ قبائلی علاقوں (فاٹا) میں مرد و خواتین ووٹروں کے درمیان فرق دکھایا گیا ہے جو اب خیبرپختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان علاقوں میں رجسٹرڈ تمام ووٹروں میں خواتین کا تناسب محض 34.3 فیصد ہے۔ اس معاملے میں بلوچستان دوسرے نمبر پر ہے جہاں خواتین ووٹر مجموعی رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف 42.6 فیصد ہیں۔
رائے دہندگان کی تعداد میں صنفی بنیاد پر فرق گزشتہ انتخابات (2018) میں مزید بڑھ گیا۔ 2013 میں یہ فرق 10.97 فیصد تھا لیکن پانچ سال بعد یہ 12.49 فیصد پر پہنچ گیا۔ گزشتہ انتخابات کے موقع پر ملک بھر میں رجسٹرڈ قریباً 10 کروڑ 60 لاکھ ووٹرز میں خواتین کی تعداد قریباً چار کروڑ 67 لاکھ تھی جو کہ مجموعی رائے دہندگان کا 44 فیصد بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابی فہرستوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے ایک کروڑ بیس لاکھ کم تھی۔
زیر نظر جدول سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2018 میں ہر صوبے میں خواتین کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد سب سے زیادہ کس جگہ پر تھی اور کون سی جگہ پر سب سے کم تھی۔
2018 میں استعمال ہونے والی انتخابی فہرستوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دیہات اور شہروں میں ووٹروں کی تعداد میں صنفی بنیاد پر فرق تقریباً ایک جیسا ہی ہے۔ خیبرپختونخواہ کے پہاڑی علاقے مالاکنڈ ڈویژن میں واقع ضلع بونیر کا بیشتر حصہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے جہاں مجموعی ووٹروں میں خواتین کا تناسب 43.8 فیصد ہے۔ اس کے مقابلے میں صوبے کے سب سے بڑے شہر پشاور کو دیکھا جائے تو یہ تناسب 42.1 فیصد بنتا ہے۔
اسی طرح بلوچستان کے دیہی ضلع جعفر آباد میں خواتین ووٹرز کا تناسب (45.7 فیصد) صوبے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئٹہ میں رجسٹرڈ مجموعی ووٹروں میں خواتین کا تناسب صرف 41.6 فیصد ہے۔ سندھ کے دیہی ضلع جیکب آباد میں خواتین ووٹرز مجموعی رائے دہندگان کا 46.5 فیصد ہیں جو ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے بھی زیادہ ہے جہاں انتخابی فہرستوں میں خواتین کی تعداد 43.6 فیصد بنتی ہے۔
پنجاب میں بھی کم و بیش یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز مجموعی رائے دہندگان کا 44.2 فیصد ہیں۔ اگر اس کا موازنہ صوبے کے دیہی ضلع چکوال سے کیا جائے تو وہاں خواتین ووٹرز کا تناسب 48.5 فیصد بنتا ہے۔ درحقیقت لاہور میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں مجموعی ووٹرز میں خواتین کی تعداد 40 فیصد سے بھی کم ہے۔
لاہور میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کا صنفی جائزہ:
ووٹرز میں صنفی فرق کب کم ہو گا؟
پارلیمان نے الیکشن ایکٹ 2017 کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو رائے دہندگان کی تعداد میں صنفی فرق کم کرنے کا اختیار سونپ رکھا ہے۔ اس ایکٹ کی رو سے الیکشن کمیشن کو ایسے حلقے میں انتخابی نتیجہ منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہے جہاں خواتین کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم ہو۔ الیکشن کمیشن نے 2018 کے انتخابات میں اس اختیار سے کام لیتے ہوئے خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں صوبائی حلقے پی کے 95 پر ہونے والا انتخاب کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اس حلقے میں خواتین کے کاسٹ شدہ ووٹ ان کے مجموعی رجسٹرڈ ووٹوں کے 10 فیصد سے کم تھے۔
الیکشن کمیشن نے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کی تکنیکی و مالی مدد سے خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن میں اضافے کے لیے ایک منصوبہ بھی شروع کیا۔ اس منصوبے پر عملدر آمد کے لیے پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں، امریکہ کے غیر سرکاری ادارے انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹرول سسٹمز (آئی ایف ای ایس) اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی ادارے آلٹرنیٹوز ان کارپوریٹڈ (ڈی اے آئی) نے بھی اعانت کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے نادرا اور سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن جیسی پاکستانی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ بھی شراکت کی تا کہ 79 ایسے اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹرز لسٹ میں خواتین کی تعداد بڑھائی جا سکے جہاں انتخابات کے موقع پر خواتین کا ٹرن آؤٹ سب سے کم رہتا ہے۔ اس مہم کا مقصد خواتین کو اپنے علاقے میں شناختی کارڈ بنوانے کی سہولت دینا تھا تا کہ انہیں بڑے شہروں میں نادرا دفاتر کے چکر کاٹنے سے بچایا جا سکے۔ اس سلسلے میں نادرا کے موبائل رجسٹریشن سنٹر دیہی علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں۔ ہڈیارہ میں گزشتہ ماہ آنے والا موبائل یونٹ اسی سلسلے میں وہاں موجود تھا۔
تاہم سنگت ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرنے والے ایک فیلڈ افسر کا کہنا ہے کہ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں لاہور میں 12 لاکھ خواتین ووٹروں کا اندراج نہیں ہوا تھا لیکن اب تک ان میں سے صرف ایک لاکھ کے نام انتخابی فہرستوں کا حصہ بن سکے ہیں۔ آئندہ الیکشن سے پہلے بقیہ 11 لاکھ خواتین کے اندراج کے لیے بہت سے مالی، تکنیکی اور انسانی وسائل درکار ہیں۔ لیکن یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس وقت تک غیررجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے اس حقیقت کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ خواتین ووٹروں کے اندراج کے لیے چلائی جانے والی مہمات کے بہت اچھے نتائج سامنے نہیں آئے۔ اگر خیبرپختونخوا کی بات کی جائے تو وہاں ایسی مہمات کے بعد بھی خواتین ووٹرز کی تعداد قریباً پہلے جتنی ہی ہے۔
مجموعی رجسٹرڈ ووٹوں میں خواتین کا تناسب
لاہور میں قائم غیر سرکاری تنظیم ویمن ان سٹرگل فار ایمپاورمنٹ (وائز) کی سربراہ بشریٰ خالق خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کے سلسلے میں چلائی جانے والی مہمات میں الیکشن کمیشن اور نادرا کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ انہیں شکایت ہے کہ یہ دونوں ادارے اب بھی سست روی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'ووٹر رجسٹریشن کا عمل کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے مگر یہ ادارے اب بھی بہت سی ابتدائی کارروائی پرانے کاغذی طریقے سے کرتے ہیں'۔
بشریٰ خالق بتاتی ہیں اس عمل کے دوران ایک اور مسئلہ یہ جنم لیتا ہے کہ نادرا حکام کو لوگوں کے پاس بوسیدہ دستاویزات کی دیکھ بھال اور جائزے میں زیادہ احتیاط کرنا پڑتی ہے جس کے نتیجے میں قومی شناختی کارڈ بنوانے کے خواہش مند افراد سے درخواستوں کی وصولی پر صرف ہونے والے وقت کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ نادرا اپنا کام بے ترتیب انداز میں کرتا ہے جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے۔
ہڈیارہ میں ووٹروں کی رجسٹریشن کے موقع پر اس کا عملی نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نادرا کے موبائل یونٹ کے گرد مردوں کی بھیڑ اس قدر ہے کہ اسے دیکھ کر بہت سی خواتین شناختی کارڈ بنوانے کے بجائے گھر واپس چلی گئیں کیونکہ انہیں اجنبی مردوں کے ساتھ کھڑے ہونے میں دقت ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔
الیکشن کمیشن کے لاہور دفتر میں افسر تعلقات عامہ کی حیثیت سے کام کرنے والی ہدیٰ علی گوہر کا دعویٰ ہے کہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہں۔ مثال کے طور پر خواتین کو شناختی کارڈ کی فراہمی کا عمل بہتر بنانے کے لیے نادرا نے اپنے تمام مراکز میں ہفتے کا دن صرف خواتین کی درخواستوں پر کارروائی کے لیے وقف کیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ خواتین کو ان کے ووٹ کی اہمیت اور حق سے متعلق آگاہ کرنے اور بحیثیت ووٹر رجسٹریشن کے بارے میں معلومات دینے کے لیے غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی مدد سے رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اگرچہ گزشتہ مہینوں کے دوران کورونا کی وبا کے باعث یہ اقدامات منفی طور سے متاثر ہوئے ہیں تاہم نومبر 2020 میں خواتین ووٹروں کی رجسٹریشن کا نیا سلسلہ شروع کیا جائے گا'۔
ہدیٰ علی گوہر کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ مہم میں سامنے آنے والی ہر کمی اور کوتاہی کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور اس بارے میں نادرا اور الیکشن کمیشن کے حالیہ اجلاس میں بات بھی ہو گئی ہے۔ اس اجلاس کے شرکا نے نادرا موبائل سنٹرز کی تعداد بڑھانے کے علاوہ خواتین ووٹروں کے اندراج کے عمل پر کام کرنے والے اہلکاروں اور تنظیموں کی تعداد میں بھی اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ خواتین کو شناختی کارڈ کے حصول میں مزید سہولت دینے کے لیے نادرا کے تمام دفاتر میں خصوصی ونڈوز بھی قائم کی جا رہی ہیں۔
مسئلے کا حل
سرور باری سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت کو فروغ دینے کے لیے کام کرنے والی این جی او پتن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے نیشنل کوآرڈینیٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں فرق ختم کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین ووٹرز کی رجسٹریشن کے لیے الیکشن کمیشن کا نادرا اور این جی اوز کے ساتھ گاؤں گاؤں پھرنا ایک پرانا طریقہ ہے جس کے لیے بہت زیادہ انسانی اور مالی وسائل درکار ہیں اور اگر یہ میسر آ جائیں تو تب بھی مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ سرور باری کے مطابق ووٹروں کی رجسٹریشن کا مکمل طور سے خود کار نظام فوری طور پر ترتیب دینا ضروری ہے۔
سرور باری یہ تجویز بھی دیتے ہیں کہ جو بھی فرد 18 سال کی عمر کو پہنچ جائے اسے نادرا کی جانب سے خود بخود ایک عارضی شناختی کارڈ اور ووٹر کارڈ مہیا کیا جانا چاہیے۔ بعد میں جب ضروری تصدیق ہو جائے تو ان دونوں دستاویزات کو مستقل دستاویزات سے تبدیل کر دینا چاہیے۔
تاہم یہ طریقہ کار اختیار کرنے کے باوجود لاکھوں ایسی عمر رسیدہ خواتین بحیثیت ووٹر رجسٹرڈ ہونے سے رہ جائیں گی جنہوں نے کبھی شناختی کارڈ نہیں بنوایا۔ سرور باری ان خواتین کے ووٹر فہرست میں اندراج کے لیے کوئی فوری حل تجویز نہیں کرتے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی حل کیا جانا چاہیے۔
ووٹرز لسٹ میں خواتین کے اندراج کے لیے فوری طور پر کوئی ایسا طریقہ کار ڈھونڈے اور اس پر عملدر آمد کیے بغیر پاکستان میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں فرق مزید اور مسلسل بڑھتا جائے گا۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 22 مارچ 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 27 جنوری 2022