بونیر کے رہائشی امیر اللہ اور ان کے چچازاد سیر و تفریح کے لیے 'یخ تنگے' آئے تھے جو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر شانگلہ سے 32کلومیٹر دور گھنے جنگلات سے گھرا ایک پُر فضا علاقہ ہے۔ وہ ان مناظر کو اپنے ڈرون کیمرے میں قید کر رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی۔
کچھ لوگ بارش سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو ساتھ لیےگاڑیوں میں بیٹھ گئے اور باقی بھیگتے ہوئے یہاں کے واحد ریستوران کی طرف چل دیے۔
امیر اللہ بتاتے ہیں کہ وہ پہلی بار شانگلہ آئے ہیں اور انہیں یخ تنگے میں آ کر بہت اچھا لگا ہے۔ وہ یہاں کچھ روز قیام کرنا چاہتے تھے لیکن ادھر رہائش کے لیے کمرہ تو دور، بارش میں سر چھپانے کی جگہ بھی میسر نہیں اس لیے مجبوراً واپس جا رہے ہیں۔
گرمیوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد شمالی خیبر پختونخوا، خصوصاً مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے علاقوں کا رخ کرتی ہے لیکن اکثر سیاح یہاں ناکافی سہولیات کا شکوہ کرتے ہیں۔
2005ء کے زلزلے سے قبل سیاحتی علاقوں میں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ جنگلات، بلدیات (ضلع کونسلز) سمیت مختلف محکموں کے ریسٹ ہاؤسز اور ڈاک بنگلے موجود تھے جہاں سرکاری افسروں کے ساتھ سیاحوں کو بھی ادائیگی پر طعام و قیام کی سہولت دی جاتی تھی۔
تاہم زلزلے میں سب کچھ تباہ ہو گیا جس کے بعد ایرا ( ارتھ کوئیک ری کنسٹرکشن اینڈ ری ہیبلیٹیشن اتھارٹی) نے کئی سرکاری سکولوں و ہسپتالوں کی طرح ریسٹ ہاؤسز کی عمارتوں کو بھی غیر محفوظ قرار دے کر مسمار کر دیا تھا۔
اس دوران وفاقی حکومت نے ریسٹ ہاؤسز سمیت تمام مسمار شدہ سرکاری عمارتوں کی از سر تو تعمیر کا کام ایرا کے سپرد کیا جن میں یخ تنگے کا فاریسٹ ریسٹ ہاؤس بھی شامل تھا جو کبھی سیاحوں اور اعلیٰ افسروں کی پسندیدہ رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔
شانگلہ فاریسٹ آفس کے مطابق ضلعے میں محکمہ جنگلات کے چار ریسٹ ہاؤس تھے جن میں ایک زیر استعمال اور تین نان فنکشل ہیں۔
ایرا نے دو ریسٹ ہاؤسز پر تعمیراتی کام کبھی شروع ہی نہیں کیا تھا اور یہ دونوں 17سال سے ایک وفاقی سرکاری ادارے کے قبضے میں ہیں۔
"یخ تنگے اور اوپل ریسٹ ہاؤسز کے علاوہ محکمہ جنگلات کی دیگر آٹھ عمارتوں کا تعمیراتی کام بھی فروری 2010ء سے بند پڑا ہے۔"
صرف محکمہ جنگلات ہی نہی سکولوں، ہسپتالوں اور دوسرے محکموں کی عمارتیں بھی نامکمل چھوڑ دی گئیں۔
2015ء تک جب مسمار شدہ عمارتوں کی تعمیر میں کوئی پیشرفت نظر نہ آئی تو خیبر پختونخوا حکومت نے پہلے سکولوں کی عمارتیں ایرا سے لے کر کمیونیکیشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ (سی این ڈبلیو) کے حوالے کیں اور بعد ازاں 2015 ء سے 2021 ء کے درمیان مختلف اوقات میں دیگر محکموں کی زیر تعمیر عمارتیں بھی ایرا سے واپس لے لی گئیں۔
سکولوں کی کچھ عمارتیں ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے مکمل کی گئی ہیں تاہم محکمہ جنگلات کے دفاتر، رہائش گاہیں اور ریسٹ ہاؤسز ابھی تک زیر تعمیر ہیں جو سیاحوں کو پرکشش رہائش فراہم کیا کرتھے تھے۔
ایکو ٹورازم(ماحولیاتی سیاحت) کے ماہر ڈاکٹر طارق رؤف بتاتے ہیں کہ شمالی خیبر پختونخوا اور ناردرن ایریاز میں بیشتر سرکاری ریسٹ ہاؤسز انتہائی موزوں اور خوبصورت لوکیشن پر ہیں مگر یہ غیرآباد پڑے ہیں۔
"صوبائی حکومت نے سیاحت کو فروغ دینے کے بڑے بڑے اعلانات کیے تھے مگر وہ ابھی تک دعوے ہی ثابت ہوئے ہیں۔ ان اعلانات پر عملدرآمد کم ہی دکھائی دیتا ہے۔"
خیبر پختونخوا میں سیاحت کو ترقی دینے کے لیے اکتوبر2015ءمیں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت نے مختلف اعلانات کیے تھے جن میں صوبائی محکموں کی ملکیت ریسٹ ہاؤسز اور ڈاک بنگلوں کو ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کر نا بھی شامل تھا۔
ابتدا ہی میں 15 ریسٹ ہاؤسز اور ڈاک بنگلے ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے سپرد کیے گئے جنہیں فوراً ہی سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ بعد ازاں مزید ریسٹ ہاؤسز بھی یکے بعد دیگرے محکمہ سیاحت کے سپرد کر دیے گئے۔
صوبائی حکومت نے مختلف محکموں کے اثاثوں پر قبضہ کر کے انہیں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کے حوالے تو کر دیا لیکن اس اقدام کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا جس کے لیے 2020ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی سے 'گورنمنٹ ریسٹ ہاوسز اینڈ ٹورزم پراپرٹیز )ڈیویلپمنٹ، منیجمنٹ اینڈ ریگولیشن( ایکٹ' منظور کرایا گیا۔
اس قانون کے تحت تمام پراونشل ڈیپارٹمنٹس کی ملکیت ریسٹ ہاؤسز، انسکپشن بنگلے، ڈاک بنگلے، سرکٹ ہاؤسز، انسپکشن ہٹس وغیرہ صوبائی حکومت کی ملکیت قرار دے دیے گئے۔
اسی طرح محکمہ جنگلات اور بلدیات کے علاوہ ٹورازم، سپورٹس، آرکیالوجی، کلچر اور یوتھ افئیرز اینڈ میوزیم ڈیپارٹمنٹ کی عمارتیں بھی صوبائی حکومت کے پاس آ گئیں۔
محکمہ جنگلات کے ریکارڈ کے مطابق ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن میں مجموعی طور پر 56 ریسٹ ہاؤسز فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کی ملکیت تھے جن میں 46 ہزارہ اور 10 ملاکنڈ میں ہیں۔
زلزلے اور سیلابوں کی وجہ سے 56 میں سے 26 ریسٹ ہاؤسز ناقابل استعمال ہوچکے تھے جن کی ازسر نو تعمیر کا کام ایرا نے شروع کیا تھا لیکن شانگلہ، مانسہرہ اور ایبٹ آباد میں بیشتر ریسٹ ہاؤس نامکمل ہی چھوڑ دیے گئے۔
ہزارہ ڈویژن میں ہری پور ماڑی، ناران اولڈ، سیف الملوک، لالیان دانہ، سیری، شیر کٹ، چکائی شولگرہ، کیال، دوبیر ابھی تک رہائش کے قابل نہیں ہیں۔
ڈگری، بیرانگلی، نادی، پاپرانگ، ملکنڈی، ماہوندری، ڈاڈر، ڈومیل، شہید پنڑی، کنڈ بنگلا، کروری، ھونگلی، گنگوال اور بٹیلا الائی کے سرکاری گیسٹ ہاؤس بھی دوبار تعمیر کیے جا رہے تھے مگر مکمل نہیں ہو پائے۔
ملاکنڈ ڈویژن کے ریجنل کنزرویٹر اصغر خان بتاتے ہیں کہ ان کے پاس کالام میں بہترین لوکیشن پر رہائش گاہ تھی جو حکومت نے انجینرنگ یونیورسٹی کیمپس کو دے دی ہے اور شگئی ریسٹ ہاؤس کو محکمہ سیاحت کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
"شانگلہ میں کچھ فاریسٹ ریسٹ ہاؤسز غیر فعال اور کچھ آرمی کے زیر استعمال ہیں جبکہ باقی تعمیراتی کام مکمل ہونے کے منتظر ہیں جس کے لیے ہم نے بار ہا حکام کو تحریری درخواستیں بھیجی ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔"
ڈویژنل فاریسٹ افسر شانگلہ محمد عماد کہتے ہیں کہ یہاں سرکاری عمارتوں کی دوبارہ تعمیر کا کام ادھورا چھوڑ دیا جس سے محکمہ جنگلات کو کئی عمارتوں کے کرائے کی مد میں بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
'انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ'، گلگت بلتستان میں سیاحوں کی تعداد نصف سے کم رہ گئی
چترال کے ڈویژنل فاریسٹ افسر عبدالمجید نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کے پاس تین ریسٹ ہاؤس تھے جن میں سے ایک کو اسسٹنٹ کمشنر کی رہائش گاہ بنا دیا گیا ہے اور باقی دو محکمہ سیاحت کو منتقل کردیے گئے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ جنگلات کی نگرانی کرنے والے افسران اور سٹاف کے لیے متعلقہ سرکلز میں ریسٹ ہاؤسز ہی رہائش کا واحد ذریعہ تھے جن کی محکمہ سیاحت کو منتقلی سے جنگلات کی کنزرویسی (نگرانی اور تحفظ) متاثر ہوئی ہے۔
ڈاکٹر طارق رؤف کہتے ہیں کہ ایکو ٹورازم کے شوقین غیر ملکی سیاحوں کو پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی ٹی ڈی سی) کے ہوٹلز اور موٹیلز بے پناہ پسند ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ بھی پانچ سال سے بند پڑے ہیں۔
حال ہی میں ان موٹیلز کو 'گرین ٹورازم' نامی کمپنی کے سپرد کیا گیا ہے مگر تاحال یہ عوام کے لیے نہیں کھولے جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ قدرتی مناظر میں پاکستان کے مقابلے میں کچھ نہیں لیکن وہاں سالانہ کروڑوں سیاح جاتے ہیں۔ لیکن یہاں غلط پالیسیوں کے باعث سیاحت کو اس سے نصف کامیابی بھی حاصل نہیں ہو سکی جتنی یہاں صلاحیت ہے۔
"ہمارے پاس خوبصورت علاقوں میں اچھے ہوٹلز ہیں نہ اچھی سڑکیں۔ جو غیر ملکی سیاح پاکستان آنا چاہتے ہیں وہ بھی امن و امان کے مسائل کے باعث نہیں آتے جس کی وجہ سے یہاں سیاحت مکمل تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔"
شانگلہ پولیس ترجمان عمر رحمٰن بتاتے ہیں کہ رواں سال غیر ملکیوں سمیت سیاحوں کی بڑی تعداد نے بشام سوات روڈ استعمال کیا اور انہیں سیکورٹی بھی فراہم کی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ شانگلہ کے سیاحتی مقامات کے قریبی علاقوں میں چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں مگر ان علاقوں میں ہوٹلز اور رہائشی سہولیات نہ ہونے کے باعث صرف دن کو ہی سیاح آتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 12 جولائی 2024