شمالی وزیرستان میں تباہ کیے جانے والے سکول کی کہانی مختلف کیوں ہے؟

postImg

کلیم اللہ

postImg

شمالی وزیرستان میں تباہ کیے جانے والے سکول کی کہانی مختلف کیوں ہے؟

کلیم اللہ

9 مئی کی رات شمالی وزیرستان کی تحصیل شیوا اچانک دھماکوں سے گونج اٹھی۔ مکینوں نے باہر جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے علاقے میں لڑکیوں کے واحد  سکول کو بموں سے تباہ کر دیا ہے۔

اس سکول کا نام عافیہ گرلز اسلامک پرائمری سکول ہے جہاں 120 سے زائدہ بچیاں زیرِ تعلیم تھیں۔

سکول میں چوکیداری کے فرائض سرانجام دینے والے قیوم خان بتاتے ہیں کہ جمعرات کی شب 12بجے کے بعد لگ بھگ 10 مسلح افراد دیواریں پھلانگ کر سکول کے اندر داخل ہوئے اور کمروں میں چلے گئے جہاں پر انھوں نے کتابوں کو پھاڑنا شروع کر دیا۔

اس کے بعد انھوں نے بارودی مواد لگا دیا جو کچھ دیر کے بعد پھٹ گیا۔ دھماکوں سے سکول کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

"دہشت گردوں نے سکول میں داخل ہوتے ہی مجھے یرغمال بنا لیا اور تشدد کرنا شروع کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا کہ ایسا مت کرو، دوسرے حملہ آور نے کہا کہ شکر کرو ہم تمہیں چھوڑ رہے ہیں، شکرانے کے طور پر 40 دن کا چلہ لگاؤ، دوبارہ نہیں بخشیں گے۔"

شمالی وزیرستان میں پچھلے دو سال کے دوران لڑکیوں کے سکولوں کو بم سے اڑانے کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔

اس سے پہلے مئی 2023ء میں تحصیل میر علی کے علاقے موسکی اور حسوخیل میں قائم دو سرکاری سکولوں کو ایک ہی دن میں تباہ کر دیا گیا تھا۔ ان دونوں سکولوں میں 500 سے زائد لڑکیاں زیر تعلیم تھیں۔

مگر عافیہ گرلز اسلامک پرائمری سکول کی کہانی سب سے الگ ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہ سکول تین سال پہلے ہی اس علاقے میں قائم ہوا تھا اور ہر آنے والے سال اس میں زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔

بہادر خان سکول کے منتظم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے میں تعلیم خاص کر لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔

"میں اپنی بیٹیوں کو پڑھانا چاہتا تھا مگر علاقے میں لڑکیوں کے سرکاری سکول تباہ کر دیے گئے تھے یا پھر بند پڑے رہتے تھے۔"

بہادر خان کے بقول انھوں نے بند سرکاری سکولوں کو فعال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ غیر حاضر اساتذہ کے بارے میں محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کو بار بار آگاہ کیا۔ والدین کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے حوصلہ افزا  نتائج نہیں آئے۔

"آخر میں نے خود سکول بنانے کا فیصلہ کیا اور  2019ء میں کرونا وباء کے دوران اپنی اراضی پر سکول کی تعمیر شروع کر دی۔"

بہادر خان مالی طور پر اتنے مضبوط نہیں تھے اس لیے ابتدائی طور پر انہوں نے سکول کی چار دیواری بنائی اور کلاسیں شروع کر دیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ علاقے کی بچیوں  نے سکول آنا شروع کر تو دیا لیکن ان کے پاس جمع پونچی ختم ہو گئی۔

"میں نے  ادھر ادھر سے قرض لیا اور دبئی جا کر مزدوری شروع کر دی۔ اس طرح آہستہ آہستہ سکول کے کمرے وغیرہ بنتے گئے۔"

مگر بہادر خان کی ساری محنت اور امید دھماکوں میں اڑا دی گئی۔

تباہ کیا جانے والا سکول شیوا کے علاقے درو زندہ میں واقع ہے جہاں سے پانچ کلومیٹر کی دوری پر فوجی قلعہ ہے۔

سکول کے آس پاس چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر سیکورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ حال ہی میں یہاں تیل و گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ جس کے تحفظ کے لیے انتظامیہ نے حفاظت کے اضافی انتظامات کیے ہیں۔ یہاں دن رات لوگوں کی نقل و حمل پر نظر رکھی جاتی ہے۔

شمالی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر روخان زیب نے لوک سجاگ کو بتایا کہ پولیس نے اس واقعے کی ایف آئی آر درج کی ہے اور کاونٹر ٹیریریزم ڈیپارٹمنٹ کو یہ کیس سونپ دیا ہے۔

"جیسے ہی اس میں کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو وہ میڈیا کو آگاہ کریں گے۔"

سابق ایم این اے اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ پارٹی کے چیئرمین محسن داوڑ نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے وزیرستان کے مستقبل پر حملہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ یہ نئی پراکسی جنگ کا آغاز ہے اور علاقے کو پھر سے جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسف) نے عافیہ سکول پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک قابل نفرت اور بزدلانہ فعل قرار دیا ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ سکول کی تباہی سے بہت سی نوجوان اور ہونہار لڑکیوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

پاکستان میں یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فادل نے کہا  کہ  وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں 26 ملین سکول نہ جانے والے بچوں کے اندراج کے لیے گذشتہ روز ہی ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔

"دور دراز اور پسماندہ علاقے میں لڑکیوں کے سکول کو تباہ کرنا گھناؤنا جرم ہے اور یہ قومی ترقی کے لیے نقصان دہ ہے۔"

یونیسیف کے ردعمل کے بعد وزیراعظم پاکستان شہاز شریف نے بھی لڑکیوں کے لیے قائم نجی سکول پر دہشت گرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کر دی اور سکول کے منہدم حصے کو فوری طور پر سرکاری خرچ سے تعمیر کرنے کی ہدایت کر دی۔

شمالی وزیرستان سابقہ فاٹا کا وہ علاقہ ہے جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔حکومت نے 2014ء میں یہاں ضرب عضب کے نام سے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑا آپریشن کیا تھا جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ نقل مقانی پر مجبور ہو گئے تھے۔

ساوتھ ایشئین ٹیریزم پورٹل کے 2000ء سے 2018ء  تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مارے جانے والے 21 ہزار 589 عام شہری ہیں۔صرف (سابق)  فاٹا میں مرنے والے عام شہریوں کی تعداد  چار ہزار سے زائد ہے۔

تاہم حال ہی میں اس علاقے میں دہشت گردی کے واقعات پھر سے بڑھ گئے ہیں جس سے لڑکیوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

گو کہ سرکاری دستاویزات میں ضلع شمالی وزیرستان کے سرکاری سکولوں میں لڑکیوں کے داخلے لڑکوں کے برابر ظاہر کیے گئے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی بیان کرتی ہے۔

حکومت خیبرپختونخوا کی سالانہ شماریاتی رپورٹ 2021-22 کے مطابق ضلع شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے 377 پرائمری سکول فعال اور 17 غیر فعال ظاہر کئے گئے ہیں۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ یہاں پر لڑکوں کے 376 سکول فعال اور 36 غیر فعال ہے۔

2021ء-22ء سالانہ رپورٹ کے مطابق شمالی وزیر ستان میں پرائمری سطح پر 26 ہزار 744 بچے اور 17 ہزار 24 بچیاں داخل ہیں۔ اسی طرح نجی سکولوں میں 371 لڑکیوں کا داخلہ ظاہر کیا گیا ہے۔

لیکن رزمک ڈویژن کے سابقہ سب ڈویژن آفیسر ایجوکیشن فدا وزیر اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں پر لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کی برابر ہے۔ کیونکہ بیشتر سکول مالکان اپنے رشتہ داروں کو کلاس فور کی نوکریاں دلوانے کے لیے سکول رجسٹر کروا لیتے ہیں مگر وہاں نہ کوئی ٹیچر آتا ہے نہ بچہ۔

چند سال پہلے حکومت نے عطیہ پر سکول لینے کی سکیم شروع کی تھی۔ سکیم کے تحت مالک سکول کے لیے زمین فراہم کرنے کے عوض اپنے لیے کلاس فو ر کی نوکریوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ سکول میں پڑھائی ہو رہی ہے یا نہیں۔

فدا محمد بتاتے ہیں کہ عام لوگ بھی بچیوں کو سکول بھیجنے کے حق میں نہیں۔ اس وجہ سے سکولوں میں بچیوں کے داخلے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سب والدین ایسے نہیں لیکن جب سکول ہی فعال نہیں ہوں گے اور ٹیچر نہیں آئیں گے تو لوگ بچیوں کو سکول کیوں بھیجیں گے؟

بہادر خان بھی اسی بات کی شکایت کرتے ہیں تاہم وہ اساتذہ کی عدم دستیابی کو امن و امان کی صورتحال سے جوڑتے ہیں۔

"شروع شروع میں مجھے اپنے سکول کے لیے کوئی ٹیچر نہیں ملی کیونکہ بندوبستی علاقے کی بچیاں، خوف کے باعث وزیر ستان میں پڑھانے پر راضی نہیں تھیں۔ میں نے اپنی ایک بھتیجی کو تیار کیا جس نے دینی علم حاصل کر رکھا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد علاقے کی ایک اور خاتون بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار ہو گئی۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟

تحصیل دتہ خیل سے تعلق رکھنے والے صابر خان خطرات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی بہنوں کو  روزانہ 12 کلو میٹر دور سکول بھیجتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کا اپنا سکول اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر فعال پڑا ہے۔ لیکن محدود مالی وسائل کے باوجود وہ اپنی بہنوں کو روزانہ رکشے پر سکول بھیجتے ہیں۔

"والد اور بڑے بھائی نے کئی دفعہ تعلیم کے ضلعی حکام سے سکول میں ٹیچرز کی حاضری کو یقینی بنانے کی درخواست کی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ حکام نے کوئی بھی نوٹس نہیں لیا ہے۔"

بچیوں کے سکول ہی کیوں نشانے پر؟

بہادر خان بتاتے ہیں کہ ان کے علاقے کا مذہبی طبقہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہے۔

"مجھے باقائدہ دھمکیاں تو نہیں دی گئیں مگر میری مدد بھی نہیں کی گئی۔ میں نے  کئی مرتبہ بچوں میں انعامات تقسیم کرنے کی سالانہ تقریب میں علاقے کی مذہبی شخصیات کو مدعو کیا لیکن کوئی نہیں آیا۔"

وہ بتاتے ہیں کہ بچیوں کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی "پاداش" میں مذہبی شخصیات کیا ان کے گاؤں والے بھی دور رہتے ہیں۔

"میں کہتا ہوں کہ  75 سال خوف میں  گذار کر دیکھ لیے۔ اب کسی نہ کسی کو تو یہ خطرہ مول لینا پڑے گا۔"

بہادر خان سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کی درسگاہوں پر حملوں کا مقصد انہیں تعلیم سے دور رکھنا ہے۔

" تعلیم یافتہ لڑکیاں مرضی سے زندگی گذارنے اور وراثتی جائیداد سے حق مانگ سکتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو پرائی جنگوں کا ایندھن بننے سے روک سکتی ہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ نام نہاد مذہبی ٹولہ یہ سب نہیں چاہتا۔

بہادر خان سکول کو بحال کرنے کے لیے پر امید ہیں۔

"چاہے مجھے بچیوں کو خیمہ میں بھی پڑھانا پڑے لیکن تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دوں گا۔"

تاریخ اشاعت 17 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.