گرمیوں میں پنکھے اور ائیر کنڈیشنرز کا استعمال بڑھتے ہی بجلی کے بل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں جن سے جان چھڑانے کے لیے لوگوں میں چند برسوں سے سولر سسٹم لگوانے کے رحجان میں اضافہ ہوا ہے۔ بعض صارفین تو گھر کی بجلی، الیکٹرک سپلائی کمپنیوں (ڈسکوز) کو بھی دے رہے ہیں۔
مقصود فریدی ڈی ایچ اے لاہور کے رہائشی ہیں جنہوں نے اپنے گھر میں 10 کلو واٹ کا سولرسسٹم نصب کر رکھا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے چار سال قبل یہ سسٹم 18 لاکھ روپے خرچ کر کے لگایا تھا جس سے ان کے گھر میں تین انورٹر ائیرکنڈیشنر، 10 پنکھے، استری، واشنگ مشین اور پانی کی موٹر چلتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں ماہانہ ایک ہزار یونٹ تک بجلی استعمال ہوتی تھی جس کا ہزروں روپے بل آتا تھا۔ تاہم سولر سسٹم اور گرین میٹر لگانے کے بعد انہیں لیسکو سے 200 یونٹ سے زیادہ کا بل نہیں آتا جبکہ سردیوں میں تو زیرو یونٹ کا بھی بل آیا۔
"ہم دوپہر کے اوقات یعنی دن گیارہ سے دو بجے کے درمیان اگر بجلی کم استعمال کریں تو زیادہ بچت ہوتی ہے۔"
لاہور میں سولر بزنس سے منسلک محمد عمران بتاتے ہیں کہ سولر سسٹم لگوانے کے لیے صارفین کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں۔ ایک 'آف گرڈ سسٹم' جس سے صارف دن میں بچ جانے والی سولر بجلی رات کے استعمال کے لیے بیٹریوں میں محفوظ کر لیتا ہے جو کافی مہنگی اور بھاری ہوتی ہیں۔ تاہم ان سے گھر بجلی کے معاملے میں خود کفیل ہو جاتا ہے۔
"دوسرا 'آن گرڈ سسٹم' ہے جس میں صارف دن کو بچ جانے والی اضافی سولر بجلی ڈسکوز کو دے دیتا ہے جبکہ رات کو گھر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ڈسٹری بیوشن کمپنی سے بجلی لے لیتا ہے۔ جس کے لیے گرین یا اے ایم آئی میٹر لگانا ضروری ہوتا ہے۔ اس عمل کو نیٹ میٹرنگ کہا جاتا ہے"۔
عمران بتاتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ آن گرڈ سسٹم کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔
2015ء میں بجلی بحران کے دوران حکومت نے نیٹ میٹرنگ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا ہدف لوگوں کو شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا تھا۔ اس اقدام کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس سے نہ صرف مہنگی تھرمل بجلی کی پیداوار پر انحصار کم ہو گا اور قیمتی زرمبادلہ بھی بچے گا بلکہ ماحولیاتی آلودگی پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
نیٹ میٹرنگ منصوبے کے تحت حکومت نے یہ بھی طے کیا تھا کہ صارفین سے اضافی سولر بجلی ڈسکوز خریدیں گی۔
گھریلو صارفین سے سولر سے بجلی خریدنے کے لیے ڈسکوز صارفین سے'گرین میٹر' لگوا رہی ہیں جو دراصل دو طرفہ میٹر ہوتا ہے۔ اس میں گرڈ سے گھر میں آنے والی اور گھر سے گرڈ سسٹم کو جانے والی بجلی کے یونٹس ماپنے کا نظام موجود ہوتا ہے۔
لیسکو ٹیرف کے مطابق، کمپنی اپنے صارفین سے 19.32 روپے فی یونٹ بجلی خریدتی ہے جبکہ انہیں 12.21 روپے سے 49.10 روپے تک فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرتی ہے۔ تاہم پیک آورز کے ریٹ الگ ہوتے ہیں۔
وفاقی حکومت نے ستمبر 2015ء میں نیپرا (متبادل اور قابل تجدید توانائی) ڈسٹری بیوٹڈ جنریشن اینڈ نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز کا اجراء کیا تھا جس کی شق سات کے تحت ابتدائی طور صارفین سے سولر بجلی خریدنے کے کنٹریکٹ کی مدت تین سال مقرر کی گئی تھی لیکن نیٹ میٹرنگ کا یہ منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔
تاہم نومبر 2017ء میں وزارت توانائی نے نیٹ میٹرنگ منصوبے پر عمل درآمد کے لیے جب سٹینڈرڈ پروسیجرز(ایس او پیز) جاری کیے تو سولر سسٹم کی کوالٹی اور سرمایہ کاری کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے صارفین سے کنٹریکٹ کی مدت سات سال مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اسی نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ " کنٹریکٹ کی مدت تین سال رکھنے سے صارف کے لیے کوئی کشش نہیں ہو گی"۔ اس لیے نیپرا کو نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز کی شق سات میں ترمیم کی اجازت دے دی گئی۔
نیپرا نے ان ریگولیشنز میں ترمیم کے بعد صارفین سے گرین میٹرز کے ذریعے بجلی خریدنے کا ٹیرف (ریٹ) 9.95 روپے یونٹ مقرر کیا لیکن بجلی مہنگی ہونے کے باعث جولائی 2022ء تک یہ ریٹ19.32 روپے یونٹ کر دیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں نے نیٹ میٹرنگ میں دلچسپی لینا شروع کر دیا۔
لیکن پھر ڈسکوز اور وزارت توانائی نے گرین میٹر کا ٹیرف کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو نیپرا نے عوامی سماعت رکھ لی جس میں صارفین اور دیگر سٹیک ہولڈرز نے اس کی سخت مخالفت کی۔
ستمبر 2022ء میں ترجمان وزارت توانائی نے تو اعلان بھی کر دیا تھا کہ نیپرا نیٹ میٹرنگ بجلی کی فی یونٹ قیمت کم کرکے نو روپے کر رہا ہے (جس کی قیمت خرید 2018ء سے 2021ء تک 9.95 روپے جبکہ فروری2021ء سے جولائی 2022ء تک 12.95 روپے یونٹ مقرر تھی)۔
تاہم نیپرا نے 13 فروی 2023ء کو گرین میٹر سے بجلی خریدنے کے ٹیرف میں کمی کی درخواست پر اپنا فیصلہ جاری کر دیا جس میں واضح کیا گیا کہ صارفین ڈسکوز کو 19.32 روپے یونٹ کے حساب سے اضافی بجلی کی فروخت جاری رکھیں گے۔
اس فیصلے اور بجلی مزید مہنگی ہونے کی وجہ سے صارفین کو حوصلہ ملا جس کے باعث سولر سسٹم کے ساتھ گرین میٹرز کی ڈیمانڈ میں خاطر اضافہ ہو چکا ہے۔
پہلے گرین میٹر کا حصول خاصا مشکل ہوتا تھا لیکن اب صارفین کو مارکیٹ سے میٹر خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
ڈائریکٹر جنرل لیسکو مارکیٹ امپلیمنٹیشن اینڈ ریگولیٹری ڈیپارٹمنٹ (میراڈ) الطاف قادر بتاتے ہیں کہ رواں سال فروری کے اختتام تک لیسکو 60 ہزار 331 گرین میٹرز کی تنصیب مکمل کرچکا ہے جن کی کپیسٹی 495 میگاواٹ سے زیادہ بنتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ فروری میں صارفین سے دو کروڑ 10 لاکھ یونٹ بجلی لیسکو سسٹم میں آئی تھی جبکہ باقی مہینوں میں بھی صورت حال کم وبیش ایسے ہی رہتی ہے۔ اسی طرح جب گرمیوں میں سولر سسٹمز سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے تو صارفین کی طرف سے استعمال بھی بڑھ جاتا ہے۔
" اب لیسکو کے پاس گرین میٹرز کا سٹاک ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ہم صرف میٹر کے لیے این او سی جاری کرتے ہیں جبکہ صارفین مارکیٹ سے اپنی مرضی کا گرین میٹر خرید سکتے ہیں۔"
لاہور میں سولر کے کاروبار سے وابستہ اسامہ خان بتاتے ہیں کہ گرین میٹر لگوانے میں دو ماہ لگ جاتے ہیں اور اس پر صارف کا ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ ان اخراجات میں میٹر کی لاگت بھی شامل ہے جس کی قیمت ( 70 سے 95 ہزار روپے) کا انحصار میٹر کی کوالٹی پر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
بےقابو لائن لاسز یا بجلی چوری کی سزا بل ادا کرنے والے کیوں بھگت رہے ہیں؟
وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ گرین میٹر لگوانے کا اصل خرچ ایک لاکھ 20 ہزار روپے ہے لیکن اس میں لیسکو عملے کے "سروس چارجز" بھی شامل کرنا پڑتے ہیں یعنی 30 ہزار روپے جلدی کام کرانے کے لیے دیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گرین میٹر لگوانے کا عمل کافی طویل ہے۔ جس کے لیے وہ سولرسسٹم کی تکنیکی معلومات پر مبنی فائل تیار کرتے ہیں جو صارف کے بجلی بل کے ساتھ سب ڈویژنل آفس میں جمع کرائی جاتی ہے۔ وہاں سے لیٹر جاری ہونے پر لیسکو ٹیم سائٹ کا معائنہ کر کے سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے۔
اسامہ خان کی مطابق انسپکشن سرٹیفکیٹ جمع کرانے پر سب ڈویژن آفس سے گرین میٹر کا ڈیمانڈ نوٹس ایشو ہوتا ہے۔ یہ رقم جمع ہونے کے بعد میٹر کی تنصیب کا انتظار شروع ہوجاتا ہے جس میں کئی ہفتے یا بعض اوقات مہینے بھی لگ جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گرین میٹر لگوانے میں عملہ کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر رکاوٹیں ڈالتا ہے جس کے لیے ہر مرحلے پر اہل کاروں کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے۔ تاہم یہ کام سولر کمپنی کے نمائندے کرتے ہیں۔
ڈی جی لیسکو الطاف قادر کے مطابق اب گرین میٹر کی بجائے ایڈوانسڈ میٹرنگ انفراسٹرکچر ( اے ایم آئی ) پراجیکٹ کے تحت جدید میٹرز نصب کیے جائیں گے جن کی خریداری کا عمل جاری ہے۔ یہ پراسیس مکمل ہوتے ہی نئے میٹروں کی تنصیب شروع کردی جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اے ایم آئی میٹر کی قیمت 45 سے 48 ہزار روپے تک مقرر کرنے کی تجویز ہے جن کی تنصیب سے بجلی چوری اور اووربلنگ پر قابو پایا جا سکے گا۔ ان میٹرز کی ریڈنگ کے لیے الگ کنٹرول روم قائم کیا جائے گا۔
لیسکو ذرائع کے مطابق جدید ای ایم آئی میٹر لگوانے کا طریقہ کار بھی گرین میٹر جیسا ہی ہوگا اور اخراجات بھی لگ بھگ وہی ہوں گے۔
تاریخ اشاعت 6 اپریل 2024