پچھلے دو ماہ سے میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب کے 236 ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔ ان میں کمپیوٹر آپریٹر، کلرک، اسسٹنٹ، نائب قاصد، سینٹری ورکر، بیل دار، پلمبر اور واٹر سپلائی لائن مین شامل ہیں۔
میونسپل کمیٹی سے ریٹائر ہونے والے 60 ملازمین کو گزشتہ تین ماہ سے پنشن نہیں دی گئی۔ دو ملازمین کو ریٹائرمنٹ کے بعد گریجویٹی کی رقم نہیں ملی جن میں سے ایک چھ ماہ قبل بطور نائب قاصد ریٹائر ہونے والے محمد شریف ہیں۔
وہ کہتے ہیں ”سوچا تھا کہ ریٹائر ہونے کے بعد ملنے والی رقم سے اپنا گھر خرید کر کرائے کے مکان جیسے بوجھ سے بچ جاؤں گا مگر پچھلے چھ مہینے سے بجٹ نہ ہونے کا رونا رو کر مجھے ذاتی گھر کے خواب سے دور کر دیا گیا ہے“۔
انہوں نے کہا کہ وہ قرض لے کر گھر کا کرایہ دے رہے ہیں۔
محکمہ لوکل گورنمنٹ میونسپل کمیٹی کو ماہانہ 72 لاکھ روپے کے قریب فنڈ فراہم کر رہا ہے۔
کمیٹی اپنے ذرائع سے تقریباً 35 لاکھ روپے ماہانہ حاصل کر پاتی ہے۔ یہ آمدن لاری اڈا، رکشہ سٹینڈ، برتھ سرٹیفکیٹ، نکاح نامہ کی فیس اور چند دیگر ذرائع سے ہوتی ہے۔
تاہم میونسپل کمیٹی کے اخراجات مجموعی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔
مثلاً رواں سال اپریل کی تنخواہیں ایک کروڑ روپے بنتی ہیں جنہیں ادا کرنا باقی ہے۔
لاکھوں روپے کے ماہانہ خسارے نے اس کی کمر توڑ دی ہے۔
اس کا اندازہ میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب کی تیار کردہ ایک حالیہ لائبلٹی رپورٹ سے ہوتا ہے جس کے مطابق اس نے19 کروڑ 95 لاکھ روپے سے زائد رقم ادا کرنی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہانہ تنخواہ، تنخواہوں کے بقایا جات، ماہانہ پنشن، ریٹائرڈ ملازمین کی گریجویٹی، چھٹی کے دن کام کرنے کی اجرت اور فوت ہونے والوں کی مالی امداد کی مد میں اسے کل دو کروڑ 68 لاکھ 19 ہزار 167 روپے درکار ہیں۔
متفرق اخراجات کی مد میں کمیٹی نے تین کروڑ 67 لاکھ سے زائد کی رقم ادا کرنی ہے۔
پچیس لاکھ روپے کے بجلی کے بل دینے ہیں۔
ننکانہ صاحب کی میونسپل کمیٹی کو آمدن کے وہ ذرائع میسر نہیں جو عموماً دیگر کو ہوتے ہیں۔
شہر کی 90 فیصد پراپرٹی متروکہ وقف املاک بورڈ کے پاس ہے جسے قیام پاکستان کے وقت غیرمسلم چھوڑ گئے تھے۔
میونسپل کمیٹی اپنی آمدن کے لیے اسے استعمال میں لانے سے قاصر ہے۔
دیگر اضلاع کے بلدیاتی ادارے اپنے علاقے میں پراپرٹی سے متعلق مختلف ٹیکسوں کی مدد سے اپنے وسائل بڑھا لیتی ہیں جیسے گھریلو نقشوں کو پاس کرنے کی فیس اور پراپرٹی ٹیکس۔ لیکن ننکانہ صاحب میں کیونکہ متروکہ املاک، ذاتی پراپرٹی سے کہیں زیادہ ہیں اس لیے یہاں کی بلدیہ کا یہ ذریعہ آمدن تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
خسارے کے باوجود لوکل گورنمنٹ نے کمیٹی کو دیے جانے والے ماہانہ فنڈ میں اضافہ نہیں کیا۔
میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب میں بطور ہیڈ کلرک کام کرنے والے اکرم گجر آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن ننکانہ کے صدر بھی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پچھلے چند ماہ سے کمیٹی کے مالی حالات جتنے برے ہیں، اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔
ان کے مطابق ابتر حالات کی بڑی وجہ متروکہ وقف املاک بورڈ ہے جو کمیٹی کو موصول ہونے والی آمدن کے ذرائع پر زبردستی قبضہ کر رہا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ کمیٹی کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور خسارے کو کم کرنے کے لیے انہوں نے پانچ ماہ قبل ننکانہ صاحب مانگٹانوالہ روڈ پر جنرل بس سٹینڈ کے چاروں اطراف 65 دکانیں تعمیر کروائیں۔ ان کے کرایے سے کمیٹی کو ماہانہ ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے آمدن ہو رہی تھی۔
تاہم متروکہ وقف املاک بورڈ نے اپنا ملکیتی رقبہ ہونے کے دعوے پر ان دکانوں سے کرایہ وصول کرنا شروع کر دیا۔
چیف آفیسر (سی او) میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب راؤ نواز کا مؤقف ہے کہ تنخواہوں کی بندش کی بنیادی وجہ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے ملنے والے ماہانہ فنڈ کا اخراجات کی نسبت کم ہونا ہے۔
"اس لیے تنخواہوں، پنشن اور دیگر اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکرٹری لوکل گورنمنٹ کو ماہانہ ملنے والی 72 لاکھ روپے کی گرانٹ بڑھا کر ڈھائی کروڑ کرنے کے لیے لیٹر ارسال کر دیا ہے۔ تاہم ابھی گرانٹ بڑھانے کے حوالے سے احکامات جاری نہیں کیے گئے"۔
انہوں نے کہا کہ بورڈ نے کمیٹی کی دکانوں پر قبضہ کر کے مالی نقصان پہنچایا ہے جس پر قانونی چارہ جوئی کے لیے سیکرٹری بورڈ کو اپیل کی ہے۔
اس کی سماعت مقرر ہونے پر دکانیں واپس لینے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔
ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک بورڈ ننکانہ صاحب ملک محمد عمر کہتے ہیں بورڈ کے ملکیتی رقبے پر کسی کو بھی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
"یہی وجہ ہے کمیٹی کی جانب سے غیر قانونی طور پر دکانوں کے کرایوں کی وصولی روک کر حاصل ہونے والی آمدن کو بورڈ کے کھاتے میں جمع کروایا جا رہا ہے"۔
دکانوں کے حصول کے لیے میونسپل کمیٹی کی جانب سے کی گئی اپیل پر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کیس کی پیروی کرتے ہوئے اسے خارج کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔
ڈپٹی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ فنڈ لاہور امجد علی کہتے ہیں کہ بجٹ میں اضافے کے لیے میونسپل کمیٹی ننکانہ صاحب کی درخواست موصول ہوئی ہے، البتہ ماہانہ مختص فنڈز کے علاوہ کمیٹی کو دینے کے لیے بجٹ نہیں ہے۔
ان کے مطابق فراہم کردہ بجٹ کمیٹی کی ضروریات کے لیے کافی تھا تاہم جولائی 2022ء میں اس کے ملازمین کے سکیل ریوائز ہونے سے فنڈز کم پڑ گئے۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ نئے تخمینے کے مطابق بجٹ وزارت خزانہ کو ارسال کر دیا گیا ہے۔ اس کی منظوری جون میں ہو گی جس کے بعد مسئلہ حل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں
'اسے لاہور لے جائیں': ننکانہ صاحب کا ضلعی ہسپتال ہر چوتھے مریض کو دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں کیوں ریفر کر دیتا ہے؟
لیکن سیور مین تنویر علی اتنا انتظار نہیں کر سکتے۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ بیوی بچوں سمیت چھ افراد کی کفالت کر رہے ہیں۔ تنخواہوں کی بندش سے مالی حالات اس قدر خراب ہو گئے ہیں کہ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔
"میں نے اپنی بیوی کو شادی پر تحفے میں دیا گیا ایک تولہ سونے کا سیٹ سنار کے پاس دو ماہ کے لیے گروی رکھوا کر 50 ہزار روپے ادھار لیے ہیں تاکہ گھر کا نظام چلتا رہے۔ ان کی واپسی جون کے آغاز پر نہ کی تو وہ سیٹ کو من مانی قیمت پر نیلام کر دے گا"۔
وہ کہتے ہیں کہ سونے کے اس سیٹ سے ہاتھ دھونا ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا۔
انہوں نے سی او میونسپل کمیٹی، سیکرٹری فنڈز اور نگران وزیراعلیٰ سے اپیل کی ہے کہ جلد از جلد تنخواہیں جاری کر دی جائیں۔
تاریخ اشاعت 10 جون 2023