ساٹھ سالہ کاشتکار حبیب اللہ خان میانوالی کے گاؤں موسیٰ خیل کے رہائشی ہیں۔ وہ 20 کینال زرعی زمین کے مالک ہیں اور آٹھ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا ذریعہ آمدنی یہی زمین ہے جس پر وہ مختلف فصلیں اگاتے ہیں۔ ان کی زمین نمل کینال کے پانی سے سیراب ہوتی ہے لیکن اب انہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے آںے والے برسوں میں انہیں یہ پانی نہیں ملے گا۔
حبیب اللہ کا کہنا ہے کہ ربیع سیزن میں وہ گندم اور چنا جبکہ خریف میں کپاس کے علاوہ جوار، باجرہ اور گوار کاشت کرتے ہیں۔ پہلے انہیں دونوں سیزن میں فصل کے لیے پانی مل جاتا تھا لیکن اب ڈیم میں پانی بہت کم رہ گیا ہے۔
ان کا گاؤں میانوالی کےمشرق میں22 کلومیٹر اور نمل ڈیم سے12 کلومیٹر دور واقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دس سال پہلے تک نمل نہر میں دو دو ماہ مسلسل پانی ملتا تھا ۔اب یہ دورانیہ کم ہوکر10 سے 12 دن رہ گیا ہے۔ اس بار تو گندم کوبھی مشکل سے پانی ملا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈیم کی صفائی نہ ہونے سے اس میں پانی کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو چند سال میں ان کی زمین بنجر ہو جائے گی۔
محمد غازی بھی اسی گاؤں میں چار ایکڑ رقبے کے مالک ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ نمل ڈیم کا پانی ان کی فصل تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔اس لیے انہوں نے گندم اور کپاس کے بجائے صرف چنا اور باجرہ کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔
نمل ڈیم کوہ نمک (سالٹ رینج) کے مغربی کنارے سے 35 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے ۔یہ ڈیم برطانوی دور حکومت میں تعمیر ہوا۔ اس کی بنیاد اس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل او ڈائر نے 1913 میں رکھی تھی۔
اس ڈیم کی اونچائی91 فٹ ہے۔ اس میں630 ملین کیوبک فٹ پانی جمع کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس سے 12کلو میٹر طویل ایک نہر بھی نکالی گئی جسے 'نمل کینال' کہا جاتا ہے۔
نمل کینال کا کمانڈ ایریا آٹھ ہزار753 ایکڑ تھا۔ اس میں سے پانچ ہزار897 ایکڑ زیر کاشت ہے۔آج 110 سال بعد نہر کی لمبائی سکڑ کرآٹھ کلو میٹر رہ گئی ہے۔
ڈسٹرکٹ آفیسر زراعت محمد فاروق اعظم بتاتے ہیں کہ15 برس پہلے یونین کونسل موسیٰ خیل کا ساڑھے چار ہزار ایکڑ رقبہ اسی نہر سے سیراب ہوتا تھا مگر اب تین ہزار ایکڑ زمین مشکل سے سیراب ہوتی ہے۔ اس عرصے میں یہاں کاشت30 فیصد متاثر ہوئی ہے۔
اربن سیکٹر پلاننگ اینڈ منیجمنٹ سروسز یونٹ کی 2022ء کی رپورٹ کے مطابق نمل ڈیم کی جھیل کا رقبہ ساڑھے پانچ مربع کلومیٹر تھا جو کم ہو کر 1986ء میں 4.6 کلومیٹر رہ گیا اور پانی کی گنجائش 16 فیصد کم ہو گئی۔ 2018ء میں سٹوریج لیول 27 فیصد کم ہو گیا۔
2022ء میں جھیل کا رقبہ 2.2 مربع کلومیٹر رہ گیا اور ڈیم کی تہہ میں مٹی بھر جانے سے پانی کی گنجائش 57 فیصد کم ہو گئی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جھیل میں پانی کی سطح کم ہونے کے ساتھ علاقے میں واٹر ٹیبل بھی روز بروز گرتا جا رہا ہے۔
کاشت کارمحمد غفور یونین کونسل موسیٰ خیل میں اپنا آبائی رقبہ کاشت کرتے ہیں۔انہوں نےاپنی 25 ایکڑ زمین میں سے بارہ ایکڑ پر کپاس کاشت کر رکھی ہے اور باقی رقبہ پانی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بنجر چھوڑ دیا ہے ۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال پہلے آبپاشی کےلئے ٹیوب ویل لگوایا تھا۔690 فٹ گہرا بور ہوا۔60 لاکھ روپے خرچ ہوئےآئے مگر دو ماہ کے اندر ہی زیر زمین پانی کی سطح مزید کم ہو گئی اور ان کو ٹیوب ویل بند کرنا پڑا۔
سر کاری اعدادوشمار کے مطابق ضلع میانوالی کا کل قابل کاشت رقبہ 7لاکھ 55ہزار ایکڑ ہے۔ اس میں سے تین لاکھ 16ہزار 815 ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے ۔ صرف 33 ہزار آٹھ سو ایکڑ نہری پانی سے کاشت ہوتا ہے۔
سماجی کارکن امیر اللہ خان نے بتاتے ہیں کہ وہ ڈیم کی بحالی کے لیے پانچ بار محکمہ انہار کو درخواستیں دے چکے ہیں۔2022 ء میں موسیٰ خیل اڈا پر کسانوں نے سڑک بلاک کر کے اس مسئلے پر احتجاج بھی کیا لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ جو تھوڑا بہت پانی آ رہا ہے وہ نہر میں بند باندھ کر بااثر افراد اپنی طرف موڑ لیتے ہیں۔ آگے پانی پہنچ ہی نہیں پاتا۔ اس لیے بہت سے کاشتکار کپاس کی فصل بوتے ہی نہیں۔
محمکہ انہار نمل کے ایس ڈی او محمد نوید کا کہنا ہے کہ نہر کی صفائی تو ہوتی ہے مگر ڈیم کی بحالی بہت بڑا منصوبہ ہے۔ پچھلی حکومت میں ڈیم کی صفائی کا منصوبہ زیر غور آیا تھا مگر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔
یہ بھی پڑھیں
چوبارہ برانچ پر سندھ کا اعتراض: 'تھل میں ایک نئی نہر بنانے سے ہمارے حصے کا پانی اور بھی کم ہو جائے گا'۔
اربن پلاننگ سروسز یونٹ نے نمل جھیل اور ڈیم کی بحالی کے لیے 317.72 ملین روپے کا خام تخمینہ لگایا تھا۔ مگر اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
جھیل کی تباہی سے نہ صرف زراعت بلکہ پوری وادی کا ماحول بدل رہا ہے اور چرند پرند اور نباتات بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف محمد ابرار بتاتے ہیں کہ بھی یہاں پر غیرملکی مہمان پرندے بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے۔ شکار پر پابندی کے باوجود اب یہاں ان پرندوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔اس کے علاوہ نباتات میں سونف، باتھو، کوڑتماں یہاں اب ناپید ہو چکے ہیں۔
کوہ نمک کے مغربی جانب موسیٰ خیل سے یونین کونسل چھدرو تک پھیلی 12کلومیٹر لمبی اور کئی کلو میٹر چوڑی یہ پٹی کپاس کی پیداوار اورکوالٹی کے لیے مشہور رہی ہے ۔حافظ والا کاٹن فیکٹری کے سلیکٹر محمد قدیر خان بتاتے ہیں کہ یہاں کی کاٹن کا ریشہ اعلیٰ کوالٹی کا شمار ہوتا ہے لیکن نہر سکڑنے سے اب یوں لگتا ہے کہ اس علاقے سے کپاس کی فصل کا خاتمہ ہو جائے گا اور زراعت سے وابستہ تقریباً چھ سو خاندان اپنا روزگار کھو بیٹھیں گے۔
تاریخ اشاعت 23 اگست 2023