نئی حلقہ بندیوں سے ضلع ملتان بھی ایک صوبائی نشست سے محروم ہو گیا ہے۔ مگر یہاں کے بڑے بڑے سیاستدانوں کے لیے یہ کوئی بڑا ایشو نہیں ہے۔ تاہم تبدیلیوں نے بہت سے امیدواروں کو پریشان ضرور کر دیا ہے۔
پچھلی مردم شماری میں ضلع ملتان کی آبادی 47 لاکھ 46 ہزار 166 تھی۔تب قومی اسمبلی کی چھ اور صوبائی اسمبلی کی 13 نشستیں دی گئی تھیں۔ اب اس ضلعے کی آبادی 53 لاکھ 62 ہزار 305 ہوگئی ہے۔
نئی حلقہ بندی میں یہاں چھ قومی حلقے تو برقرار رکھے گئے ہیں۔ لیکن صوبائی حلقے 12 کر دیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق آبادی کے لحاظ سے صوبائی نشستوں میں ضلع ملتان کا حصہ 12.47 نشستیں بنتا تھا۔ مگر 0.47 کو نظر انداز کر کے ایک حلقہ کم کر دیا گیا ہے۔
پچھلے الیکشن میں ملتان کے قومی حلقے این اے 154 سے این اے 159 تک تھے جو اب این اے 148 سے این اے 153 تک ہوں گے۔اسی طرح صوبائی حلقے پی پی 211 سے پی پی 223 تک تھے۔ اب ایک سیٹ کم ہونے کے ساتھ یہاں حلقوں کے سیریل نمبر بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ان کو نئے نمبر پی پی 213 سے پی پی 224 تک الاٹ کیے گئے ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں میں سابقہ صوبائی حلقہ پی پی 212 کو تحلیل کر دیا گیا ہے اور اس کی آبادیوں کو نئے پی پی 213 اور پی پی 214 کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یوں ان دو صوبائی حلقوں ہی میں بڑی تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
سابقہ حلقے پی پی 211 سے علی حیدر گیلانی منتخب ہوئے تھے۔ یہ حلقہ تحصیل ملتان صدر کے قانونگوئی حلقوں بوسن اور نواب پور کے علاوہ قادر پور قانونگوئی کی بعض آبادیوں اور تحصیل سٹی کے دیہی علاقوں تاج پور سندیلہ، درانہ لنگانہ، پیراں غائب پر مشتمل تھا۔
پی پی 213 (سابقہ پی پی 211 ) سے اب سٹی تحصیل ملتان کے دیہی علاقے نکال کر شہری علاقے چارج 7، 8 کے کچھ سرکلز اور تحصیل صدر کی ٹاؤن کمیٹی قادر پور راں شامل کر دیے گئے ہیں۔ تاہم قانونگوئی بوسن، نواب پور اور قانونگوئی قادر پور راں کے علاقے بدستور اسی حلقے کا حصہ ہیں۔
تحلیل ہونے والا حلقہ سابقہ پی پی 212 مظفر آباد قانون گوئی اور شیر شاہ قانگوئی (ماسوائے تاج پور سندھیلہ پٹوار سرکل) پر مشتمل تھا۔ یہاں سے تحریک انصاف کے سلیم اختر لابر منتخب ہوئے تھے اور ناظم شاہ ہار گئے تھے۔
اب نئے پی پی 214 میں قانون گوئی شیر شاہ ( سوائے پٹوار سرکلز سلطان پور ممڑ، بچ، کھوکھراں، فیروز پور، لابر اور کوٹلہ کمبوہ )، مظفر آباد قانونگوئی (سوائے پٹوار سرکل بہاولپور سکھا)شامل کیے گئے ہیں۔ ملتان کینٹ اور ملتان کینٹ قانونگوئی کے ساتھ میونسپل کارپوریشن کے چارج نمبر5 اور 6 کی کچھ آبادیاں بھی اسی حلقے کا حصہ ہیں۔
صوبائی حلقہ پی پی 215 سے پی پی 221 تک چھ حلقوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ پی پی 222 ، پی پی 223 اور پی پی 224 تحصیل شجاع آباد اور تحصیل جلالپور پیروالا کی آبادیوں پر مشتمل ہیں۔ان حلقوں میں بھی معمولی ردوبدل کیا گیا ہے۔
صوبائی نشست کی کمی کا نقصان کس امیدوار کو ہوتا ہے اس کا اندازہ تو ٹکٹوں کی تقسیم اور سیاسی صف بندی کے بعد ہو گا۔
تاہم ضلعی صدر مسلم لیگ ن محمد بلال بٹ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ نئی حلقہ بندیوں سے بہت سے امیدوار اور کارکن پریشان ہیں۔ ملتان میں ضلعے کی آبادی بڑھ گئی ہے تو حلقوں کا کم ہونا سوالیہ نشان ہے۔ حلقہ بندیوں میں عوامی نمائندگان سے مشاورت کی جانی چاہیے تھی۔
انصاف لائرز فورم پنجاب کی نائب صدر سارہ علی سید بتاتی ہیں کہ حلقہ بندیوں سے مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ آبادی بڑھنے سے حلقے بھی بڑھنے چاہیے تھے لیکن ملتان کا حلقہ ختم کردیا گیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ رولز کے مطابق الیکشن کمیشن تمام پارٹیوں سے مشاورت کے بعد حلقہ بندیاں کرتا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کو مشاورت میں شامل نہیں کیا گیا جس پر انہیں شدید قسم کے تحفظات ہیں۔
قومی حلقوں کی نئی حلقہ بندی کرتے ہوئے این اے 148 میں قادر پور راں ٹاؤن کمیٹی کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ حلقہ ملتان کینٹ، قانونگوئی ملتان کنٹونمنٹ، بوسن، نواب پور، شیر شاہ اور شہری چارج 5 سے چارج 8 کے مختلف سرکلز پر مشتمل ہے۔
این اے 148 میں قادر پور راں ٹاؤن کمیٹی کو شامل کرنے پر دونوں متحارب سیاسی دھڑوں یعنی گیلانی گروپ اور بوسن گروپ کو اعتراض ہے۔ دونوں کا خیال ہے کہ قادر پور راں ٹاؤن کمیٹی کو اس حلقے میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
نئی حلقہ بندیوں پر ضلع ملتان سے کل 42 اعتراضات جمع کرائے جا چکے ہیں۔ شوکت حیات بوسن کا کہنا تھا کہ نئی حلقہ بندیوں سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔تاہم سابق ممبر قومی اسمبلی سکندر حیات بوسن نے حلقہ بندی پر اعتراضات داخل کرا دیے ہیں۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ قادر پور راں ٹاؤن کمیٹی اور شماریاتی سرکل کے چارج نمبر 8 کے سرکل نمبر 8، 10 ، 11 اور 13 کو این اے 148 کا حصّہ بنایا گیا ہے۔ اس آبادیوں کا اس حلقے سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ یہ علاقے این اے 149 اور این اے 150 کے درمیان آتے ہیں لہٰذا انہیں متصل حلقوں میں شامل کیا جائے۔
پی پی 213 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار علی حیدر گیلانی کو بھی یہی اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قادر پور راں ٹاؤن کا علاقہ دوسرے حلقوں میں 'لینڈ لاک' ہے۔ یہ بات الیکشن کمیشن نے بھی تسلیم کی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ حلقہ بندیوں میں ن لیگ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن انہیں اس حد بندی پر کچھ زیادہ اعتراض نہیں ہے۔ کیوںکہ ان کا خاندان بیشتر نشستوں پر الیکشن لڑ رہا ہے، اس لیے خاص فرق نہیں پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع سانگھڑ کی ایک قومی اور ایک صوبائی نشست کم ہونے سے زیادہ پریشان کون ہے؟ پی پی یا فنکشنل لیگ
تاہم سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی نے حامد پور کنورا کی این اے 148 میں شمولیت پر اعتراض کیا ہے۔اور اس علاقے کو این اے 152 میں شامل کرنے کی درخوست کی ہے۔
ان کے علاوہ شہریوں کی طرف سے پی پی 214 میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور کینٹ کی شہری آبادیوں کو شامل کرنے پر زیادہ اعتراضات سامنے آئے ہیں۔
ان درخواستوں میں تجویز دی گئی ہے کہ پٹوار سرکل تاج پور سندیلہ اور اکبر پور کی آبادی کو پی پی 213 میں شامل کیا جائے۔ جبکہ چارج نمبر 7 اور 10 کی کل آبادیوں کو پی پی 213 سے نکال کر پی پی 214 کا حصہ بنایا جائے۔
تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے جاوید اختر انصاری نے بھی اعتراضات جمع کرائے ہیں۔ انہوں نے چارج نمبر 8 کے سرکل نمبر 8 ، 10 اور 13 کی آبادیوں کو این اے 149 میں شامل کرنے اور چارج نمبر 8 کے سرکل نمبر 15 اور چارج نمبر 7 کے سرکل نمبر 16 کے علاقوں کو این اے 149 سے نکالنے کی تجاویز دی ہیں۔
تاریخ اشاعت 15 نومبر 2023