عوامی احتجاج رنگ لے آیا: دادو میں موہن جو دڑو ایکسپریس کا ڈھول اور شہنائیوں سے استقبال

postImg

اختر حفیظ

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

عوامی احتجاج رنگ لے آیا: دادو میں موہن جو دڑو ایکسپریس کا ڈھول اور شہنائیوں سے استقبال

اختر حفیظ

loop

انگریزی میں پڑھیں

رواں برس 20 جولائی کو ضلع دادو کے سیتا روڈ ریلوے سٹیشن پر جشن کا سماں تھا جہاں لوگ ڈھول اور شہنائی کی آواز پرجھوم رہے تھے۔ یہ لوگ سٹیشن پر کسی بارات یا کسی بڑی شخصیت کو وصول کرنے نہیں بلکہ موہن جو دڑو ایکسپریس کا استقبال کرنے کے لیے آئے تھے۔ ٹرین سٹیشن پہنچی تو لوگوں نے اس پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور ڈرائیور اور گارڈ کو ہار پہنائے۔ یہ ٹرین مقامی لوگوں کے ایک برس کے انتظار اور جدوجہد کے بعد اس ریلوے سٹیشن پر آئی تھی۔

آٹھ بوگیوں پر مشتمل موہن جو دڑو ایکسپریس کوٹڑی سے چلتی ہے اور جامشورو، سیوہن، دادو، لاڑکانہ اور روہڑی تک جاتی ہے۔ کوٹڑی سے روہڑی کا فاصلہ 315 کلومیٹر ہے۔اس کی ہر بوگی میں 88 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ یہ ٹرین گزشتہ سال بارشوں اور سیلاب کے باعث بند کر دی گئی تھی اور اس سہولت سے فائدہ اٹھانے والوں کا مطالبہ تھا کہ ٹرین کو دوبارہ کوٹڑی روہڑی ٹریک پر چلایا جائے۔

ٹرین کی بحالی کے لیے شہریوں نے کئی مرتبہ احتجاجی مظاہرے کیے اور سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی جو نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔

قمبر علی خان شہر کے سیاسی و سماجی رہنما ایاز جمال چانڈیو کا اس جدوجہد میں اہم کردار ہے۔

 ان کا کہنا ہے کہ 2022ء میں آنے والے سیلاب کے بعد دادو اور سیوہن سے سیلابی پانی کی نکاسی کے لیے ریل کی پٹڑی کو بااثر لوگوں کے کہنے پر غیر ضروری کٹ لگائے گئے جس سے نہ صرف خیرپور ناتھن ڈوبا بلکہ موہن جو دڑو ٹرین کی آمدورفت بھی بند  ہو گئی۔ اس کی بحالی کے لیے لوگوں نے مل کر تحریک شروع کی جن کا تعلق ریلوے لائن پر واقع مختلف شہروں سے تھا۔

تحریک میں سرگرم سیتا روڈ کے مشہور میمن کہتے ہیں کہ انہوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ قمبر، لاڑکانہ، سیتا روڈ، دادو اور دیگر شہروں میں احتجاج شروع کیے جو چھ ماہ تک باقاعدگی سے جاری رہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ ان کے احتجاج میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی لیکن عام لوگوں کو قائل کرنے میں مشکل پیش آئی۔ جب ہم انہیں کہتے کہ ہمارے ساتھ باہر نکلو تو وہ مختلف عذر پیش کرتے جیسا کہ ٹرین وقت پر نہیں آتی، سفر میں بہت وقت لگ جاتا ہے، اس میں سہولیات نہیں ہیں۔ جواباً ہم انہیں بتاتے کہ بسوں اور کوچوں کی نسبت یہ سفر سستا ہے۔

"میں سمجھتا ہوں کہ روڈ ٹرانسپورٹ مافیا کو مضبوط کرنے کے لیے ریلوے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے ریلوے کا نظام جدید بنانے کی ضرورت ہے۔"

خیال رہے کہ مختلف اسباب بتا کر محکمہ ریلوے نے اباسین ایکسپریس، چلتن ایکسپریس، خوشحال خان خٹک ایکسپریس، بولان میل، بدین ایکسپریس اور چند دیگر ٹرینیں بند کر دی ہیں۔ نیز بہت سے ریلوے سٹیشنوں کو خسارے میں قرار دے کر مسافر ٹرینوں کے سٹاپ بھی ختم کر دیے ہیں۔

لاڑکانہ کے محمد حسین ڈیرو ٹرین کے سفرکو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موہن جو دوڑ ایکسپریس بند ہونے سے ٹرین میں سفر کرنے والوں کی مشکلات بڑھ گئی تھیں۔ یہ سفر روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں آرام دہ اور سستا ہوتا ہے۔

 "اگر مجھے حیدرآباد سے لاڑکانہ بس کے ذریعے جانا ہو تو یکطرفہ کرایہ 1300 روپے ادا کرتا ہوں جبکہ ٹرین کا ٹکٹ نو سو روپے میں پڑتا ہے۔"

ان کے مطابق لاڑکانہ تا حیدرآباد مزید ٹرینیں چلانے کی ضرورت ہے۔

موہن جو دڑو ایکسپریس کے علاوہ سندھ میں اس وقت دو ٹرینیں چل رہی ہیں جن میں جیکب آباد سے کراچی جانے والی سکھر ایکسپریس اور کراچی سے میرپورخاص تک سفر کرنے والی مہران ایکسپریس شامل ہیں۔

سندھ میں کل 215 ریلوے سٹیشنوں میں سے 100 پر مسافر ٹرینیں رکتی ہیں۔ دیگر سٹیشنوں پر لوگ ریل گاڑیاں گزرتے دیکھتے ہیں مگر ان پر سفر نہیں کر سکتے۔

روہڑی ہیڈکوارٹر کے ٹرین انچارج حبیب ساجد کا کہنا ہے کہ ماضی میں کوٹڑی اور حیدرآباد اہم ترین سٹیشن ہوا کرتے تھے اور تقریباً تمام ٹرینیں کوٹڑی اور حیدرآباد میں ٹھہرتی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

راجن پور کا ریلوے سٹیشن جہاں تین سال سے سیٹی نہیں بجی

تاہم آمرانہ حکومتوں میں ریلوے کو عوامی سہولت کے بجائے کمائی کرنے والا ادارہ بنانے کی کوشش کی گئی جس سے صورت حال بدل گئی۔ کوٹڑی جنکشن سٹیشن ہے اور وہاں ریلوے ورکشاپ بھی ہے۔ اس لیے پہلے اس کی اہمیت حیدرآباد سے زیادہ تھی۔ لیکن کمائی کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی ڈاؤن گریڈنگ کر دی گئی۔

ان کے مطابق ریل کے حادثات ناقص میٹیریل اور بہتر چیکنگ نہ ہونے کے باعث ہوتے ہیں۔ ریلوے کا تمام تر ڈھانچہ اپنی معیاد پوری کر چکا ہے۔ جب ان پٹڑیوں پر 110 کی رفتار سے ٹرین چلتی ہے تو حادثہ ہونے کا بہت امکان ہوتا ہے۔

"حال ہی میں دوبارہ شروع کی گئی موہن جو دڑو ایکسپریس نے عوام کے لیے ایک بار پھر سفری سہولت فراہم کی ہے۔ اسی طرح ملک میں بند کی گئی دیگر ٹرینوں کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ ٹرینوں کے بند کیے گئے اسٹاپ بحال کیے جائیں اور ریلوے کے محکمے پہ توجہ دی جائے تو سفر کو سستا، آسان اور محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔"

تاریخ اشاعت 21 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں۔ وہ ایک سندھی روزنامہ سے وابستہ ہیں۔

مزدور انصاف مانگتا ہے، عدالت تاریخ دے دیتی ہے

thumb
سٹوری

گناہ بے لذت: گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ کم کر نے کے لیے ڈیزل جنریٹرز، بجلی تو پھر بھی نہ آئی اور آلودگی بڑھ گئی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

برطانیہ کی پنجابی دشمنی ہمارے حکمران لے کر چل رہے ہیں

thumb
سٹوری

'کسان کھڑی فصلوں پہ ہل چلا رہے ہیں، سبزیوں کی اتنی بے قدری کبھی نہیں دیکھی'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

شینا کوہستانی یا انڈس کوہستانی: اصلی 'کوہستانی' زبان کون سی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر توروالی
thumb
سٹوری

پاکستان میں لسانی شناختوں کی بنتی بگڑتی بساط: مردم شماریوں کے ڈیٹا کی نظر سے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی
thumb
سٹوری

'میواتی خود کو اردو کا وارث سمجھتے تھے اور اسے اپنی زبان مانتے رہے': ہجرت کے 76 سال بعد میواتی کو زبان کا درجہ کیسے ملا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceافضل انصاری
thumb
سٹوری

بڑے ڈیمز اور توانائی کے میگا منصوبےکیا واقعی ملک اور معیشت کے لیے ضروری ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

درخت کاٹو یہاں سے بجلی گزرے گی

خزانے کے لالچ میں بدھ مت کے مجسموں کو خطرہ

thumb
سٹوری

'مادری زبان کے نام پر ہم پہ فارسی نہ تھوپیں، ہزارگی علیحدہ زبان ہے فارسی کا لہجہ نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی

راوی کو پانی چاہئیے, روڈا نہیں

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.