محمد اصغر میانوالی کے شہر کندیاں کے رہائشی ہیں۔ وہ پانچ ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں اور زیادہ تر سبزی ہی کاشت کرتے ہیں۔رواں سال انہوں نے ایک ایکڑ پر پیاز اگایا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ کھیت میں پینری لگانے اور جڑی بوٹی نکالنے کا کا م انہوں نے مزدوری پر کرایا اور سپرے خود کرتے رہے۔ فصل اکٹھی کرنے کے لیے دونوں میاں بیوی نے مل کر محنت کی۔ کھاد، سپرے، ڈیزل اورزمین کی تیاری پر کل دو لاکھ روپے خرچ آئے۔
وہ کہتے ہیں کہ عام طور پر اچھی زرخیز زمین پانچ سو من فی ایکڑ پیاز دیتی ہے لیکن اگست میں ژالہ باری نے ان کی فصل کو شدید متاثر کیا تھا ۔اس لیے پیداوار تین سو من سے زیادہ نہیں نکلی۔
محمد اصغر نے بتایا کہ اس بار منڈی میں پیاز کا ںرخ بھی تین سو روپے من سے اوپر نہیں گیا۔ وہ ایک ایکڑ سے منافع تو کیا ڈیزل اور کھاد کا خرچ بھی وصول نہیں کر پائے۔ "مہنگائی نے چھوٹے کسان کو کاشت کاری چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے"۔
عالمی ادارہ برائے خوراک اور ایف اے او (ورلڈ فود ایڈ اگریکلچر آرگنائزیشن ) روزانہ فی کس چار سو گرام سبزی اور فروٹ تجویز کرتے ہیں۔ جبکہ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں یہ کھپت صرف سو گرام فی کس رہ گئی ہے۔
پاکستان میں مجموعی طور پر35 سے زیادہ اقسام کی سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ میانوالی میں گوبھی، گاجر، پالک، آلو، مولی، شلجم، بھنڈی، مرچ، مٹر اور پیاز زیادہ کاشت ہوتے ہیں۔
ضلع میانوالی پانچ ہزار 840 مربع کلو میڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ ماحولیاتی تنوع کے اعتبار سے یہاں پانچ زون ہیں۔ لاکھوں ایکڑ صحرائے تھل، نہری علاقے، دریائے سندھ کے کچے (ڈیلٹا)، پہاڑی ڈھلوانوں اور پہاڑوں میں بھی فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔
ضلع میانوالی کے سرکاری پروفائل کے مطابق ضلع بھر میں تین لاکھ 16 ہزار 815 ایکڑ رقبہ زیر کاشت ہے۔ جس میں سے 33ہزار 832 ایکڑ رقبہ نہر سے سیراب ہوتا ہے۔ جبکہ تقریباً دو لاکھ 83 ہزار ایکڑ پر بارانی کاشت ہوتی ہے۔
اس ضلعے کے لگ بھگ ایک لاکھ 60 ہزار ایکڑ رقبے پر سال میں ایک سے زیادہ بار کاشت ہوتی ہے۔ اس میں کچھ تو نہری علاقے اور باقی وہ بارانی زمینیں ہیں جہاں کاشت کاروں نے آبپاشی کے لیے ٹیوب ویل یا متبادل انتظامات کر رکھے ہیں۔
زراعت شماری 2010ء (ایگریکلچر سینسس) کے مطابق پنجاب میں 64 فیصد زمین مالکان پانچ ایکڑ یا اس سے کم رقبے کے مالک ہیں۔جبکہ میانوالی میں 66 فیصد کسانوں کے پاس پانچ ایکڑ یا اس سے کم رقبہ ہے۔
یہاں زیادہ تر روایتی فصلیں گنا،کپاس اور تمباکو ہی کاشت کی جا رہی ہیں ۔ جبکہ چھوٹے کاشت کار ان فصلوں کے اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے۔اس لیے وہ اپنی زمینیں کو ہاوسنگ سکیموں کو فروخت کر رہے ہیں۔
عمر حیات کندیاں شہر کے رہائشی ہیں۔ وہ اپنی پانچ ایکڑ اراضی پر پالک، پیاز اور گاجر کاشت کیا کرتے تھے اور اس آمدنی سے چھ افراد پر مشتمل خاندان کے اخراجات پورے کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جوں جوں مہنگائی بڑھی اس کے ساتھ زمین کی تیاری، بیج، سپرے، کھاد اور پانی کے اخراجات برادشت کرنا بھی ناممکن ہو گیا تھا۔
انہوں نے اپنی زمین چار سال پہلے 40 ہزارروپے ایکڑ سالانہ ٹھیکے پر دے دی۔
وہ کہتے ہیں کہ ٹھیکے کی رقم سے گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا تھا۔اس لیے تنگ آکر حال ہی میں اپنی زمین ڈھائی لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے فروخت کر دی ہے۔اس رقم سے وہ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔
میانوالی کے کچے میں سبزی کاشت کر نے والے کسانوں کی حالت بھی زیادہ اچھی نہیں ہے۔ ناصر خان میانوالی شہر سے چار کلو میڑ دور کچے کے رہائشی ہیں۔ وہ 15 ایکڑ زمین کے مالک ہیں اس بار انہوں نے دس ایکڑ پر گاجر اور تین ایکڑ پر پالک کاشت کی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہیں سبزی لانچ کے ذریعے دریا کنارے پر لانی ہوتی ہے۔ وہ لانچ کو ڈیزل پر چلاتے ہیں اور اس پر روزانہ 900 روپے خرچ ہوتے ہیں، پھر سبزی کو میانوالی منڈی پہنچانے کے لیے لوڈر کا انتظام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کچے میں سبزی سٹور نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے تازہ سبزی ہی منڈی میں لانا پڑتی ہےاور یہ روزانہ ڈھائی سے تین ہزار کی بکتی ہے۔
"ڈیزل اور آنے جانے کا خرچ نکال کر دو ہزار بھی نہیں بچتے۔ یہ سودا بہت مہنگا ہے"۔
تاہم کندیاں میں 20 ایکڑ کے زمیندار محمد امان اللّٰہ اپنے حالات سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے پچھلے سیزن میں پانچ ایکڑ پر بھنڈی کاشت کی تھی اور خاطر خواہ منافع کمایا۔اب انہوں نے دس ایکڑ پر پالک کاشت کر رکھی ہے۔ تاہم کھادوں کی مارکیٹ میں قلت سے وہ خود بھی پریشان نظر آئے۔
وہ کہتے ہیں کہ چھوٹےکسان فصلوں پر آنے والی لاگت (ان پٹس)سے دلبرداشتہ ہو گئے ہیں۔
اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت طارق خان نیازی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کسانوں کو کاشت کاری کے پرانے اور روایتی طریقے چھوڑنا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں
سبزی منڈی نہ کولڈ سٹوریج: تھر کی نامیاتی سبزیاں اونے پونے بکتی یا ضائع ہو جاتی ہیں
وہ کہتے ہیں کہ پنجاب میں تقریباً 36 لاکھ ایکڑ قابل کاشت رقبہ بنجر پڑا ہے۔ تاہم سالانہ 30 ہزار ایکڑ زمین زیر کاشت لائی جا رہی ہے۔کسانوں کو زرعی قرضوں کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ساتھ ماہرین سے بھی مدد لینی چاہیے اور محکمہ زراعت کے فری ہیلپ لائن نمبر پر بھی بات کر سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہائبرڈ بیجوں کے استعمال سے پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔چھوٹے کاشت کار موسمی سبزیاں اگائیں تو زیادہ منافع کما سکتے ہیں۔
"کسان مہنگائی کی بجائے جدید کاشت کاری پر پر توجہ دیں"۔
ماہر زراعت نذر اعوان زرعی افسر طارق نیازی کی بات سے اس حد تک تو اتفاق کرتے ہیں کہ کسانوں کو ڈیجٹیل اور سمارٹ فارمنگ کلچر کو اپنانا ہوگا تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کو مہنگائی کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی سامنا ہے۔
"سمارٹ طریقے اور خود کار ایری گیشن سسٹم پیداوار میں اضافے کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن بد قسمتی سے مہنگائی اور غربت کی وجہ سے چھوٹے کسان نہ صرف زراعت چھوڑ رہے ہیں بلکہ ملک میں سبزیوں کی فی کس روزانہ طلب بھی کم ہو رہی ہے"۔
تاریخ اشاعت 4 نومبر 2023