خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری مخصوص ملازمتی کوٹے میں حق تلفی پر نالاں

postImg

محمد بلال یاسر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

خیبرپختونخوا میں اقلیتی برادری مخصوص ملازمتی کوٹے میں حق تلفی پر نالاں

محمد بلال یاسر

loop

انگریزی میں پڑھیں

حال ہی میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے والی ضلع باجوڑ کی طالبہ ایمن مسیح اپنی مذہبی برادری کے لیے مخصوص سمجھی جانے والی ملازمتوں کے بجائے کوئی دوسرا شعبہ اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ ایمن کو تعلیم کے حصول میں والدین کی بھرپور سپورٹ حاصل رہی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ پڑھ لکھ کر کسی اچھی جگہ کام کریں لیکن مسیحی برادری کے ساتھ سرکاری ملازمتوں کے حصول میں روا رکھے جانے والی امتیازی رویے کے باعث وہ کئی طرح کے خدشات کا شکار ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ برادری کے لوگ انہیں یہی کہتے ہیں کہ اپنے لیے بروقت کوئی ملازمت ڈھونڈ لو ورنہ وقت گزرتا جائے گا اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

"ان کا کہنا کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے، کیونکہ برادری کی اکثر لڑکیاں پڑھنے لکھنے کے باوجود بھی سینٹری ورکر جیسی ملازمتوں پر ہی بھرتی ہو جاتی ہیں اور ملازمتوں میں ان کے لیے مختص پانچ فیصد کوٹہ بھی بڑی حد تک خالی ہی رہتا ہے۔"

ایمن کے والد جمیل مسیح 1990 سے باجوڑ میں مقیم ہیں۔ وہ پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ہیں جس میں ان کا انتخاب بطور فٹبال کھلاڑی ہوا تھا اور وہ آرمی کی فٹ بال ٹیم کے کپتان رہ چکے ہیں۔

جمیل مسیح، ضلع باجوڑ کی مسیحی برادری کی تنظیم کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت باجوڑ میں مسیحی برادری کے کل 37 خاندان آباد ہیں، جن کی آبادی 327 افراد ہے۔ ان میں سے 41 افراد تحصیل خار کے جنرل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان لوگوں میں 12 خواتین اور 29 مرد ہیں جبکہ ایک خاتون اور پانچ مرد سول کالونی خار میں ملازمت کرتے ہیں۔

جمیل کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی بھرتی کھلتی ہے تو اس میں اقلیتوں کا ذکر نہیں کیا جاتا، محکمہ تعلیم میں حالیہ بھرتیوں کیلئے شائع ہونیوالے اشتہار میں اقلیتوں کا ذکر ہی نہیں تھا، جب ان کی برادری کو اس کا علم ہوا تو ملازمتوں کے لیے درخواست دینے کی مدت ختم ہو چکی تھی۔

کلاس فور میں بھرتیوں کے لیے یہ اشتہار ایک ایسے اخبار میں دیا گیا تھا جو بہت کم لوگ پڑھتے ہیں۔ اگر محکمہ ان لوگوں کو بھرتی کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ گرجا گھروں پر اشتہار لگائے تاکہ اقلیتی برادری کے لوگوں کو پتہ چلے اور وہ بھرتی کیلئے درخواستیں دے سکیں۔

ضلع باجوڑ سے ملحقہ قبائلی ضلع مہمند میں بھی اقلیتی برادری کے درجنوں خاندان کئی دہائیوں سے آباد ہیں۔ سرکاری ملازمت کے سرگرداں 24 سالہ  نیلم مسیح ( فرضی نام ) کہتی ہیں کہ اقلیتوں کیلئے سرکاری ملازمتیں زیادہ تر محکمہ تعلیم، صحت، پولیس اور میونسپل نظام میں ہیں۔

"سرکاری ملازمتوں کا ہمارے معاشرے میں سیاست سے گہرا تعلق ہے۔ جب ملازمتیں آتی ہیں تو بھرتیوں کا عمل دیانت داری سے انجام نہیں دیا جاتا۔ اگر کہیں کسی کی نمائندگی نہ ہو تو کوٹہ اور طرفداری تو چھوڑیں میرٹ پر بھی ملازمت نہیں ملتی۔ اسی وجہ سے اقلیتی برادری اچھی ملازمت حاصل کرنے سے محروم رہتی ہے۔"

نیلم بتاتی ہیں کہ اقلیتی آبادی غربت اور معاشی مشکلات کا شکار ہے جو اعلیٰ تعلیم کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتی، جو چھوٹی موٹی ملازمتیں بچتی ہیں ان میں بھی سیاسی عمل دخل اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اقلیتیں ان کے حصول سے محروم رہ جاتی ہیں۔

"ان مسائل کے حل کیلئے ہم نے ہر دروازے پر دستک دی، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں صوبائی وزیر انور زیب خان سمیت اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں میں تسلیاں دی گئیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ اقلیتی برادری سے پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر ولسن وزیر بھی بے بس نظر آئے اور اپنے لوگوں کیلئے کچھ نہ کر سکے۔"

نیلم کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ اقلیتی نمائندوں کا نامزدگی کے ذریعے منتخب ہونا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 1997 تک جب اقلیتی نمائندگان الیکشن کے ذریعے منتخب ہوتے تھے تو ان لوگوں کے مسائل باآسانی حل ہو جاتے تھے اب چونکہ وہ نامزدگی کی بنیاد پر آتے ہیں اس لئے وہ صرف اپنی تنخواہ، مبینہ کمیشن اور تصویر کشی تک محدود رہتے ہیں۔

عابد رضا آل کرسچن کمیونٹی ضلع مہمند کے صدر ہیں۔ ان کے مطابق ضلع مہمند کے علاقے غلنئی میں اقلیتی برادری کے 39 خاندان آباد ہیں جو 1975 سے یہاں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہاں اقلیتی کوٹے پر کسی حد تک عملدرآمد ہوتا ہے لیکن انہیں ان کا حق اب بھی پورا نہیں مل رہا۔

"میں نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) میں برسر روزگار ہوں لیکن مجھ جیسے بہت سارے تعلیم یافتہ نوجوان ایسے ہیں جو اپنے حق کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن وہ تاحال اس سے محروم ہیں۔ ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مخصوص کوٹے پر عملدرآمد ہو مگر بسا اوقات ہمیں ملازمتیں کھلنے کا تب علم ہوتا ہے جب لوگ ان نوکریوں پر بھرتی ہو کر ڈیوٹی شروع کر چکے ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

جو چلے تو جاں سے گزر گئے: واسا فیصل آباد کے مسیحی مزدوروں کو درپیش جان لیوا خطرات

خیبرپختونخوا میں ضم شدہ قبائلی اضلاع میں اقلیتی برادری کے لیے تمام محکموں میں بھرتی کے وقت پانچ فیصد کوٹے پر عملدراۤمد یقینی بنانے کیلئے کئی بار نوٹیفکیشن جاری ہو چکے ہیں جن میں ان کے پانچ فیصد کوٹے پر سختی سے عملدراۤمد یقینی بنانے کو کہا گیا ہے۔

باجوڑ کے سابق پولیٹیکل ایجنٹ عامر خٹک نے 27 دسمبر 2017 کو ضلع باجوڑ کے تمام محکموں کو خط ارسال کیا تھا کہ وفاقی حکومت کے احکامات کی روشنی میں پانچ فیصد کوٹے پر لازمی عملدراۤمد یقینی بنایا جائے۔ تاہم اب بھی زیادہ تر محکموں نے اس پر کوئی عمل نہیں کی، حالیہ بھرتیوں میں محکمۂ ابتدائی وثانوی تعلیم نے ان تمام احکامات کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے  کلاس فور سیٹوں میں اقلیتوں کی حق تلفی کی ہے۔

اقلیتی برادری کا کہنا ہے کہ آتی جاتی حکومتیں جتنے بھی دعوے کرلیں کہ انہوں نے ہزاروں شہریوں کو نوکریاں دی ہیں، ان کا گلہ یہی ہے کہ اقلیتی برادری کو کسی نے ان کا مکمل حق نہیں دیا۔

تاریخ اشاعت 21 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد بلال یاسر پچھلے 7 سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اخبارات اور نشریاتی اداروں کیلئے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

دیامر بھاشا اور داسو ڈیم: ترقی کے نام پر بے دخلی اور احتجاج کی نہ ختم ہونے والی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

پیاز کی ریکارڈ پیداوار لیکن کسان کے ہاتھ کچھ نہ آیا

thumb
سٹوری

شہدادپور کی تین ہندو بہنوں کی گمشدگی اور قبولِ اسلام کی روداد: کب کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

تھرپاکر میں پانی ملا تو سولر نے زندگی آسان بنادی

thumb
سٹوری

"دنیا میں بچے صبح سکول جاتے ہیں، ہماری لڑکیاں جاگتے ہی پانی کی تلاش میں نکل پڑتی ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.