احمد علی گجرات کے رہائشی ہیں جو کچھ سالوں سے پرندوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ وہ عام طور پر لوگوں سےکبوتر ،مینا اور طوطے خریدتے اور بیچتے ہیں تاہم کبھی کبھی خود بھی جا کر دیہات سے پرندے پکڑ لاتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان پرندوں کی اچھی افزائش تو قدرتی ماحول میں ہوتی ہے لیکن کیا کریں یہی ان کا روزگار ہے اور شوق بھی۔
کچھ عرصے سے ان کا کاروبار مندا ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں سے پرندے بھی مشکل سے ہاتھ آتے ہیں۔
"مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ وجہ کیا ہے؟ بس اتنا جانتا ہوں کہ چڑیاں، طوطے، کبوتر وغیرہ بہت کم ہو گئے ہیں جیسے یہ علاقہ ہی چھوڑ گئے ہوں۔"
اس بات کی تصدیق یونیورسٹی آف گجرات کے زوالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ایک تحقیق بھی کرتی ہے جس میں یہاں دو سال کے دوران 12 ہزار 300 پرندوں کو شمار کیا گیا ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ضلعی گجرات میں مجموعی طور پر پرندوں کی 39 اقسام (ہر قسم میں کئی شکل و صورت اور وزن کے پنچھی شامل ہوتے ہیں) پائی گئیں جن میں 17 مقامی اور 22 مہمان پرندوں کی قسمیں شامل تھیں۔
رپورٹ کے مطابق پرندوں کی ان اقسام میں سے بیشتر معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جیسا کہ 17-2018ء کے دوران یہاں کے پرندوں میں جامنی ثمیرا (ایک قسم کی مقامی چڑیا) کی شرح 3.82 فیصد تھی مگر 19-2018ء میں یہ کہیں دکھائی نہیں دی جبکہ تلیر (روزی سٹارلنگ) اور کوئل کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے جو ان علاقوں میں اب کہیں نظر نہیں آتے۔
باغوں اور گھنے درختوں کا باسی خوبصورت پرندہ کوئل جس کی سریلی آواز کبھی شاعری کا موضوع ہوا کرتی تھی وہ اب یہاں تقریباً ناپید چکی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مادہ کوئل اپنے انڈے چپکے سےکوے یا کسی اور پرندے کے گھونسلے میں رکھ دیتی ہے۔ یہ پرندہ کوئل کے انڈے سیتا اور اس کے بچوں کو پالتا ہے لیکن کچھ ہفتوں بعد انہیں گھونسلے باہر پھینک دیتا ہے۔ تاہم تب تک بچے اڑنے کے قابل ہو چکے ہوتے ہیں۔
کوئل کی کئی اقسام بتائی جاتی ہیں جن کا وزن 15 گرام سے 130 گرام اور پروں کی رنگت بھی مختلف ہوتی ہے۔
یورپی تحقیقی ادارہ بی ٹو او (برٹش ٹرسٹ فار اورنیتھالوجی) کہتا ہے کہ کوئل کی کچھ اقسام ہر سال افریقہ سے نقل مکانی کر کے ہزاروں کلومیٹر دور برطانیہ پہنچتی ہیں۔
ڈاکٹر فل اٹکن سن جو کوئل کی مائیگریشن پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ تھے۔ بتاتے ہیں کہ افریقہ سے آنے والی کوئل اپریل کے آخر میں برطانیہ پہنچتی ہیں جہاں افزائش کے بعد خزاں کا آغاز ہوتے ہی واپسی کی اڑان بھرتی ہیں۔ یہ پرندے اٹلی اور سپین کے راستے بحیرہ روم کے اوپر سے گزرتے ہوئے افریقہ پہنچتے ہیں۔
تاہم پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سمیت اس خطے میں رہنے والی 'ایشیائی کوئل' نقل مکانی نہیں کرتی۔ اس کی افزائش بھی یہیں ہوتی ہے۔ یہ خوبصورت پرندہ اب ضلع گجرات میں کہیں دکھائی نہیں دیتا جبکہ دیہات کے لوگوں کے بقول اب یہاں کوئل کی آواز بہت ہی کم سننے کو ملتی ہے۔
گجرات یونیورسٹی کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق 17-2018ء میں یہاں گھریلو چڑیا کی شرح 4.4 فیصد تھی جو 19-2018ء میں کم ہوکر 3.01 فیصد ہو گئی۔ اسی طرح بھوری چٹانی چڑیا جس کی شرح 17-2018ء کے دوران 4.3 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی وہ اگلے سال 3.01 فیصد دیکھی گئی۔
زوالوجسٹ ثانیہ آفتاب پانچ برس سے گجرات یونیورسٹی کے شعبہ حیوانیات سے وابستہ ہیں۔ وہ پرندوں کی مختلف اقسام پر کام کر رہی ہیں۔
ثانیہ بتاتی ہیں کہ پرندوں کے کم ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں موسمیاتی تبدیلی، جنگلات کی کٹائی، کیڑے مار دواؤں کا استعمال، شکار اور غیر قانونی سمگلنگ زیادہ اہم ہیں۔
"زرعی رقبہ، باغات اور جنگلات آہستہ آہستہ شہری آبادیوں میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں جس سے جنگلی حیات کے لیے زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔"
2017 ء میں ضلع گجرات کی آبادی 27 لاکھ 56 ہزار 289 نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے لگ بھگ 30 فیصد لوگ شہری علاقوں میں رہتے تھے۔
2023ء کی مردم شماری بتاتی ہے کہ اب اس ضلعے کی آبادی 32لاکھ 19 ہزار 375 ہو چکی ہے جس میں 2.63 فیصد کی شرح سے اضافہ ظاہر ہو رہا ہے۔ اگرچہ دیہی اور شہری آبادی کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں تاہم یہ بات طے ہے کہ آبادی کے ساتھ تعمیرات میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجاب بیورو آف شماریات کے مطابق 09-2010ء میں ڈسٹرکٹ گجرات کے کل سات لاکھ 93 ہزار 208 ایکڑ رقبے میں سے چھ لاکھ 25 ہزار 177 ایکڑ اراضی زیرکاشت تھی جبکہ 29 ہزار 653 ایکڑ پر جنگلات تھے۔
تاہم 21- 2020ء میں زیرکاشت رقبہ پانچ لاکھ 80 ہزار 244 ایکڑ ہو گیا جبکہ جنگلات کی زمین 28 ہزار 964 ایکڑ رہ گئی۔ یوں دس سال میں زیر کاشت اراضی میں 44 ہزار 933 ایکڑ اور جنگلات کی زمین میں 689 ایکڑ کی کمی آ ئی ہے۔
غنی رحمان گجرات یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ میں پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے دیگر دو ساتھیوں کے ہمراہ اس ضلعے کی اراضی کے استعمال میں تبدیلیوں پر تحقیق کی ہے۔
ان کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ضلع گجرات میں 1985ء سے 2015ء تک یعنی 30 سال کے دوران زراعت و جنگلات کا رقبہ 85.1 فیصد سے سکڑ کر 79.6 فیصد ہو گیا ہے جبکہ تعمیرات 0.7 فیصد سے بڑھ کر چار فیصد رقبے پر پھیل گئیں۔
ثانیہ آفتاب کہتی ہیں کہ گجرات میں فیکٹریوں کا دھواں فلٹر کیے بغیر چھوڑا جاتا ہے جبکہ ٹرانسپورٹ کا شور اور آلودگی بھی فضا کو بہت متاثر کر رہی ہے فصلوں پر کیڑے مار دواؤں کا سپرے ایک اور عذاب ہے جو ماحول کو زیریلا کرنے کے ساتھ پرندوں پر بالواسطہ یا بلا واسطہ اثر ڈالتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ درختوں کی کمی اور ماحولیاتی تبدیلی نےگرمی اور سردی کی شدت کو بڑھا دیا ہے جسے پرندے برداشت نہیں کر پاتے اور ان کی موت ہو جاتی ہیں۔ اس کا رابن چڑیا، فنچ، لو برڈ، کنیری چڑیا وغیرہ پر زیادہ اثر نظر آ رہا ہے۔
جامعہ گجرات میں شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر محسن کہتے ہیں کہ اچانک موسمی تبدیلی کو تو سمندری بطخیں ،فلیمنگوز ،سارس اور بگلے وغیرہ بھی برداشت نہیں کر پاتے اور ان کی افزائش پر فرق پڑتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
"جہاں چار دہائیاں مہمان نوازی کی، تھوڑا وقت اور دے دیں سردیاں ختم ہونے پر ہم خود اپنے وطن چلے جائیں گے"
وہ بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے جہاں بہت سے پرندوں کو نقصان پہنچتا ہے وہاں کچھ پرندے اس کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور ان کی افزائش نسل تیز ہوتی ہے۔ ان میں یورپی مکھی کھانے والے پرندے بیکڈ ڈو، یوریشین جے، بلیک کیپ، یورپین رابن، گریٹ ٹِٹ شامل ہیں۔
گجرا ت یونیورسٹی کی تحقیق میں شامل شعبہ زوالوجی کے محمد عمر اور ڈاکٹر مبشر حسین کہتے ہیں کہ موسمی تبدیلیوں اور زیر کاشت اراضی میں کمی سے پرندوں ( برڈ کمیونٹی) پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں تاہم کچھ چھوٹے پرندوں کو فائدہ بھی پہنچا ہے۔
وہ تصدیق کرتے ہیں کہ انسانی آبادیاں میں اضافہ، ترقیاتی منصوبے، جنگلات کا کٹائی، کیڑے مارا ادویات اور کھادوں سے نہ صرف مہمان بلکہ مقامی پرندوں کو بھی بہت سے خطرات لاحق ہیں۔
گجرات وائلڈ لائف کی ڈپٹی ڈائریکٹر عرفہ بتول اعتراف کرتی ہیں کہ پرندوں کے کم ہونے کی بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ درختوں کی غیر قانونی کٹائی کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جبکہ خلاف ورزی پر ایک لاکھ تک جرمانہ کیا جاتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ پرندوں کے شکار کے لیے لوگ محکمہ وائلڈ لائف سے اجازت لیتے ہیں جس کے لیے ہفتے اور اتوار کا دن مختص کیا جاتا ہے جبکہ پرندوں کا غیر قانونی شکار کرنے پر ایک لاکھ سے زائد جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اجازت لے کر شکار کرنے والوں کی نگرانی کون کرتا ہے؟
تاریخ اشاعت 15 اپریل 2024