حافظ محمد نوید میانوالی سے 20 کلومیٹر دور تلہ گنگ روڈ پر واقع قصبے موسیٰ خیل کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے سرگودھا بورڈ کے حالیہ امتحان میں 1100 میں سے 950 نمبر لے کر اپنی جماعت میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔ محمد نوید ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلے کے خواہش مند تھے۔ تاہم ان کے علاقے موسیٰ خیل کے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول میں ایف ایس سی اور آئی سی ایس کا داخلہ ٹیسٹ ہی نہیں ہوا کیونکہ وہاں سائنس کے مضامین کا کوئی استاد نہیں ہے۔
محمد نوید کے والد کا 2014ء میں انتقال ہو گیا تھا اور انہوں نے حافظ قرآن اور یتیم سٹوڈنٹ سکالر شپ پر میٹرک کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ والد کی وفات کے بعد ان کی والدہ لوگوں کے ہاں کام کاج کر کے بمشکل گھر چلاتی ہیں اس لیے علاقے سے باہر کسی کالج میں تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان کی جماعت میں سے 30 طلبا نے میٹرک کا امتحان پاس کیا ہے اور اکثر اپنے علاقے کے ہائر سیکنڈری سکول میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں مگر یہاں ایف ایس سی اور آئی سی ایس کی کلاسیں نہیں ہوتیں اور علاقے میں کوئی اور سرکاری یا نجی تعلیمی ادارہ نہیں ہے جہاں ان مضامین کی تعلیم دی جاتی ہو۔
موسیٰ خیل کے رہائشی فضل الرحٰمن الیکٹریشن ہیں اور ان کے بیٹے شمس الرحمٰن نے میٹرک کا امتحان 926 نمبر لے کر پاس کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ان کا بیٹا ایف ایس سی میں داخلہ لے تاکہ وہ آئندہ آرمی کمیشن آفیسر کا امتحان دے سکے۔ جب انہوں نے میٹرک کے بعد ہائر سیکنڈری سکول موسیٰ خیل داخلے کے لیے رابطہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ سکول میں صرف ایف اے کے داخلے ہوں گے۔
فضل الرحمٰن نے بتایا کہ موسیٰ خیل میں ہائر سیکنڈری سکول میں ایف ایس سی یا آئی سی ایس کے اساتذہ نہیں ہیں۔ میانوالی دور ہے جہاں اچھے کالج تو ہیں مگر ان کے اخراجات اٹھانا ان کے بس کی بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیس کے علاوہ میانوالی میں کرایے کی مد میں اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں اس لیے اکثر والدین اپنے بچوں کو مزید تعلیم نہیں دلاتے۔
احمد بھی موسیٰ خیل کے رہائشی ہیں اور انہوں نے میٹرک کے بعد میانوالی کے ایک نجی کالج میں داخلہ لیا ہے۔ وہ کالج کے سفری اخراجات کو لے کر پریشان ہیں جو فیس سے تین گنا زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ میانوالی آنے جانے میں ان کا کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے بہت سے طلبا نے انہی مشکلات اور وسائل کی کمی کے باعث مزید پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔
موسیٰ خیل کے واحد ہائی سکول کو جنوری 2004ء میں ہائر سکینڈری سکول کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس وقت سکول میں ایف اے اور ایف ایس سی کی کلاسز کا آغاز کیا گیا مگر 2014ء میں ہائر سکینڈری سیکشن کو موسیٰ خیل شہر کے اندر پرانی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت ہائر سیکنڈری سیکشن میں صرف ایک سبجیکٹ سپیشلسٹ استاد تعینات ہیں جبکہ باقی اساتذہ تبادلے کرا کے جا چکے ہیں۔
سکول کے پرنسپل محمد ساجد سعید نے بتایا کہ ایسے حالات میں ان کے پاس دو آپشن تھے کہ ہائر کلاسز بالکل ختم کر دی جائیں یا محدود وسائل کے ساتھ ایف اے کی کلاسیں جاری رکھی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہائی سیکشن کی عمارت میں 560 طلبا زیر تعلیم ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے فرسٹ ائیر اور سیکنڈ ائیر کے لیے سٹاف روم اور سٹور روم میں کلاسز کا بندوست کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایف ایس سی اور آئی سی ایس کی کلاسز شروع کرنے کے لیے نہ ان کے پاس نہ تو کمرے ہیں اور نہ ہی عملہ۔
سبجیکٹ سپیشلسٹ محمد کلیم اللّٰہ کا کہنا ہے کہ 2019ء تک سکول میں ایف ایس سی اور ایف اے کی کلاسز ہوتی رہی ہیں مگر تحریک انصاف کی پنجاب میں حکومت بننے کے بعد علاقے میں چند نوجوانوں نے سکول کو کالج کا درجہ دلانے کے لیے تحریک کا آغاز کیا۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر کا گرلز کالج: یہاں صرف فزکس، زوآلوجی، انگریزی، ریاضی، اردو، اسلامیات، سندھی اور مطالعہ پاکستان کے استاد نہیں ہیں
"اگرچہ یہ تحریک صرف سوشل میڈیا تک محدود رہی مگر اس کی وجہ سے سکول کے اساتذہ میں خدشہ پیدا ہوا کہ اگر اسے کالج کا درجہ دیا گیا تو ان کا تبادلہ دور دراز علاقوں میں کر دیا جائے گا۔ اس لیے یہاں سے تمام دیگر سبجیکٹ سپیشلسٹ اپنے نزدیکی سنٹر پر تبادلے کرا کے چلے گئے۔ یہی سبب ہے کہ 2020ء میں ایف ایس سی کے داخلے بند کرنا پڑے۔"
پی 22-2021 کے تعلیمی سال میں سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اساتذہ بھرتی کیے گئے مگر ہائر سیکنڈری سکول موسیٰ خیل میں صرف فزکس کے ایک استاد کی تقرری عمل میں آئی جبکہ اب سکول میں 19 گریڈ کی ایک، 18 گریڈ کی دو اور 17 گریڈ کی 14 نشستیں خالی ہیں۔
محکمہ سکینڈری سکولز کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) محمد خالد خان کہتے ہیں کہ آن لائن تبادلوں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ان کے اختیار میں نہیں کہ وہ کسی بھی ٹیچر کا وہاں ٹرانسفر کر سکیں۔ فی الحال تبادلوں کا سلسلہ بھی حکومت پنجاب کی جانب سے روک دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اساتذہ کی خالی نشستوں کا ریکارڈ حاصل کر کے انہوں نے محکمے کو بھیجا ہوا ہے۔ تاہم جب تک حکومت نئی بھرتیاں نہیں کرتی یا ایس ایس ٹی اساتذہ کو ترقی نہیں دی جاتی اس وقت تک سکولوں کو ایسی ہی مشکلات کا سامنا رہے گا۔
تاریخ اشاعت 10 اکتوبر 2023