رمشا جاوید، شہناز کارنیل، مارشل عاشق اور سکینہ بی بی میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ یہ سبھی لاہور اور اس کے گرد و نواح کے رہائشی ہیں اور مسیحی اور غریب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ہی خیالوں کے اسیر ہیں۔
سترہ سالہ رمشا کو اپنی عمر یاد نہیں ہے۔ یہ فربہی مائل گوری لڑکی جب بھی دوسروں سے ملتی ہے تو اس کے چہرے پر ایک رسمی مسکراہٹ اور اس کے بعد پریشانی کے تاثرات ابھر آتے ہیں۔ اسے اپنی زندگی کے واقعات یاد نہیں رہتے۔
وہ لاہور کے مغرب میں ماناں والا نامی علاقے میں رہتی ہے۔ اس کی بہن کے مسلمان خاوند نے اسے مسلمان بنانے کے بہانے اغوا کر کے تین ماہ تک ایک کمرے میں بند رکھا اور پھر مزید ایک ماہ کے لیے اپنے گھر لے گیا جہاں سے وہ بالاآخر اپنی والدہ اور مسیحی برادری کے ایک رہنما کی مدد سے نکل پائی۔ قید کے دوران ملزم نے اسے متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
قید کے ان ہفتوں نے رمشا کے لیے وقت اور جگہ کے ادراک کو بری طرح الجھا دیا ہے۔
قید میں گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہے 'میرا خیال ہے کہ میں چھ سال کمرے میں بند رہی یا شاید چھ ماہ یا چھ ہفتے۔ میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ یہ بہت طویل عرصہ تھا'۔
رمشا کی والدہ اس کی ذہنی حالت کو دیکھ کر دلبرداشتہ ہیں اور افسوس کرتی ہیں کہ ان کی بیٹی گھریلو کام کاج میں ان کا ہاتھ نہیں بٹاتی۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر رمشا ذہنی طور پر ہوشیار ہوتی تو وہ قید میں جانے سے بچ سکتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'اگر اس کا ذہن تیز ہوتا تو وہ بھاگ جاتی اور اس شخص کے ہاتھوں بیوقوف نہ بنتی'۔
رمشا ابھی نوجوان ہے مگر اس کا خیال ہے جیسے اس نے ایک لمبی زندگی جی ہو اور اب نہ تو اسے کسی چیز کی خواہش ہے اور نہ ہی مستقبل کی کوئی فکر۔ اسے پہنچنے والا صدمہ اس قدر شدید تھا کہ وہ اسے واضح طور سے بیان کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔
اپنے اغوا کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ 'وہ یہ بتا کر مجھے اپنے ساتھ لے گیا کہ میرے والدین کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا'۔ پھر اچانک وہ موضوع تبدیل کر کے پوچھنے لگتی ہے کہ 'آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟'۔
دو کمروں کے گھر میں رہنے والے رمشا کے نو لوگوں کے خاندان کے لیے اپنی تلخ زندگیوں سے فرار کی بہت کم گنجائش ہے۔ رمشا کے پاس اس گھر میں واحد جگہ وہ ٹوٹی پھوٹی کھاٹ ہے جس پر وہ اپنے دن کا بیشتر حصہ گزارتی ہے۔ اس کا کمسن بھتیجا اور بھتیجی، جو اسے اغوا کرنے والے شخص کے بچے ہیں، دو بہنیں اور دو بھائی بھی اسی کھاٹ پر سوتے ہیں۔
ساتھ والے کمرے میں اس کا والد جاوید بھٹی بھی اپنے دماغ کی الجھنوں میں گم ہے۔ وہ جسمانی طور پر فالج زدہ ہے اور اس کی یادداشت بھی بے ربط ہو چکی ہے۔ اس کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ رمشا اور اس کی بہنوں کے اغوا کے بعد ان کے شوہر پر فالج کا حملہ ہوا جس کے نتیجے میں اس کی بیشتر یادداشت جاتی رہی۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے تو اس نے شرمندہ لہجے میں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اسے کچھ یاد نہیں ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ 'اگرچہ میں نے اپنی پوری زندگی وہاں گزاری ہے مگر اب مجھے اس کا نام یاد نہیں ہے۔ جب میری بیوی گھر واپس آئے گی تو آپ اس سے پوچھ سکتے ہیں'۔
وہ اکثر اپنی بیوی سے لڑتا جھگڑتا رہتا ہے لیکن جب اس سے پوچھا جائے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے تو وہ اچانک رونا شروع کر دیتا ہے۔
اس کا کہنا ہے 'میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ میرا اپنے دماغ پر بس نہیں چلتا۔ میں اپنی بیوی اور بچوں سے کہہ چکا ہوں کہ وہ میری کسی بھی بات کا برا مت منائیں۔ سارا دن چارپائی پر پڑا شخص اور کیا کر سکتا ہے؟'
ایسے گھرانے میں جہاں ایک اغوا کار کے بچے اس کے متاثرین کے ساتھ رہتے ہوں وہاں سبھی کے لیے سب سے بڑی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ روٹی کا انتظام کیسے کیا جائے۔ ذہنی صحت یقیناً ان کی ترجیح نہیں ہے۔
تنہا زندگی
لاہور کے جنوب میں واقع مسیحی آبادی یوحنا آباد کی رہنے والی 65 سالہ سکینہ بی بی کے ذہن میں سوچوں کی بھر مار رہتی ہے۔ اس کے چہرے کی جھریاں ایک پریشان اور اضطراب بھری زندگی کی گواہی دیتی ہیں۔ اسے ہمیشہ یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ اس کے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ ذہن میں ایسے طوفان لیے وہ بیشتر وقت چارپائی پر لیٹی اور ماضی کی یادوں میں کھوئی رہتی ہے۔
ایک بوسیدہ چادر سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے وہ کہتی ہے 'میں ان سوچوں سے تنگ آ گئی ہوں۔ یہ میرے ذہن پر چھائی رہتی ہیں اور میں رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی۔ میں نے ایک متحرک زندگی گزاری ہے مگر اب میرے پاس یہ سوچیں ہی ہیں جو ایک ایک کر کے میرے دماغ میں آتی رہتی ہیں'۔
سکینہ بی بی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی ہے جو اس کی واحد مددگار ہے کیونکہ اس کے دوسرے تمام بچے شادی شدہ ہیں اور الگ رہتے ہیں۔ اس بڑھاپے میں اس کے جسم سےزیادہ اس کا ذہن سردی سے منجمد رہتا ہے۔
وہ کہتی ہے 'میں کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ میرا نہیں خیال کہ لوگ میرا دکھ سمجھیں گے'۔
تین سال پہلے اس کے خاوند کی موت کے صدمے نے سکینہ بی بی کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ ہر دکھ سکھ میں ساتھ دینے والے شریک حیات کی جدائی نے گویا اسے توڑ پھوڑ دیا ہے۔ اس کا خاوند نا صرف خاندان کے لیے روزی روٹی کماتا تھا بلکہ جب وہ لوگوں کے گھروں میں کام کاج کے لیے جاتی تھی تو وہ بچوں کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا۔ اگرچہ اس کی وفات کو کچھ عرصہ گزر چکا ہے مگر اب بھی اسے یاد کر کے سکینہ کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہے 'خاوند کی موت کے بعد میرے لیے دنیا گویا ختم ہو گئی۔ میں ہر چیز سے نفرت کرنے لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری پوری زندگی میرے سامنے ختم ہو گئی ہو۔ اگر مجھے اپنے بچوں کو نہ پالنا ہوتا تو اس کی موت کے بعد میں گھر سے باہر نہ نکلتی'۔
وہ قریباً تیس سال ایک ہی گھر میں کام کرتی رہی ہے جہاں وہ کھانا بناتی، صفائی کرتی اور خود کو اس گھر کا ہی ایک فرد تصور کرتی۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا کے باعث اس کی یہ نوکری جاتی رہی اور اس کے ساتھ ہی اس کا اپنی قدر و قیمت اور کارآمد ہونے کا احساس بھی جاتا رہا۔ نوکری کھونےکے بعد وہ خود کو بکھرا ہوا اور خانماں برباد محسوس کرتی ہے اور نہیں جانتی کہ اپنی بقیہ زندگی کیسے گزارے۔
مسلسل منفی سوچوں کے ریلے میں پھنسی سکینہ کسی نہ کسی طرح اپنی شکستہ ریڑھی دھکیل کر گھر سے باہر لے آتی ہے اور بے خیالی کے عالم میں سارا دن گلی کے بچوں میں چپس کے پیکٹ اور گولیاں ٹافیاں فروخت کرنے میں گزار دیتی ہے۔
اس کا کہنا ہے 'اب مجھے بس موت کا انتظار ہے۔ میں آگے کا زیادہ نہیں سوچتی بلکہ صرف اپنے اور اپنی بیٹی کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرنا چاہتی ہوں'۔
ذہنی سکون کہاں سے ملے گا؟
لاہور میں کام کرنے والی ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر منتہیٰ احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتیں خاص طور پر ذہنی صدمات کا شکار ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں معاشرے کے اکثریتی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مقابلے میں بڑے اور شدید نوعیت کے ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ستائیس سالہ مارشل کی زندگی کو دیکھ کر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس عمر میں ویسے تو سبھی لوگوں کو بے روزگاری جیسے مسائل اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں پر ان مسائل کے اثرات دگنے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی مذہبی شناخت کی بنیاد پر بھی امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے۔
وہ کہتا ہے 'ذرا تصور کریں کہ جب لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ میں مسیحی ہوں تو میرے ساتھ ان کا رویہ اچانک تبدیل ہو جاتا ہے۔ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں اور مجھے الٹے سیدھے ناموں سے پکارتے ہیں'۔
مارشل ڈپریشن، اعصابی خلل اور بعداز صدمہ ذہنی بے ترتیبی کی بیماری میں مبتلا ہے اور گزشتہ تین سال سے ان بیماریوں کی دوائیں لے رہا ہے۔ اگرچہ علاج کے نتیجے میں اسے اپنا ذہنی سکون بحال کرنے میں مدد تو ملی ہے تاہم وہ اب بھی متواتر اس خوف کا شکار رہتا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ برا ہو سکتا ہے۔
اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے پیٹر جیکب پاکستان میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں کے ارکان کو درپیش ذہنی دباؤ پر بات کرتے ہوئے دلبرداشتہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'جب لوگ کھل کر یہ بھی نہ کہہ سکیں کہ وہ مسیحی ہیں تو پھر بہت مشکل ہوتی ہے'۔
پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب اور مسیحی برادری پر ہونے والے مظالم سے متعلق بہت سے معاملات پر دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے کام کرنے کا تجربہ ہونے کے نتیجے میں وہ سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کو ایسے صدمات پہنچتے ہیں ان کی ذہنی صحت کے مسائل عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں مسیحی برادری کے لوگوں میں پائے جانے والے عمومی ذہنی خلل اور خوف کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 'یہ لوگ خوف اور اضطراب محسوس کرتے ہیں اور جب بھی ملک میں کہیں مذہبی بنیاد پر تشدد کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں'۔
پیٹر جیکب کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست اور سماج مذہبی بنیاد پر مظالم کا سامنا کرنے والوں کو مدد اور انصاف کی فراہمی میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'مذہبی اقلیتوں کے ارکان خود کو بے یار و مددگار سمجھتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہیں'۔
38 سالہ شہناز کارنیل کے یہی احساسات ہیں۔ وہ لاہور کی بہار کالونی میں ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہیں۔ یہ کمرہ ایک زیرِ تعمیر مکان کی دوسری منزل پر ہے جس میں ایک دھیما سا بلب روشن ہے۔ شہناز کا خاوند اسے مارتا پیٹتا تھا جس سے طلاق لینے کے لیے اس نے کیس دائر کر رکھا ہے مگر اب تک اس کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ وہ اپنا بیشتر وقت اپنے بستر پر گزارتی ہے اور چھت کو تکتی رہتی ہے۔ وہ خود کو تنہا محسوس کرتی ہے اور کسی پر اعتبار نہیں کرتی۔
اس کا کہنا ہے کہ 'مجھے لوگوں سے ملناپسند نہیں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ لوگ ترس کھا کر مجھ سے ملیں۔ اسی لیے میں بعض اوقات کئی کئی دن تک بستر پر ہی پڑی رہتی ہوں اور کسی انتہائی ضروری کام کے لیے ہی باہر جاتی ہوں'۔
ذہنی صدمات کے علاج میں مہارت رکھنے والی ڈاکٹر منتہیٰ احمد کہتی ہیں کہ 'ان لوگوں کا اعصابی نظام انہیں پہنچنے والے صدمات کی شدت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ ایسے حالات میں یا تو یہ نظام سرے سے کام چھوڑ دیتا ہے یا پھر اس انداز میں ردِ عمل دیتا ہے جس سے ذہن اور جسم پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کا علاج نہ کیا جائے تو وقت کے ساتھ اس کے اثرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں اور مریض کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے جس سے بعد میں نفسیاتی بگاڑ جنم لیتا ہے'۔
اس نکتے پر بات کرتے ہوئے کہ ذہنی صحت پر ہماری سماجی و علمی گفتگو مخصوص طبقات تک ہی محدود ہے، ڈاکٹر منتہیٰ کہتی ہیں کہ 'جب ہمیں ذہنی دباؤ کے بارے میں بتایا جاتا ہے تو ہمارا موضوع بالائی متوسط طبقے کو پیش آنے والے حالات تک ہی محدود رہتا ہے۔ ہم نے شاید ہی کبھی یہ سوچا ہو کہ فصل خراب ہونے یا بے وقت بارشوں سے کسی کسان پر بھی ذہنی دباؤ آ سکتا ہے یا کسی مزدور کو بھی ایسے حالات کا سامنا ہو سکتا ہے'۔
ایسے حالات سے بحیثیت فرد یا معاشرہ نمٹنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 'اگر آپ کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا سر میں درد ہو تو جس طرح آپ اس کا علاج کرنا چاہیں گے اسی طرح اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں تو تب بھی آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے خواہ اس بیماری کی علامات پوشیدہ ہی کیوں نہ ہوں'۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ 'بحیثیت معاشرہ ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ دوسروں کی بات کیسے سنی جائے۔ ہمیں ذہنی دباؤ کا شکار لوگوں کو ان کے بارے میں پہلے سے رائے قائم کیے بغیر اور انہیں مشورے اور تجاویز دیے بغیر ایسا راستہ مہیا کرنا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے کرب سے چھٹکارا پا سکیں'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 1 جنوری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 2 ستمبر 2021