دھمکیاں ،حکومتی رکاوٹیں یا سیلف سنسر شپ؟پاکستانی میڈیا غیر مسلم کمیونٹی کی خبریں دینے سے گریزاں کیوں؟

postImg

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

دھمکیاں ،حکومتی رکاوٹیں یا سیلف سنسر شپ؟پاکستانی میڈیا غیر مسلم کمیونٹی کی خبریں دینے سے گریزاں کیوں؟

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

لاہور کے سلیم اقبال انسانی حقوق کے کارکن اور فری لانس صحافی ہیں۔ وہ پچھلے 25 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور زیادہ تر مسیحی کمیونٹی کے مسائل پر کام کرتے ہیں۔

سلیم اقبال بتاتے ہیں کہ 2011ء میں انہوں نے ایک مسیحی لڑکی کے مذہب کی جبراً تبدیلی اور ان کی شادی کرائے جانے کے بارے میں خبر دی۔ اس خبر کا حکام نے فوری نوٹس لیا اور لڑکی کو بازیاب کرا لیا جبکہ ملزم کو جیل بھیج دیا گیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد ملزم نے رہا ہوتے ہی ان کے گھر پر حملہ کر دیا۔ تاہم خوش قسمتی سے ان کے اہلخانہ محفوظ رہے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے اپنے خاندان کو بیرون ملک منتقل کردیا۔

سلیم اقبال نے بتایا کہ ان کے بہت سے رشتہ دار پہلے ہی بیرون ملک مقیم ہیں اور خوشحال بھی ہیں۔ اس لیے انہیں بیوی بچوں کو باہر بھیجنے میں زیادہ مشکل نہیں پیش نہیں آئی۔

پاکستان میں صحافیوں کوصرف حساس اداروں اور عدالتوں سے متعلق رپورٹنگ پر ہی نہیں غیرمسلم کمیونٹی کے مسائل سامنے لانے پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی مذہبی گروپ تو کبھی ریاستی ادارے انہیں ہراساں کرتے ہیں۔

پاکستانی میڈیا خاص طورپر ٹی وی چینل اور بیشتر  اردو اخبارات  اقلیتوں پر  حملوں اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی خبروں کو جگہ نہیں دیتے۔ نیوز ایڈیٹر یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ایسی خبریں صورتحال کو مزید کشیدہ ہونے سے بچانے کے لیے روک لی جاتی ہیں۔

سلیم اقبال نے بتایا کہ انہیں درجنوں بار دھمکایا گیا ہے۔ گزشتہ سال ایک نامعلوم فون نمبر سے انہیں انتہائی سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی۔

 "فون کرنے والے نے کہا کہ ارطغرل غازی نے تو صرف تمہاری گردنیں کاٹی تھیں ۔میں تم لوگوں (مسیحیوں) کا وہ حال کروں گا کہ یاد رکھو گے۔"

سلیم اقبال کے مطابق انہوں نے اس واقعے پر تھانہ سول لائن لاہور میں ایف آئی آر نمبر 366/22 درج کرائی۔ پولیس کو فون کال کی ریکارڈنگ بھی فراہم کی مگر ایک سال بعد بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

ایک اورسینئر صحافی ودود مشتاق کو آسیہ مسیح کیس کی رپورٹنگ کے دوران پہلے فون پردھمکیاں دی گئیں۔پھر ان کی گاڑی پرفائرنگ گئی۔ مگر وہ محفوظ  رہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد وہ فیملی سمیت برطانیہ منتقل ہو گئے۔

 ودود مشتاق کے ایک قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ ان پر غیرمسلم ہونے تک کے الزامات لگائے گئے ۔ پھر انہوں نے سکالرشپ کے لیے درخواست دے دی۔کافی جدوجہد کے بعد انہیں سکالرشپ مل گیا اور وہ بیرون ملک چلے گئے۔

ودودمشتاق کہتے ہیں کہ ان پر حملہ کس نے کیا تھا وہ اس پر توکوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اب تو مختلف مذاہب کے فرقے بھی ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے اور  غیرمسلم کمیونٹی کے لیے رپورٹنگ کو تو کسی صورت قبول نہیں کیا جاتا۔

کراچی کی خاتون صحافی سدرہ ڈار  وائس آف امریکا سے منسلک ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ  2020ء میں انہوں نے آرزو  راجہ نامی نابالغ غیرمسلم لڑکی کے مذہب کی جبراًتبدیلی اور نکاح کے معاملے پر رپورٹنگ کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دن وہ عدالت میں آرزو راجہ سے ملاقات کے بعد گھر جارہی تھیں کہ انہیں کسی نامعلوم شخص کی کال آئی۔

"کال کرنے والے نے دھمکی دی کہ اس معاملے سے پیچھے ہٹ جاؤں۔کہا گیا کہ وہ جانتے ہیں کہ میں کہاں رہتی ہوں۔ کب آفس آتی اور کب جاتی ہوں۔ دھمکی دینے والے نے اپنا تعلق ایک مذہبی گرو پ سے بتایا تھا۔"

 سدرہ ڈار کے مطابق انہوں نے اس دھمکی آمیز فون کال سے متعلق اپنے چند ساتھیوں کو بتایا  تاہم کوئی قانونی کارروائی نہیں کی تھی۔ دوبارہ انہیں نامعلوم نمبر سے کوئی کال نہیں آئی ۔

جولائی 2023ء میں گوگل سروے فارم کے ذریعے ملک بھر سے صحافیوں کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی۔ الیکٹرانک، پرنٹ اورسوشل میڈیا سے منسلک صحافیوں نے بتایا کہ انہیں غیرمسلم کمیونٹی کے مسائل اورایونٹس کی رپورٹنگ ہی نہیں کرنے دی جاتی۔ان کے ادارے کے ذمہ داران کی طرف سے انہیں ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔

73 فیصد صحافیوں کے مطابق انہیں احمدی کمیونٹی سے متعلق خبریں فائل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگروہ کبھی کوئی نیوز فائل کربھی دیں تووہ شائع ہی نہیں ہوتی ہے۔ 18 فیصد صحافیوں کے مطابق مسیحی برادری اور 9 فیصد کے مطابق سکھ کمیونٹی کی خبریں فائل کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔

لاہور کے  ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 2013ء میں جب جوزف کالونی میں گھر جلائے گئے تو وہ سب سے پہلے موقع پر پہنچنے والے صحافیوں میں شامل  تھے۔ انہوں نے فوٹیج اپنے آفس بھیجی اور نیوز روم کو صورتحال سے آگاہ کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ نیوز روم نے کہا یہ مذہبی معاملہ ہے۔ حالات خراب ہوسکتے ہیں لہٰذا وہ ڈی ایس این جی لےکر واپس آجائیں۔ وہ آفس آرہے تھے  کہ راستے میں ڈائریکٹر نیوز  کی کال آگئی اور انہیں واپس جوزف کالونی جانے کی ہدایت کی گئی۔

"مجھے کہا گیا کہ ڈی ایس این جی محفوظ فاصلے پر رکھیں۔ آپ کا بیپر ہو گا لیکن بیپر میں اس کو مذہبی معاملہ نہیں کہنا بلکہ یہ الفاظ استعمال کریں کہ مقامی لوگوں کا جھگڑا ہوا ہے۔ ایک گروپ نے دوسرے گروپ کے گھروں کو آگ لگادی ہے۔"

مذکورہ بالا آن لائن سروے میں 90 فیصد مرد اور دس فیصد خواتین صحافیوں نے حصہ لیا۔ ساڑھے 45 فیصد صحافیوں نے بتایا کہ انہیں احمدی کمیونٹی کی خبروں پر دھمکیاں ملیں۔

 18 فیصد کو مسیحی، نو فیصد کو ہندو کمیونٹی اور 27 فیصد کو دیگر اقلیتوں سے متعلق خبریں دینے پر دھمکیوں اور ہراس کا سامنا کرنا پڑا ہے

جڑانوالہ میں ایک ٹی وی چینل کے نمائندے  راؤ عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ رواں ماہ اگست میں سانحہ جڑانوالہ کے روز صبح  مسجد میں اعلان ہوا اور مظاہرین جمع ہورہے تھے تو انہوں نے اپنے دفتر کو نیوز ،ٹکر اور ویڈیوز بھیجیں تو انہیں بتایا گیا کہ یہ خبر نہیں چلائی جاسکتی۔

 وہ کہتے ہیں کہ جب دوپہر تک سب کچھ تباہ ہوگیا تو حکومت نے نوٹس لیا ۔پھر دیگر ٹی وی چینلوں پر بھی خبریں چلنا شروع ہو گئیں۔اگر صبح  ہی ٹی وی چینل یہ معاملہ اٹھاتے تو شاید اس قدر نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکرٹری جنرل رانا عظیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں اب تو یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کتنے صحافی باقی رہ گئے ہیں جن کو  ہراساں نہیں کیا گیا۔ صحافی کا کام مذہب و عقیدے سے بالاتر ہوکر سچ سامنے لانا ہوتا ہے۔

" صحافیوں کو  اقلیتوں کے مسائل کی رپورٹنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔کبھی ریاستی ادارے رکاوٹ بنتے ہیں تو کبھی خود میڈیا ہاوس خودساختہ پالیسی کے تحت سنسرشپ لگاتے ہیں۔"

پی ایف یو جے (افضل بٹ گروپ) کے سیکرٹری جنرل ارشد انصاری وضاحت کرتے  ہیں کہ اگرچہ سوشل میڈیا پر معلومات کو روکنا اب ممکن نہیں رہا تاہم نیشنل میڈیا انتشار  کو روکنے کے لیے شدید مذہبی معاملات سے متعلق خبریں چلانے سے گریز کرتا ہے۔

گزشتہ چند برس میں کتنے صحافیوں کو مذہبی گروپوں نے ہراساں کیا یاان پرحملے ہوئے؟ جب پنجاب پولیس سے یہ معلومات مانگی گئیں تو  کوئی ڈیٹا نہیں مل سکا۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ان کے پاس کیٹگریز کے مطابق ڈیٹا مرتب نہیں ہوتا ۔تاہم گزشتہ دوسال میں درجنوں مقدمات درج ہوئے جن میں کتنے مدعی جرنلسٹ تھے اس بارے میں صحافیوں کی تنظیم' پنجاب یونین آف جرنلسٹ' کے پاس بھی کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

طالبان کے عہد میں افغان صحافت: مشکل ہیں اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ترجمان کا  کہنا ہے کہ  مذہبی گروہوں اور قانون نافذ کرنے والے حکام  کا میڈیا کارکنوں کو ہراساں کرنا قابل مذمت ہے۔ اس طرح کا ماحول آزادی صحافت اور بین المذاہب ہم آہنگی  کی کوشش،دونوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ایسے ہتھکنڈوں کے خلاف متحد ہونا چاہیے۔

سینئرصحافی، متعدد اخبارات میں بطور نیوز ایڈیٹر کام کرنیوالے زاہد گوگی اب کنٹرولر نیوز ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انہیں کسی ادارے یا حکومت کی طرف سے اقلیتیوں کی خبریں نشرکرنے سے نہیں روکا جاتا۔بلکہ ایسا سیلف سینسرشپ کے تحت کیا جاتا ہے۔

وہ دلیل دیتے ہیں کہ صرف اقلیتوں ہی کے نہیں بلکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کے متنازع واقعات کے بارے میں خبریں دینے سے ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے کیونکہ اس طرح مزید انتشار  کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہاں تو بغیر تصدیق ہی ہجوم جلاؤ، گھیراؤ اورتوڑپھوڑ  شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں تشددکی خبریں جلتی پر تیل کا کام کر سکتی ہیں۔

تاریخ اشاعت 29 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گندم کے کھیت مزدوروں کی اجرت میں کٹوتی کس نے کی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceغلام عباس بلوچ

منصوبہ جائے بھاڑ میں، افتتاحی تختی سلامت رہے

مانسہرہ: ہزارہ یونیورسٹی ماحول دوستی میں پہلے نمبر پر

thumb
سٹوری

ٹنڈو محمد خان میں 15 سال سے زیر تعمیر پبلک سکول جس کا کوئی وارث نہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرمضان شورو

کل باغوں کے مالک تھے، آج مزدوری کر رہے ہیں

سکردو: ٹراؤٹ فش ختم ہوتی جا رہی ہیں

thumb
سٹوری

فیکٹری میں بوائلر کیوں پھٹتے ہیں؟ انسانی غلطی یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوسیم خٹک

کیا بجلی سے چلنے والے رکشوں کی مہنگی بیٹری اور بجلی کے مسائل کا کوئی حل ہے؟

thumb
سٹوری

ننگر پارکر: گیارہ سال پائپ لائن بچھانے میں لگے معلوم نہیں میٹھا پانی کب ملے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

فیصل آباد: کسانوں کی خواتین بھی احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں

بچے راہ دیکھ رہے ہیں اور باپ گھر نہیں جانا چاہتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.