'کاروبار چلانا دہرا عذاب بن گیا ہے'، باجوڑ میں ماربل کے صنعت کاروں نے فیکٹریاں بند کرنے کا الٹی میٹم دے دیا

postImg

محمد بلال یاسر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'کاروبار چلانا دہرا عذاب بن گیا ہے'، باجوڑ میں ماربل کے صنعت کاروں نے فیکٹریاں بند کرنے کا الٹی میٹم دے دیا

محمد بلال یاسر

loop

انگریزی میں پڑھیں

 پچپن سالہ حاجی معروف خان ضلع باجوڑ کی تحصیل ماموند میں ماربل فیکٹری کے مالک ہیں جہاں ان کے ساتھ 10 سے زیادہ ملازمین کام کرتے ہیں۔

اشیائے خور و نوش کی بڑھتی قیمتوں، مہنگائی کی بلند شرح اور کئی طرح کے ٹیکسوں کے نفاذ سمیت دیگر ضروریات سے پریشان معروف خان کو رواں مہینے اس وقت ایک بڑا جھٹکا لگا جب انہوں نے اپنے فیکٹری کے بجلی کا بل دیکھا۔ جو بل کبھی چار سے پانچ لاکھ روپے تک آتا تھا، وہ اب ساٹھ ستر فیصد اضافے کے ساتھ جست لگا کر آٹھ لاکھ 65 ہزار روپے پر پہنچ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چند ماہ سے وہ بمشکل کاروبار چلا رہے ہیں۔ کئی طرح کے ٹیکس عائد ہونے سے ان کا منافع پہلے بہت کم رہ گیا ہے اور اب یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ بجلی کا اس قدر بھاری بل کیسے ادا کریں گے۔ انہیں اپنے ملازمین کی فکر کھائے جا رہی ہے کہ اگر فیکٹری بند ہو گئی تو یہ سب بے روزگار ہوجائیں گے۔

باجوڑ میں اس وقت کل 29 ماربل فیکٹریاں قائم ہیں۔ ان میں تحصیل ماموند کے علاقے تنی عمرے میں 13، شیخ کلے لوئے سم میں 15 اور خار میں ایک فیکٹری کام کر رہی ہے۔ ان فیکٹروں میں 600 سے زیادہ افراد برسر روزگار ہیں۔

یہاں اکثر ملازمین تنخواہ پر کام کرتے ہیں جن میں عام لیبر کی تنخواہ کم سے کم 25 ہزار جبکہ استاد کی تنخواہ 50 سے 60 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ تجربہ بڑھنے کے ساتھ مزدور اور استاد کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ان کے علاوہ کچھ مزدور دیہاڑی پر  بھی کام کرتے ہیں جنہیں فیکٹری کے جانب سے کھانے اور چائے وغیرہ کے علاوہ 1200 روپے دیہاڑی دی جاتی ہے۔ یہاں پر کام کرنے والے اکثر افراد کا تعلق باجوڑ کے مختلف علاقوں سے ہے جنہیں اپنے گھر کے قریب روزگار میسر نہیں ہوتا۔

تحصیل ماموند کے گاؤں تنگئی کے رہائشی 23 سالہ فضل وہاب خان نے معاشی مشکلات کے باعث گھریلو اخراجات میں حصہ ڈالنے کے لیے ساتویں جماعت میں تعلیم چھوڑی اور چھ سال قبل تنی ماموند میں واقع مدینہ ماربل فیکٹری میں کام شروع کردیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں ان کی آمدنی بہت کم تھی مگر انہیں امید تھی کہ اگر وہ فیکٹری میں موجود کسی بھی مشین کو چلانا سیکھ لیں گے تو ان کی تنخواہ بڑھ جائے گی۔ اس غرض سے وہ کبھی دیہاڑی اور کبھی تنخواہ پر کام کرتے رہے اور ماربل کی کٹائی اور صفائی سیکھنے لگے۔

"پانچ سال مزدوری کرکے میں نے لیبر کے درجے سے ترقی پائی اور اب استاد یعنی ہنرمند کاریگر کے طور پر کام کر رہا ہوں، اب بھاری بھر کم کام کے بجائے مشین کا کام ہے جو قدرے آسان ہو گیا ہے اور تنخواہ میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہوگیا ہے۔ لیکن بجلی کے بلوں میں بھاری اضافے سے مجھے یہ پریشانی لاحق ہے کہ کہیں کارخانہ بند نہ ہو جائے۔ اس طرح کڑی محنت کے بعد جو اچھے دن دیکھنے کو ملے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے۔"

واپڈا کے جانب سے ان فیکٹریوں کو روزانہ کی بنیاد پر 12 گھنٹے بلا ناغہ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ ان کی بجلی کے اوسط ماہانہ بل چھوٹی بڑی فیکٹری کے حساب سے دو لاکھ سے لیکر چار لاکھ روپے تک آتے تھے، مگر اس مہینے ان میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔

آل باجوڑ ماربل فیکٹریز ایسوسی ایشن کے صدر طفیل خان کہتے ہیں کہ مہنگائی کی بے لگام لہر کے باعث فیکٹری کے اخراجات پہلے ہی بڑھ گئے اور اب رہی سہی کسر بجلی کے دگنے بلوں نے پوری کردی ہے اور ان حالات میں ماربل کی صنعت سے وابستہ لوگ اپنے کارخانے بند کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہیں۔

"چند ماہ قبل حکومت نے معدنیات ٹیکس کے نام پر ہر گاڑی پر 7000 روپے ٹیکس مقرر کیا گیا۔ اس کے علاوہ باجوڑ کے اندر ہی ٹریفک پولیس کے جانب سے ہر گاڑی سے پرچے کے نام پر 1500 روپے لیے جاتے ہیں۔ یہاں ماربل کی گاڑیوں کے علاوہ سیمنٹ ، لوہے، سٹیل اور دیگر سامان سے لوڈ گاڑیاں بھی روز آتی ہیں لیکن کسی کو اتنا تنگ نہیں کیا جاتا، جتنا ہمیں تنگ کیا جا رہا ہے۔ حکومت اگر ہمیں ریلیف نہیں دے سکتی تو بے جا تنگ بھی نہ کرے ۔ ہم نے اس مرتبہ پختہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر اگلے ماہ بھی اس طرح بھاری بل آئے تو ہم احتجاجاً اپنے کارخانے بند کردیں گے ۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

پتھر پیسنے والے کارخانوں میں موت پھانکتے مزدور: 'یہ کام ہم سب کو کھا گیا ہے'۔

ایک فیکٹری مالک جان غنی نے بتایا کہ ان کا خاندان طویل عرصہ سے ماربل کے کاروبار سے منسلک ہے، لیکن گزشتہ ماہ بعض خاندانی معاملات کے باعث ان کی فیکٹری بند رہی، ایک دن بھی کام نہیں ہوا، اس کے باوجود ان کا بل ایک لاکھ 65 ہزار روپے آیا ہے۔

"میرے پاس فیکٹری کو مستقل بنیادوں پر بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، کیونکہ جب میں نے کارخانہ چلایا نہیں تو مجھ پر بجلی کے بل کی صورت میں اتنے ٹیکسوں کا بوجھ کیوں لاد دیا گیا ہے، اگر فیکٹری چلاؤں گا تو کیا حال ہوگا۔

محکمہ واپڈا کے مقامی ذمہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلع باجوڑ چونکہ نئے ضم ہونے والے اضلاع میں سے ایک ہے جہاں رہائشی آبادیوں کو بمشکل دو سے تین گھنٹے بجلی دی جاتی ہے، جس کا بل بھی لوگ ادا نہیں کرتے، اس لئے یہاں واپڈا کیلئے آمدن کا واحد ذریعہ یہی ماربل فیکٹریاں ہی ہیں۔ انہی سے آنے والی آمدنی سے کام چل رہا ہے۔

"اگر یہ لوگ بل نہیں دیں گے تو واپڈا یہاں رہائشی علاقوں کو جو تھوڑی بہت مفت بجلی دے رہا ہے، وہ بھی بند کردے گا۔"

اوور بلنگ میں مقامی انتظامیہ کے کردار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حکام بالا کی جانب سے ہے اور وہی اس کا کوئی حل نکال سکتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 18 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد بلال یاسر پچھلے 7 سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اخبارات اور نشریاتی اداروں کیلئے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مختلف ملکی و بین الاقوامی ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.