بیالیس سالہ محمد علی مغیری ضلع قمبر شہداد کوٹ کے قصبے لعلو رائنک کے رہائشی ہیں۔گزشتہ ماہ انہیں اور ان کے چھوٹے بھائی عمران علی کو بخار ہو گیا۔ محمد علی کا بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ انہوں نے نجی لیبارٹری سے ملیریا کا ٹیسٹ کرایا تو رزلٹ منفی آیا۔
انہوں نے ڈاکٹر کو بتایا کہ انہیں جسم اور سر میں شدید درد کے ساتھ سردی بھی لگ رہی ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ یہ علامات ملیریا کی ہیں، ٹیسٹ کا رزلٹ درست نہیں ہے اور انہوں نے دوا کا نسخہ لکھ کر دے دیا جبکہ ان کے بھائی عمران کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا۔
محمد علی گورنمنٹ بوائز ہائی سکول لعلو رائنک میں پڑھاتے ہیں اور ان کے بھائی عمران لاڑکانہ کے ایک نجی سکول میں استاد ہیں۔
محمد علی کہتے ہیں کہ سرکاری طبی مراکز پر ملیریا کی گولیاں میسر نہیں تھیں۔ وہ میڈیکل سٹور پر گئے تو وہاں 580 روپے والی ملیریا کی چھ گولیاں 700 میں ملیں۔
بالائی سندھ کا ضلع قمبر شہدادکوٹ بلوچستان کی سرحد پر دریائے سندھ کے مغربی کنارے واقع ہے۔ یہاں سے لاڑکانہ 30 کلومیٹر اور قمبر 20 کلومیٹر دور ہے۔
محمد علی کا دعویٰ ہے کہ قمبر شہداد کوٹ اور لاڑکانہ کا ایسا کوئی گھر نہیں جہاں نصف افراد کو پچھلے دو ماہ میں ملیریا نہ ہوا ہو۔
2023 ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع قمبر شہدادکوٹ کی آبادی 15 لاکھ 15 ہزار اور ضلع لاڑکانہ کی آبادی 17 لاکھ 84 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
سندھ میں گزشتہ سال سیلاب اور بارشوں سے پہلے ملیریا کے سب سے زیادہ مریض ساحلی اضلاع، ٹھٹہ، سجاول اور بدین میں سامنے آتے تھے۔ یہ اضلاع دریائے سندھ کے مشرقی (بائیں) کنارے پر واقع ہیں۔
قمبرشہدادکوٹ اور لاڑکانہ سیلاب سے بری طرح متاثرہ اضلاع میں سر فہرست ہیں۔ یہ دونوں اضلاع دریا کے مغربی (دائیں)کنارے پر واقع ہیں۔صوبے کے اکثر سیلاب زدہ علاقوں میں اب بھی پانی کھڑا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) ڈائریکٹوریٹ آف ملیریا کنٹرول اسلام آباد کے ساتھ سندھ کے آٹھ اضلاع میں کام کر رہی ہے۔ ان میں ٹھٹہ، سجاول، بدین، ٹنڈو محمد خان، میرپور خاص، عمر کوٹ، لاڑکانہ اور قمبرشہدادکوٹ شامل ہیں۔
این آر ایس پی کے صوبائی کوآرڈینیٹر کے مطابق تیرہ برس میں پہلی بار قمبر شہدادکوٹ اور لاڑکانہ میں ملیریا کے مریضوں کی تعداد ٹھٹہ اور سجاول سے زیادہ رہی ہے۔ اس کی وجہ بارش اور سیلاب کا پانی ہی ہو سکتا ہے۔
این آر ایس پی کے جون سے اگست تک تین ماہ کے ڈیٹا کے مطابق قمبر شہدادکوٹ میں 2021ء میں اس عرصہ کے دوران 1351 مثبت کیس اور 2022ء میں 5536 کیس رپورٹ ہوئے۔ لاڑکانہ میں 2021ء میں 3394 اور 2022ء میں 7360 مریض سامنے آئے۔
یہی ڈیٹا بتاتا ہے کہ ٹھٹہ میں 2022 میں 47 ہزار72 مثبت کیس اور سجاول میں 26 ہزار 121 میں دسں ہزار 649 مثبت کیسز ریکارڈ کیے گئے۔
این آر ایس پی کے مطابق رواں سال دریائے سندھ کے مغربی اضلاع میں ملیریا کے مریضوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ صرف جون اور جولائی میں ہی قمبر شہداد کوٹ میں 33 ہزار 713 مثبت کیس رپورٹ ہوئے جبکہ لاڑکانہ میں مریضوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
اسی ڈیٹا کے مطابق ٹھٹھہ میں 26 ہزار 837 اورسجاول میں دوہزار 161 مثبت کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
تاہم محکمہ صحت سندھ کے اعدادو شمار الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آفس کے مطابق رواں سال جنوری سے 27 اگست تک ٹھٹہ میں ملیریا کے 20 ہزار 476، سجاول میں سات ہزار 514 ، لاڑکانہ میں 19 ہزار508 اورقمبر شہدادکوٹ میں سات ہزار 240 مثبت کیس رپورٹ ہوئے۔
ملیریا کنٹرول پروگرام سندھ کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق شاہ نے 2021ء اور 2022ء کا ڈیٹا فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ مچھر آج تو نہیں پیدا ہوا یہ تو نمرود کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ سردی جیسے ہی بڑھے گی مچھروں کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں گی۔ ان کو ختم کرنے کا حل سردی ہے۔سردی بڑھنے کا انتظار کریں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ "
ڈاکٹر مشتاق علی شاہ اگست تک بتاتے رہےکہ ملیریا کے سب سے زیادہ کیس ٹھٹھہ اور سجاول میں ہیں۔اس کی بڑی وجہ دونوں اضلاع میں تعلیم کی کمی ہے۔لوگ ملیریا کی دوا کا کورس مکمل نہیں کرتے جبکہ بیماری بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
ڈاکٹر مشتاق شاہ نے اعتراف کیا کہ ملیریا کے مریضوں میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ کلورو کوئین اور پرائما کوئین گولیوں کا بروقت نہ ملنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پرائما کوئین بھارت سے آتی ہے ۔وہ دستیاب نہیں تھی تو ڈونرز کی مدد سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے حاصل کی گئی۔ ان گولیوں کا اگست تک نہ ملنا کیسز میں اضافے کا باعث بنا۔ پرائما کوئین مارکیٹ میں اب بھی دستیاب نہیں اور صرف سرکاری مراکز سے فراہم کی جاتی ہے۔"
ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ ڈاکٹر ارشاد میمن ملیریا کی اہم وجہ بارشوں اور سیلاب کے پانی کی نکاسی نہ ہونا بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں پانی کھڑا ہوگا وہاں مچھر کی بھرپور افزائش ہوتی ہے۔اکیلا محکمہ صحت یا اس کا ملیریا کنٹرول پروگرام اس بیماری کو نہیں روک سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
اگر ملیریا پھیل رہا ہے تو یہ 'مالک کی مرضی' ہے: تحصیل جوہی میں ملیریا کی وبا سے تین ماہ میں 100 سے زیادہ اموات
انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی اداروں کو مچھر مار دوا ان کا محکمہ مہیا کرتا ہے، فوارہ سپرے اور فوگنک کے لیے گاڑیاں اور سٹاف بلدیاتی اداروں کی ہوتی ہیں۔ ملیریا کنٹرول والے بھی فوارہ سپرےاور فوگنگ کرتے ہیں۔
ڈی جی صحت سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی ادارےاور ضلعی انتظامیہ کا کردار اہم ہے مگر یہ اپنا کام نہیں کرتے۔جون سےستمبرکے دنوں میں سپرے کرایا جائے اور پانی کی نکاسی کا بہترانتظام ہو تو ملیریا نہیں پھیلے گا۔
ڈاکٹر مشتاق شاہ کہتے ہیں کہ رواں سال سروے میں قمبر شہدادکوٹ کی تحصیل نصیر آباد میں مچھر کی زیادہ افزائش کی علامات نظر آئیں اس لیے وہاں بڑی مقدار میں سپرے کرایا گیا ہے۔ لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو میں 12 ستمبر سے فوارہ سپرےاور فوگنگ کی جائے گی۔ اس کے بعد ٹھٹھہ، سجاول اور بدین میں کام کیا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 12 ستمبر 2023