آٹھ فروری کو بلوچستان کے چار اضلاع موسیٰ خیل، بارکھان، لورالائی اور دکی پر مشتمل قومی نشست پر سرداروں کے درمیان کڑا مقابلہ متوقع ہے۔
اس حلقے کو این اے 252 کا نام دیا گیا ہے جہاں سے گزشتہ عام انتخابات میں سردار اسرار خان ترین نے بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر مجلس عمل کے مولانا امیر زمان (مرحوم) اور مسلم لیگ ن کے سردار یعقوب خان ناصر کو ہرایا تھا۔
اب کی بار سردار اسرار خان ترین پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں جبکہ ن لیگ سے سردار یعقوب خان ناصر، پشتونخوا میپ کے سردار تیمور شاہ موسیٰ خیل اور عوامی نیشل پارٹی سے شازیہ بی بی انتخابی میدان میں اترے ہیں۔
اس حلقے میں سابق ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی سردار بابر خان موسیٰ خیل بھی پی ٹی آئی کی حمایت سے الیکشن لڑ رہے ہیں جو پچھلی بار موسیٰ خیل شیرانی کی صوبائی نشست سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ یہاں سیاسی جماعتوں کے نامزد رہنماؤں سمیت کل37 امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
صحافی بلاول خان کے خیال میں نئی حلقہ بندیوں سے اسرار خان ترین کو نقصان ہوا ہے۔ جس کے باعث اس بار یہاں مسلم لیگ ن کے سردار یعقوب خان ناصر اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ بابر خان موسیٰ خیل کے درمیان مقابلے ہونے کا امکان ہے۔
ضلع موسیٰ خیل میں کل رجسٹرڈ ووٹر 75 ہزار 537، دکی میں 64 ہزار 728، بارکھان میں 80 ہزار 602 جبکہ ضلع لورالائی میں ایک لاکھ 18 ہزار 949 ووٹر ہیں۔

صحافی عبدالوہاب کھیتران بتاتے ہیں کہ سابق صوبائی وزیر میرباز کھیتران کو اس بار پیپلز پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا جس پر انہوں نے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ضلع بارکھان سے دوسرے امیدوار میر جہانزیب کھیتران بھی آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بارکھان کی 90 فیصد آبادی کھیتران قبیلے پر مشتمل ہے جس کی ایک شاخ 'وگا' میرباز خان کی سپورٹر ہے اور دوسری شاخ 'مدرانی' میر جہانزیب کھیتران کی حمایت کر رہی ہے۔ تاہم یہ دونوں الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جن کے علاوہ اس قبیلے سے پی ٹی آئی کارکن ایاز کھیتران بھی آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔
ان کے مطابق کھیتران سردار عبدالرحمٰن اس مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں جس کا براہ راست فائدہ یعقوب ناصر کو قومی اسمبلی کی نشست پر ہو گا۔ جبکہ تحریک انصاف کے بابر موسیٰ خیل سے زیادہ وووٹ یہاں پی ٹی آئی کارکن ایاز کھیتران کو ملیں گے۔
ضلع موسیٰ خیل کا سب سے بڑا قبیلہ موسیٰ خیل ہے لیکن یہاں زرکون، کھیتران اور دیگر قبائل کے لوگ بھی کافی ہیں۔ صحافی نقیب خان بتاتے ہیں کہ قومی نشست پر ضلع موسیٰ خیل کے ووٹ پشتونخوا میپ کے تیمور موسیٰ خیل اور تحریک انصاف کے بابر موسیٰ خیل میں تقسیم ہوتے نظر آتے ہیں جس کا اثر دونوں کی پوزیشن پر ہو گا۔

دکی کے ایکٹوسٹ فیض اللہ بتاتے ہیں کہ ضلع دکی میں ترین، ناصر، کاکڑ، زرکون اور لونی بڑے قبائل آباد ہیں جہاں سردار اسرار ترین کو ترین قبیلے میں واضح سپورٹ حاصل ہے لیکن اس مرتبہ ان کے کزن اعظم ترین بھی آزاد امیدوار ہیں جو اس ووٹ بینک پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ دکی سے جے یو آئی ف کے ملک امان اللہ ناصر بھی ناصر قبیلے سے ووٹ لیں گے جس کا واضح اثر ن لیگ کے سردار یعقوب ناصر پر پڑے گا۔
صحافی نقیب خان سمجھتے ہیں کہ نئی حلقہ بندی سے سردار یعقوب خان ناصر کو فائدہ ہوا ہے جن کے جیتنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ اس کی وجہ ضلع لورالائی کی پشتون آبادی اور خاص طور پر ناصر قبیلے کے ووٹ ہیں جہاں سے سردار یعقوب کے مقابلے میں ناصر قبیلے کا کوئی دوسرا امیدوار بھی نہیں ہے جس کا انہیں فائدہ ہو گا۔
البتہ ضلع موسیٰ خیل، لورالائی اور دکی میں ناصر مخالف ووٹ سردار بابر خان کو پڑ سکتے ہیں۔
اس قومی نشست کے نیچے لورالائی کے واحد صوبائی حلقے پی بی 5 میں پشتونخوا میپ کے صفدر میختروال ،جے یو آئی کے مولانا فیض اللہ، ن لیگ کے محمد خان، پیپلز پارٹی کے شمس اللہ، اے این پی کے ڈاکٹر عطاء گل و دیگر میں مقابلہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں

بلوچستان کے پشتون بیلٹ کا سیاسی منظر نامہ اچکزئی کو جے یو آئی سے "ایڈجسٹمنٹ" کیوں کرنا پڑی؟
بلاول خان کے مطابق اس حلقے میں مولانا فیض اللہ اور شمس اللہ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوگا تاہم ن لیگ کے محمد خان ان کےلیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے محمد خان طور اتمانخیل گزشتہ انتخابات میں پی اے پی کے ٹکٹ پر یہاں سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فیض اللہ دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
لورالائی سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ شہاب ناصر کہتے ہیں کی محمد خان نے علاقے میں کوئی ترقیاتی کاموں نہیں کر ائے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کا اعتماد کھو چکے ہیں۔
صحافی نقیب خان کے خیال میں انتخابات کے دوران سیکورٹی کے خدشات ہیں جس کی وجہ لورالائی میں زیادہ تر قبائلی جھگڑے اور دھاندلی کے الزامات بنتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں ضلع لورالائی کے 364 پولنگ سٹیشنز پر سیکورٹی کے لیے پولیس اور لیویز کی تعیناتی کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتیں انتخابات سے پہلے ہی ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگا کر دھمکیاں دے رہی ہیں جس پر لوگوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔
تاریخ اشاعت 6 فروری 2024