نجمہ بی بی کے ساتھ کام کرنے والی خواتین اساتذہ ان کے سلام کا جواب تک نہیں دیتیں۔
ان کا تعلق احمدی مذہب سے ہے اور وہ 1989 سے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے مختلف سرکاری سکولوں میں پڑھا رہی ہیں۔ ان کے مطابق 2013 میں ان کے خاوند کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ان کا تبادلہ ایک ایسے سکول میں ہو گیا جہاں پہلے دن ہی ان کا استقبال انتہائی سردمہری سے کیا گیا۔ شروع میں انہیں توقع تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سکول کا عملہ ان سے بہتر سلوک کرنے لگے گا لیکن اس کے برعکس ان کا رویہ مزید خراب ہوتا چلا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ "عملے میں شامل افراد میرے ساتھ بیٹھ کر کھانا تک کھانا گوارا نہیں کرتے اور نہ ہی مجھے سٹاف روم میں داخل ہونے دیا جاتا ہے"۔
اس سے پہلے وہ جس سکول میں تعینات تھیں وہاں انہیں کبھی کسی امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا کیونکہ ایک تو ان کی اپنی رشتہ دار خاتون اس سکول کی ہیڈ مسٹریس تھیں (جو خود بھی احمدی تھیں) اور دوسرا یہ کہ باقی عملہ بھی ان سے مذہبی اختلاف رکھنے کے باوجود ان کا احترام کرتا تھا۔
لیکن نجمہ بی بی کے مطابق ان کے موجودہ سکول میں "چار پانچ استانیوں کا ایک گروہ" ان سے نفرت کرتا ہے اور "انہوں نے آہستہ آہستہ باقی عملے کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے"۔ لہٰذا 2015 میں جب ان کے بیٹے کی شادی ہوئی تو ان کے رفقائے کار میں سے کسی نے بھی اس میں شرکت نہ کی اور نہ ہی وہ نجمہ بی بی کو اپنی خوشیوں اور غموں میں شریک کرتے ہیں۔
زینب کو بھی اسی طرح کے سماجی رویوں کا سامنا ہے۔
وہ وسطی پنجاب کے شہر چنیوٹ میں رہتی ہیں اور احمدی مذہب کو ماننے والی ہیں۔ وہ چار سال سے شادی شدہ ہیں اور ایک سالہ بیٹی کی ماں بھی ہیں جس کی دیکھ بھال پر توجہ دینے کے لیے وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں اس لیے انہوں نے سِلے سلائے کپڑے بیچنے کا آئن لائن کاروبار شروع کر رکھا ہے۔
زینب نے شادی سے پہلے اپنی زندگی کے 26 سال چنیوٹ کے پاس واقع ربوہ نامی قصبے میں گزارے ہیں جو پاکستان میں احمدی جماعت کا مذہبی اور انتظامی صدر مقام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ربوہ میں رہتے ہوئے انہیں کسی قسم کے مذہبی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑا (کیونکہ وہاں کی 55 ہزار کے لگ بھگ مجموعی آبادی میں سے 90 فیصد لوگ احمدی ہیں) لیکن ان کی مختصر سی کاروباری زندگی میں انہیں متعدد بار ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے جو ان کے مذہب سے شدید دشمنی رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق کپڑے سپلائی کرنے والے کئی ڈیلروں نے ان کے مذہب کا پتہ چلنے پر ان سے کاروباری تعلقات توڑ لیے ہیں کیونکہ وہ کسی احمدی کے ساتھ لین دین کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔ (اسی طرح کئی دکان دار اپنی دکان کے باہر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ اس میں احمدیوں کا داخلہ ممنوع ہے)۔
لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھنے والی اکیس سالہ احمدی طالبہ نمرہ بھی کہتی ہیں کہ انہیں درپیش عمومی سماجی نفرت کی وجہ سے ان کا میل جول ان کے قریبی عزیزوں تک محدود ہے۔ انہیں تفریحی سرگرمیاں بہت اچھی لگتی ہیں لیکن انہیں ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ پاکستان میں ان کے مذہب کو پسند نہیں کیا جاتا اس لیے انہوں نے غیر احمدی لوگوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور کھانے پینے کی خواہش کا ہی گلا گھونٹ دیا ہے۔
نمرہ کی زندگی کے پہلے 10 سال ربوہ میں گزرے لیکن بعد میں ان کا خا ندان چنیوٹ میں منتقل ہو گیا جہاں سکول میں گزارے ہوئے وقت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں انہیں احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ دوسرے بچوں سے مختلف ہیں لیکن جلد ہی ان کے ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں نے انہیں ان کے عقیدے کی وجہ سے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ان میں سے کچھ تو انہیں برملا ناپسند کرنے لگیں اور کچھ ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہتیں "تم اتنی اچھی انسان ہو لیکن ہمیں افسوس ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو"۔
نمرہ کہتی ہیں کہ لاہور آکر بھی وہ اس قسم کے رویوں سے بچ نہیں پائیں حالانکہ اپنی طرف سے انہوں نے یہاں ایک ایسی یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے جسے روشن خیال اور متنوع سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ان کے ساتھ پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں نہ صرف احمدیوں کے بارے میں اشتعال انگیز خیالات کا کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں بلکہ انہیں واجب القتل بھی قرار دیتے ہیں۔
ان کے کچھ ساتھی طلبا نمرہ پر اپنا عقیدہ مخفی رکھنے کا الزام بھی لگاتے ہیں لیکن وہ کہتی ہیں وہ اپنی مذہبی شناخت کبھی نہیں چھپاتیں بلکہ "جب کوئی مجھ سے میرے مذہب کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں کہہ دیتی ہوں کہ میں احمدی ہوں"۔ درحقیقت یونیورسٹی اور دوسرے عوامی مقامات پر وہ ایک ایسا برقعہ پہنتی ہیں جو اپنے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے احمدی خواتین کی خاص نشانی سمجھا جاتا ہے۔
ان کے برعکس ان کی بہن احمدی برقعہ نہیں پہنتیں۔ وہ لاہور ہی کی ایک ایسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں جہاں طلبا میں مذہبی شدت پسندی کا رجحان عام ہے اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنی مذہبی شناخت چھپانے کو ترجیح دیتی ہے۔
لاہور میں لگے احمدی مخالف پوسٹر
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں سوشیالوجی کی استاد ڈاکٹر نِدا یاسمین کرمانی احمدی خواتین کو درپیش اس مذہبی اور سماجی امتیاز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں احمدیوں کے خلاف تعصب میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ان کے مطابق اس کا ایک بڑا سبب "ملک میں سنّی گروہوں کی بڑھتی ہوئی سیاسی طاقت اور اسلامی تنظیموں کی جانب سے احمدیوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت ہے جسے اکثر اوقات ریاستی سرپرستی بھی حاصل ہوتی ہے"۔
حقیقت یہ ہے کہ احمدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے شدت پسندانہ مذہبی اور سماجی رویوں کے فروغ میں ریاست براہِ راست حصہ دار ہے کیونکہ 1974 میں مرکزی پارلیمنٹ نے انہیں غیر مسلم قرار دے دیا اور 1984 میں اس وقت کی فوجی حکومت نے ایک ایسا قانون جاری کیا جس کے تحت کسی احمدی کا اپنے آپ کو مسلمان کہنا یا ظاہر کرنا بھی قابلِ سزا جرم بن چکا ہے۔
آگے کھائی اور پیچھے پہاڑ
بہت سی نوجوان احمدی خواتین کی طرح علینہ تقریباً بارہ سال قبل ربوہ سے لاہور تعلیم حاصل کرنے آئیں لیکن ان کے بی ایس کرنے سے پہلے ہی ان کے گھر والوں نے ان کی شادی کر دی لہٰذا انہیں اپنی تعلیم شادی کے بعد مکمل کرنا پڑی۔ اب وہ 28 سال کی ہیں اور ایک بچے کی ماں بھی ہیں۔
ان کا کہنا ہے احمدی خواتین کو دوہرے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک طرف تو بہت ہی چھوٹی مذہبی اقلیت (جس کی کل آبادی تقریباً چار لاکھ 85 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے) سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ ہر وقت مسلمان اکثریت کے تعصب کا نشانہ بنتی ہیں اور دوسری طرف خود ان کے اپنے خاندان اور جماعت والے انہیں ایک خود مختار زندگی نہیں گزارنے دیتے۔
علینہ کا کہنا ہے کہ احمدی خواتین کو لباس کے انتخاب جیسے روزمرہ کے معاملے سے لے کر اپنی تعلیم اور شادی جیسے اہم فیصلوں تک کوئی اختیار حاصل نہیں بلکہ یہ تمام معاملات ان کے خاندان کے مرد احمدی جماعت کی ہدایات کے مطابق طے کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی پسند کا برقعہ بھی نہیں پہن سکتیں کیونکہ، ان کے مطابق، ان کی جماعت نے طے کر دیا ہے کہ احمدی خواتین کو کس طرح کا برقعہ استعمال کرنا چاہیے لہٰذا ربوہ میں کام کرنے والے تمام درزی صرف اسی وضع کے برقعے ہی تیار کرتے ہیں۔
جماعتِ احمدیہ پاکستان کے اہل کار کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والی تمام خواتین مذہبی احکامات کے تحت اپنی زندگی گزاریں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس میں کبھی جبر سے کام نہیں لیا جاتا۔ لیکن علینہ کہتی ہیں کہ انہیں برقعہ ترک کرنے پر اپنے رشتے داروں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا حتیٰ کہ ان کے اپنے گھر والوں نے انہیں کہا کہ وہ جماعت کے احکامات کی خلاف ورزی کر کے اچھا نہیں کر رہیں۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے احکامات کا اطلاق عموماً متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پر زیادہ سختی سے کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول "اگر آپ کا تعلق ایک معاشی طور پر مضبوط گھرانے سے ہے تو ان احکامات کو نظر انداز کرنا آپ کے لیے کوئی بڑی بات نہیں"۔
اپنی بات کے ثبوت میں وہ بیرونِ ملک مقیم ایک احمدی خاتون کی مثال دیتی ہیں جو اکثر ربوہ میں دیگر خواتین کو تعلیم کی افادیت اور دیگر سماجی موضوعات پر لیکچر دینے آتی ہیں۔ علینہ کے مطابق وہ خاتون "نہ تو برقعہ پہنتی ہیں اور نہ ہی سر ڈھانپتی ہیں"۔
ربوہ سے تعلق رکھنے والی عینی کو بھی اپنے خاندان اور جماعت سے اسی طرح کی شکایات ہیں۔
کچھ سال پہلے جب انہوں نے اپنے والدین سے لاہور جا کر اور ہاسٹل میں رہ کر پڑھنے کی اجازت مانگی تو انہیں کہا گیا کہ اس کے لیے پہلے انہیں اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے لڑکے سے منگنی کرنا ہو گی جسے وہ اچھی طرح جانتی بھی نہیں تھیں۔ ان کی عمر اس وقت 20 سال سے بھی کم تھی لیکن پڑھائی کی خاطر انہوں نے ہاں کر دی۔
تاہم لاہور میں رہتے ہوئے عینی کو احساس ہوا کہ ان کے خیالات اور اندازِ فکر ان کے منگیتر سے بہت مختلف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے والدین پر اپنی منگنی ختم کرنے کے لیے زور ڈالنا شروع کر دیا (جس کے نتیجے میں انہوں نے منگنی کی انگوٹھی بھی واپس کر
دی ہے)۔
اگر وہ اس رشتے کو تڑوانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں تو ان کے مطابق انہیں شادی بالآخر کسی احمدی لڑکے سے ہی کرنا پڑے گی خواہ وہ اسے پسند کرتی ہوں یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی احمدی خاتون کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کسی غیر احمدی مرد سے شادی کر لے۔ ان کے بقول اس صورت میں اسے اپنے خاندان اور جماعت دونوں کی طرف سے بائیکاٹ کا سامنا کرنا ہو گا۔
لیکن ڈاکٹر ندا یاسمین کرمانی کہتی ہیں کہ یہ معاملہ احمدیوں تک محدود نہیں بلکہ ہر مذہب، ہر فرقے اور ہر گروہ میں اجتماعی عزت اور گروہی شناخت کا تصور خواتین کے جسم اور ان کی خودمختاری کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول جیسے ہی اس گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنی خود مختاری کا مطالبہ کرتی ہیں یہ تصور خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی اقلیتی مذہبی گروہ جب یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی شناخت اور بقا خطرے میں ہے تو اس سے تعلق رکھنے والے مرد اپنی خواتین کو قابو میں رکھنے کی کوششیں تیز تر کر دیتے ہیں تا کہ انہیں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے مردوں سے 'محفوظ' رکھ کر وہ اپنے مذہب کے حیاتیاتی تسلسل کو یقینی بنا سکیں۔ اسی وجہ سے پاکستان میں "احمدیوں سمیت تمام اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کو دوہرے ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے"۔
نوٹ: اس رپورٹ میں شامل احمدی خواتین کے نام تبدیل کر دئیے گئے ہیں تاکہ ان کی نِجی اور اجتماعی زندگی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔
تاریخ اشاعت 13 اکتوبر 2021