دو دہائیاں پہلے جب فاخرہ یونس کا نام میڈیا کی سرخیوں میں آیا اس وقت تک انہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔
18 سال کی عمر میں ان کی ملاقات پنجاب کے ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے بلال کھر سے ہوئی جس کے والد مصطفیٰ کھر پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور خود کو 'شیرِ پنجاب' کہلواتے ہیں۔
بلال کھر کا کراچی میں فاخرہ کے ہاں آنا جانا تھا۔ باہمی تعلقات کے چھ ماہ بعد دونوں نے شادی کر لی۔
نیوز لائن میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فاخرہ نے بعد ازاں بتایا کہ بلال کھر نے ان کے سامنے خود کو غیر شادی شدہ اور محکمہ کسٹمز کا افسر ظاہر کیا تھا۔ تاہم جب وہ اسے لاہور میں اپنے گھر لے کر آیا تو فاخرہ پر حقیقت کھل گئی۔ بلال کھر کی اس سے پہلے بھی تین بیویاں تھیں۔ شادی کے بعد فاخرہ کو بدسلوکی اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر وہ اپنے شوہر کو چھوڑ کر کراچی واپس چلی گئیں۔ لیکن اس نے ان کا پیچھا کیا اور ایک دن ان کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا۔
پولیس نے بلال کھر کو گرفتار کر لیا تاہم تھانے میں اپنے اثر و رسوخ کے باعث وہ چند گھنٹے کے بعد ہی حوالات سے باہر آ گیا۔
تیزاب کے حملے میں فاخرہ کا پورا جسم بری طرح جل گیا مگر اس کے پاس خود پر حملہ کرنے والے کے ساتھ صلح کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس دوران بلال کھر کی سابقہ سوتیلی ماں تہمینہ درانی کو اس تمام واقعے کی خبر ملی اور انہوں نے فاخرہ کو کھر خاندان کے فارم ہاؤس سے بازیاب کرا کے انہیں اٹلی بھجوا دیا۔
پاکستان میں نیوز میڈیا پر اس سارے قصے کی خبر چلی تو بعد بلال کھر کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوئی جس کے دوران کھر خاندان نے اپنے سیاسی و مالی رسوخ کے ذریعے فاخرہ پر عدالت سے باہر سمجھوتے کے لیے دباؤ ڈالا۔ جب انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ان کے اہلخانہ کو اپنے ساتھ ملا لیا گیا جو ان پر تیزاب پھینکے جانے کے عینی شاہد تھے۔ ان لوگوں نے عدالت میں گواہی دی کہ انہوں نے بلال کھر کو فاخرہ پر تیزاب پھینکتے نہیں دیکھا چنانچہ عدالت نے اسے بری کر دیا۔
فاخرہ نے 2012 میں اٹلی میں اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک تحریر چھوڑی جس میں انہوں نے پاکستان میں قانون و انصاف کے نظام کی شکستگی پر شدید مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ان کی خود کشی کے معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن زہرا یوسف کا کہنا تھا کہ 'فاخرہ کے کیس جیسے مشہور مقدمات میں بھی استغاثہ کی کارروائی انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اکثر اوقات پولیس متاثرین کا مقدمہ ہی درج نہیں کرتی جبکہ صرف دس فیصد مقدمات عدالت تک پہنچتے ہیں'۔
چہرہ تو بحال ہو گیا لیکن زندگی بگڑ گئی
فاخرہ کا کیس سامنے آنے سے پاکستان میں تیزاب حملوں کو نیوز میڈیا کی قابل ذکر توجہ حاصل ہوئی۔ متعدد دستاویزی فلموں اور نیوز رپورٹس میں ان حملوں کی سنگینی اور متاثرین کے لیے قانونی قانونی مدد کے فقدان کو سامنے لایا گیا۔
ان میں نمایاں ترین دستاویزی فلم کینیڈا میں رہنے والی پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے نے بنائی جس کا نام 'سیونگ فیس' تھا۔ یہ فلم پاکستان میں تیزاب حملوں سے متاثرہ خواتین کی بحالی کے موضوع پر بنائی گئی ہے۔ فلم میں متاثرین کی حالت زار سامنے لانے کے ساتھ یہ بھی دکھایا گیا کہ ایسے حملوں کا ارتکاب کرنے والوں کو اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا اور وہ جھوٹ کا سہارا لے کر بچ نکلتے ہیں۔ ریلیز کے بعد اس فلم نے دنیا بھر میں جانا پہچانا آسکر ایوارڈ جیت لیا۔
تاہم جلد ہی اس دستاویزی فلم کے متاثرین نے شرمین عبید چنائے کو قانونی نوٹس بھیجے اور انہیں یہ فلم پاکستان میں ریلیز نہ کرنے کو کہا کیونکہ اس سے ان کی زندگیوں کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔
ایوارڈ جیتنے کے بعد جب یہ فلمساز پاکستان واپس آئیں تو ہر خاص و عام نے ان کی ستائش کی۔ اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی صدارت میں ہونے والی ایک تقریب میں حکومت پاکستان نے بھی انہیں ایک ایوارڈ پیش کیا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ حنا ربانی کھر بلال کھر کی کزن ہیں جس کا اپنی بیوی فاخرہ پر تیزاب پھینکنے کا عمل ہی دراصل میڈیا کی توجہ ایسے حملوں کی جانب مبذول کرنے کا سبب بنا تھا۔
ایک اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ اس فلم میں نظر آنے والی دو متاثرین -- رخسانہ اور زکیہ -- کی زندگیاں پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہیں۔ ان کے لیے کسی چیز میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ رخسانہ ایک ابتر زندگی گزار رہی ہیں۔ جب یہ دستاویزی فلم ٹی وی پر چلی تو ان کے اہلخانہ نے بری طرح مارپیٹ کے بعد انہیں گھر سے نکال دیا۔ سالہا سال سے ان کے پاس رہنے کو جگہ نہیں اور وہ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی مدد سے بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس وقت وہ اپنے دو بچوں کے ہمراہ روپوشی کی زندگی بسر کر رہی ہیں کیونکہ شرمین عبید چنائے کی فلم ریلیز ہونے کے بعد انہیں اپنے سابق خاوند کے ہاتھوں جان کا خطرہ ہے۔
ایک خفیہ مقام سے سجاگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ: 'میری زندگی ایک مستقل جدوجہد بن کر رہ گئی ہے۔ میں نہیں جانتی کہ کس پر اعتبار کروں اور کس پر نہ کروں۔ میرے پاس اپنے بچوں کے لیے دودھ خریدنے کے پیسے بھی نہیں ہیں'۔
قبل ازیں انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ شرمین عبید چنائے نے اپنی دستاویزی فلم میں کام کے عوض انہیں ایک مکان اور تیس لاکھ روپے دینے کے ساتھ ان کی پلاسٹک سرجری کروانے کا وعدہ بھی کیا تھا جو پورا نہیں ہوا۔
تیزاب گردی اور قانون
ان تنازعوں سے قطع نظر میڈیا کے ذریعے ہونے والی ان کوششوں سے حکومت کی توجہ بھی اس وحشیانہ جرم کی جانب مبذول ہوئی۔ اس کا نتیجہ 2012 میں ایک قانونی ترمیم کی صورت میں نکلا جس میں تیزاب حملے کو ایک غیرمعمولی نوعیت کا جرم قرار دیا گیا اور اس کی سزا موت رکھی گئی۔
یہ 'انضباطِ تیزاب اور تیزاب سے متعلق جرائم کی روک تھام کا قانون 2011' کہلاتا ہے جس کے ذریعے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور کریمینل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) میں تبدیلیاں عمل میں آئیں اور تیزاب حملوں کو 'اقدام قتل' کے بجائے 'گلا دینے والے مادے سے زخمی کرنے' کا عمل کہا گیا۔
ان قانونی ترامیم میں 'زخمی کیے جانے' کی تعریف میں بھی تبدیلی کی گئی اور اسے 'خطرناک ذرائع یا مادوں بشمول جسم کو گلا دینے والے مادے یا تیزاب سے زخمی کیا جانا' قرار دیا گیا۔ رسمی طور پر ہی سہی مگر ان تبدیلیوں سے تیزاب متاثرین کے لیے اپنے کیسز کو دیگر جرائم سے الگ کرنا آسان ہو گیا۔ پی پی سی کے سیکشن 336 بی میں ترمیم کے ذریعے تیزاب حملوں کی سزا قید سے بڑھا کر موت میں تبدیل کر دی گئی۔
تاہم لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل چودھری وحید سمجھتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ان تبدیلیوں کا کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ 'پولیس اور عدلیہ کے لوگوں کو قانون میں تبدیلی کے بارے میں کئی سال تک کوئی آگاہی نہ تھی اس لیے وہ تیزاب حملوں کے مقدمات درج کرنے اور ایسے مقدمات پر فیصلے دینے میں نئی ترامیم کو مدِ نظر نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ ایسے جرائم کو مبہم طور سے 'اقدام قتل' کے طور پر لیا جاتا رہا اور مجرموں کے خلاف ان کے اصل جرم پر قانونی کارروائی شروع کیے جانے میں کئی سال لگے'۔
تیزاب حملے سے متاثرہ خاتون راحیلہ نے جس اذیت کا سامنا کیا اس سے قانون میں بعض دیگر خامیوں کی بھی تصدیق ہوتی ہے جنہیں تاحال دور نہیں کیا جا سکا۔ راحیلہ 2015 میں کراچی میں تیزاب حملےکا نشانہ بنیں اور ان کے مقدمے کی سماعت پچھلے پانچ سال سے جاری ہے۔ ابتدا میں پولیس یہ بھی طے نہ کر سکی کہ آیا ان کا مقدمہ سول کورٹ میں چلایا جانا چاہیے یا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں۔
تیزاب کی خرید و فروخت کسی ضابطے کے تحت لانے کے لیے بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ تیزاب حملوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے لوگ اور حکومت کو اس معاملے میں مشاورت دینے والوں کا کہنا ہے کہ ایسے قوانین صوبائی سطح پر منظور ہونے چاہئیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو ایسے مادوں کی تجارت کے حوالے سے اپنے قوانین بنانے کا اختیار مل گیا ہے۔
اس حوالے سے پنجاب میں متعارف کرائے گئے 'ایسڈ کنٹرول بل 2019' کا مقصد تیزاب کی خریداری، فروخت، اسے ذخیرہ کرنے اور اس کی نقل و حمل کو حکومت کے متعین کردہ ضوابط کے تحت قانون کے دائرے میں لانا ہے۔ یہ حکومتی اداروں اور افسر شاہی کی دفتری تضیع اوقات کی روایت کے باعث تا حال صوبائی وزارت انسانی حقوق اور وزارت قانون کے درمیان چکر کاٹ رہا ہے۔ جب کبھی یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا تو امید کی جا رہی ہے کہ اس سے تیزاب گردی کی روک تھام کے قوانین بہت بہتر ہو جائیں گے۔ اس بل میں پیش کی گئی بعض سفارشات درج ذیل ہیں۔
1۔ طبی، صنعتی یا تعلیمی مقاصد کے علاوہ اجازت نامے کے بغیر تیزاب کی خرید و فروخت کی ممانعت ہونی چاہیے۔
2۔ تیزاب کی قیمتوں کی نگرانی کی جائے۔
3۔ کسی بچے کو تیزاب فروخت نہ کیا جائے۔
4۔ کسی کو اپنا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ دکھائے بغیر تیزاب خریدنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
5۔ مقامی پولیس تیزاب فروخت کرنے والوں کے لائسنس کا باقاعدگی سے جائزہ لے۔
6۔ تیزاب کے گاڑھے پن میں اضافہ کیا جانا چاہیے تا کہ اسے کسی پر پھینکنا مشکل ہو۔
انسانی حقوق کے کارکن اور پالیسی ایڈوائزر گل حسن اس مسودہ قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
'اس قانون پر عمل درآمد کے لیے حکومت کو کوئی نیا طریق کار تخلیق کرنے پر رقم خرچ نہیں کرنا پڑے گی اور اس کے لیے موجودہ حکومتی ترتیب و تنظیم ہی کافی ہو گی'۔
اس حوالے سے تازہ ترین پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید جلد ہی یہ بل پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔ صوبائی حکومت نے حال ہی میں ویمن پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی ہے جس کے اہلکار کہتے پائے گئے ہیں کہ اسمبلی کے آئندہ اجلاسوں میں یہ بل منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔
نئی زندگی کیسے ممکن ہے؟
جرم و سزا سے قطع نظر تیزاب حملوں کے متاثرین کو مدد اور بحالی کی فراہمی ایک ایسا معاملہ ہے جسے نظر انداز کرنے سے یہ خدشہ پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں انہیں کوئی شدید مالی اور جسمانی نقصان ہی پیش نہ آ جائے۔ رضیہ بی بی اور راحیلہ جیسے بہت سے متاثرین کے لیے ان کے زخموں کا علاج ایک نا ممکن کام ہے کیونکہ اس میں پلاسٹک سرجری اور جلد کی پیوند کاری کے لیے کئی مہنگے آپریشن کرانا ہوتے ہیں۔ لیکن ان متاثرین کے جسم پر پڑنے والے تیزاب کے نشانات مندمل ہوں یا نہ ہوں، انہیں پُر امن اور مالی اعتبار سے محفوظ زندگی کا موقع ملنا بھی بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ چونکہ ان پر حملہ کرنے والے انہیں ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لیے آزاد پھر رہے ہوتے ہیں اس لیے ایسے میں اگر قانون ان متاثرین کو کچھ تحفظ فراہم کرتا ہے تو اس سے یقیناً انہیں خوشی ہو گی۔
جہاں تک تیزاب حملوں کے متاثرین کو علاج کی فراہمی کا معاملہ ہے تو حکومت نے پاکستان بھر میں متعدد بڑے ہسپتالوں میں برن یونٹ قائم کیے ہیں۔ دو تنظیمیں بھی کئی سال سے اس میدان میں سرگرم ہیں جن میں اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ایسڈ سروائیورز فاؤنڈیشن (اے ایس ایف) اور لاہور میں قائم ڈیپیلیکس سمائل اگین فاؤنڈیشن (ڈی ایس ایف) شامل ہیں۔
اے ایس ایف اسی نام سے کام کرنے والی عالمگیر تنظیم کی پاکستان میں قائم کردہ شاخ ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ 'اے ایس ایف پاکستان پُر امن اور جمہوری طریقے سے مختلف متعلقہ فریقین کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر تیزاب کے ذریعے کیے جانے والے تشدد خصوصاً جی بی وی (صنفی بنیاد پر تشدد) کی روک تھام اور خاص طورپر متاثرہ خواتین اور بچوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے کام کرتی ہے تاکہ وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق سے کام لے سکیں'۔
یہ بھی پڑھیں
جنوبی پنجاب میں عورتوں کے خلاف تیزاب گردی: بے خدوخال چہروں اور بے حال زندگیوں کی داستان
سجاگ کو جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان اور مظفر گڑھ میں تیزاب حملوں کے متعدد متاثرین سے ملنے کے بعد اس تنظیم کی بڑے پیمانے پر موجودگی کا اندازہ ہوا۔ اس دوران جتنے بھی متاثرین سے ہماری ملاقات ہوئی انہوں نے کسی نہ کسی موقع پر اس تنظیم کے ذریعے علاج کروایا تھا اور تا حال اس کے پاس رجسٹرڈ تھے۔ یہ متاثرین اس کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں البتہ بعض نے بروقت علاج نہ ہونے کی شکایت کی جس پر انہیں بتایا گیا تھا کہ فنڈز کی قلت اور بیرون ملک سے ڈاکٹروں کی آمد میں تاخیر کے باعث ان کے فوری علاج میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
تاہم نشتر ہسپتال ملتان میں برن یونٹ کے سربراہ ڈاکٹر ناہید چودھری اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ کوئی این جی او ایسے کسی مریض کا موثر علاج کرا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں 'اگر کسی مریض کو پچاس آپریشن درکار ہیں تو این جی او زیادہ سے زیادہ دس آپریشنز میں مدد دے سکتی ہے'۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ متاثرہ فرد کا مکمل علاج این جی اوز کے مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ انہیں فنڈ اسی صورت ملتے ہیں جب وہ یہ دکھاتی ہیں کہ انہوں نے کتنے متاثرین کا علاج کیا ہے۔ 'انہیں یہ فنڈ اس بات پر نہیں ملتا کہ انہوں نے کتنے لوگوں کو مکمل طور پر بحال کرنے میں مدد دی ہے'۔
راحیلہ بھی این جی اوز کے بارے میں ایک تنقیدی رائے رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'این جی اوز والے متاثرین کا استحصال کرتے ہیں اور ہمیں اپنے ساتھ ہونے والے کسی ناروا سلوک کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے'۔ انہوں نے سجاگ کو یہ بھی بتایا کہ این جی اوز کبھی پورے چہرے کی بحالی میں مدد نہیں دیتیں کیونکہ داغدار اور گلا ہوا چہرہ دکھا کر ہی انہیں رقم ملتی ہے۔
ان این جی اوز سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ایک کے بعد دوسری حکومت نے تیزاب متاثرین کی مدد اور ان کی بحالی کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ پنجاب حکومت کا 'نئی زندگی پروگرام' ایسا ہی ایک تازہ ترین منصوبہ ہے جسے پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی چلا رہی ہے۔
متوقع طور پر اس اقدام کی بدولت توقع کی جا رہی ہے کہ دوسرے معاملات کے علاوہ متاثرین کے لیے علاج کے حصول کا طریق کار آسان ہو جائے گا۔ اس کی بدولت متاثرین صرف اپنی ایف آئی آر کی نقل دکھا کر سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کرا سکیں گے۔ قبل ازیں انہیں اس مقصد کے لیے سرکاری ڈاکٹر کے بنائے ہوئے میڈیکل سرٹیفکیٹس بھی پیش کرنا ہوتے تھے جن کا حصول آسان نہیں ہوتا اور بعض اوقات ان میں دی گئی تفاصیل تکنیکی وجوہات کی بنا پر متاثرین کی بیان کردہ داستان سے مختلف ہوتی ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ثمن علی بھی تیزاب حملے کا نشانہ بن چکی ہیں۔ انہیں حکومت پنجاب کے اس منصوبے پر بہت سے تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کو فنڈ دینے سے بہت اچھے نتائج حاصل نہیں ہو سکتے کیونکہ بیشتر ہسپتالوں کے پاس تیزاب متاثرین کے علاج کے لیے درکار سہولیات یا ساز و سامان ہی نہیں ہوتا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہی وجوہات کی بنا پر 'بالآخر متاثرین کو نجی ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے'۔
ثمن علی کے مطابق اس معاملے میں حکومت نے متاثرین کی ضروریات کا درست اندازہ نہیں لگایا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'بیشتر متاثرین کو جدید علاج کی مہارت درکار ہوتی ہے جو سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب ہی نہیں'۔
لاہور سے ہی تعلق رکھنے والی کِنزا کو گیارہ سال پہلے ایک ٹریفک حادثے میں سر پر چوٹیں آئیں۔ وہ اب بھی اپنے خدوخال کی بحالی کے لیے آپریشن کروا رہی ہیں۔ ثمن کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے انہوں نے سجاگ کو بتایا کہ بیشتر متاثرین کے لیے مطلوبہ علاج کروانا بہت مشکل اور مہنگا کام ہے۔ وہ بتاتی ہیں: 'میری والدہ کو میرے علاج کے لیے اپنا گھر فروخت کرنا پڑا۔ ادویات اور جلد کی حفاظت کے لیے استعمال ہونے والی کریمیں بے حد مہنگی ہیں اور یہ سرکاری ہسپتالوں کی فارمیسی پر دستیاب نہیں ہوتیں'۔
ان متاثرین کی آرا میں اس لیے بھی وزن محسوس ہوتا ہے کہ اس منصوبے میں پنجاب بھر کے سیکڑوں متاثرین کی مدد کے لیے صرف تین کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے لیے اتنی کم رقم مختص کیے جانے کی وجہ سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ یہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے گا۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 30 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 25 مئی 2022