'عام' بچے کو 'خاص' سہولت نہیں ملے گی، لاہور گرائمر سکول گجرات میں مالی حیثیت کی بنیاد پر طلبہ کی 'تقسیم'

postImg

طاہر جمیل سیال

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'عام' بچے کو 'خاص' سہولت نہیں ملے گی، لاہور گرائمر سکول گجرات میں مالی حیثیت کی بنیاد پر طلبہ کی 'تقسیم'

طاہر جمیل سیال

loop

انگریزی میں پڑھیں

28 اگست 2023 کی صبح ضلع گجرات کے ایک معروف سکول کے سامنے لوگوں کی بھیڑ جمع ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ یہ لوگ سکول کے اندر داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن انتظامیہ انہیں اجازت نہیں دے رہی حالانکہ یہ بچے اسی سکول میں زیر تعلیم ہیں اور ساتھ میں ان کے والدین ہیں۔

تھوڑی دیر بعد انتظامیہ کی طرف سے چند بچوں اور ان کے والدین کو داخلے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن بہت سارے والدین سے ان کے فون نمبر لے لیے گئے ہیں اور ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ جب انہیں سکول سے فون آئے گا تو وہ آسکتے ہیں۔

یہ ملک کے ایک معروف، مہنگے اور معیاری سمجھے جانے والے سکول سسٹم 'لاہور گرائمر سکول' کی گجرات میں قائم شاخ کے مناظر ہیں۔

یہاں پر آئے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے یہاں جمع ہوئے ہیں کیونکہ انتظامیہ نے سکول میں پڑھنے والے بچوں کے لیے اچانک دو نظام رائج کردیے ہیں۔

پہلے اس سکول میں تمام بچوں کو یکساں فیس کے ساتھ ایک جیسی سہولیات میسر تھیں لیکن اب آئی بی (انکوائری پروگرام) کے نام سے ایسے سیکشن بنا دیے گئے ہیں جن میں بچوں سے ڈھائی گنا زیادہ فیسیں وصول کرتے ہوئے ملٹی میڈیا، ایئرکنڈیشنڈ سمارٹ کلاس روم، لائبریری، سائنس لیب، آن لائن کمپیٹیشن اور دوسری سہولیات  میں چند کا اضافہ کردیا گیا ہے جبکہ باقی بچوں کو پہلے سے میسر سہولتوں میں کمی کر دی گئی ہے۔

والدین کا موقف ہے کہ جس وقت انھوں نے اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرایا تھا تو انہیں اسی فیس میں وہ تمام سہولیات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا جو اب چھینی جارہی ہیں۔ وہ اس نظام کو سکول میں طبقاتی تقسیم پیدا کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے خوف زدہ ہیں کہ اس سے ان کے بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

لاہور گرائمر سکول کا آغاز 1979 میں لاہور سے ہوا تھا اور اسے عام طور پر قدرے بہتر آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی تعلیم کا ایک معیاری ادارہ سمجھا جاتا ہے۔

لاہور گرائمر سکول پرائیویٹ لمیٹڈ، انٹرپرائزز سکول سسٹم نامی کمپنی کا ذیلی ادارہ ہے۔ اس کمپنی کی ویب سائیٹ کے مطابق ملک بھر میں اس سکول کی 60 سے زیادہ شاخیں ہیں۔ گجرات میں قائم لاہور گرائمر سکول بھی اس میں شامل ہے۔

گجرات میں اس سکول کے دو کیمپس ہیں جن میں ایک میٹرک اور دوسرا  اے او لیول یا اس سے اوپر کی کلاسوں کے لیے ہے۔

سرکاری سکول کی ریٹائرڈ ٹیچر عطیہ کوکب کا نواسہ بھی اسی سکول میں کلاس ون کا طالب علم ہے۔ ان کے بقول پچھلے سال جب انھوں نے اپنے نواسے کا داخلہ اس سکول میں 12 ہزار روپے فیس کے ساتھ کرایا تھا تو انہیں تمام سہولیات میسر تھیں اور ان میں مزید اضافے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن رواں سیشن میں جب ان کا نواسا کلاس ون میں گیا ہے تو اس کی فیس بڑھا کر 13400 روپے کر دی گئی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ جیسے ہی ستمبر میں نئے سیشن کا آغاز ہوا تو سکول انتظامیہ نے ان سمیت دیگر بچوں کے والدین کو بلاکر بتایا کہ اب سے سکول میں دو سیکشن ہوں گے۔ ایک سیکشن کی وہی پرانی فیس ہو گی اور دوسرے سیکشن کی فیس 28 سے 30 ہزار روپے تک وصول کی جائے گی۔

عطیہ کے مطابق سکول انتظامیہ کہتی ہے کہ اب 28 ہزار روپے دینے والے بچوں کو ہی ائرکنڈیشنر، آن لائن کمپیٹشن، ملٹی میڈیا کے ذریعے سٹوری میکنگ اور آئی بی کی سہولیات ملیں گی۔

اس سسٹم کا نام آئی بی کیوں رکھا گیا ہے اس حوالے سے عطیہ کوکب کہتی ہیں کہ آئی بی پروگرام وہ طریقہ تعلیم ہے جس میں بچوں کو سوشل ورک کے حوالے سے مشقیں کرائی جاتی ہیں اور اس سے ان میں خود اعتمادی بڑھتی ہے۔

جو والدین اتنی بڑی فیس برداشت نہیں کرسکتے ان کے بچوں سے پرانی سہولیات چھین لی گئی ہیں۔ انہیں عمارت کے بالائی فلور پر کمرے دیے گئے ہیں جن کی حالت چار پانچ ہزار فیس والے نجی سکولوں یا سرکاری سکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔

عطیہ کوکب بتاتی ہیں کہ ان کے داماد مڈل ایسٹ میں سول انجیئنر ہیں اور ایک اچھی فرم میں کام کرتے ہیں۔ پہلے ان  کی بیٹی اور نواسہ وہیں ان کے ساتھ رہتے تھے لیکن دو سال پہلے خاندان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بیٹی اور نواسہ پاکستان آجائیں کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ اب انہیں گجرات میں ہی معیاری تعلیم مل سکتی ہے۔

گجرات میں انہوں نے لاہور گرائمر سکول کا انتخاب بھی اسی لیے کیا تھا کہ اس میں پڑھائی کے ساتھ بچوں کو خود اعتمادی، سوشل ورک اور دوسرے کیمپس کے ساتھ آن لائن مقابلوں جیسی سہولیات فراہم کی جاتی تھیں۔

اس سکول مہیں پری کے جی کے طالب علم صارم وڑائچ کی والدہ عیشا احمد عطیہ کوکب کی بات کو آگئے بڑھاتے ہوئے بتاتی ہیں یہاں پر بہتر سہولیات اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بچوں کی شمولیت کو دیکھ کر ہی انھوں نے اپنے بچے کو یہاں داخل کرانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن اب اچانک یہ تمام سہولیات ان سے چھین لی گئی ہیں۔

گجرات میں لوکل گورنمٹ کے چیف آفیسر محمد منیر ملک کے تین بچے بھی اسی سکول میں پڑھتے ہیں، وہ نیا نظام رائج کیے جانے کے علاوہ سکول انتظامیہ کی طرف سے ایک سے زیادہ بچوں کو فیس کی مد میں ملنے والی رعایت ختم کرنے کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔

محمد منیر کا کہنا ہے کہ دو ماہ پہلے جب انہیں اس بارے میں آگاہ کیا گیا تو انھوں نے سکول جاکر اس پر بات کرنا چاہی لیکن انتظامیہ کا موقف تھا کہ یہ فیصلہ ہیڈ آفس کی طرف سے آیا ہے اور اس پر سختی سے عمل درآمد ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس فیصلے کو انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر قبول کرلیا لیکن اب ایک ہی سکول میں دہرا نظام تعلیم انہیں ہرگز منظور نہیں۔

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انتظامیہ کے اصرار پر انہوں ںے اپنے بچوں کو لاکھوں روپے خرچ کرکے مہنگے ٹیبلٹ لے کر دیے لیکن اب کم فیس والے سیکشن کے سلیبس میں سے کمپیوٹر کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر کم فیس دینے والا کوئی بچہ لائبریری اور کمپیوٹر لیب تک رسائی کی کوشش کرتا ہے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔

"میرے بچے شکایت کرتے ہیں کہ انہیں آئی بی سیکشن میں پڑھنے والے اپنے پرانے دوستوں سے ملنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔"

عطیہ بتاتی ہیں کہ کم فیس والے بچوں سے ائرکنڈیشنر کے علاوہ یو پی ایس کی سہولت بھی چھین لی گئی ہے۔ جب بجلی بند ہوتی ہے تو اساتذہ انہیں یہ کہہ کر بہلاتے ہیں کہ پنکھے ہی خراب ہوگئے ہیں۔

"جس کلاس میں میرا نواسہ پڑھ رہا ہے اس میں بچوں کی تعداد 46 ہے جبکہ کسی سرکاری سکول کے ایک کمرے میں بھی اتنے بچوں کو رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ کیا 46 بچوں کی فی کس 13400 روپے فیس سے دو ائرکنڈیشنرز کا بل بھی نہیں نکل سکتا۔"

منڈی بہاءالدین کے ڈسٹرکٹ آفیسر فنانس میاں آفتاب احمد کے دو بچے بھی اس سکول میں زیرتعلیم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ان کا ایک بچہ اپنے کسی پرانے کلاس فیلو سے بات کرنے کے لیے دونوں سیکشنز کی درمیانی کھڑکی میں کھڑا تھا تو سکیورٹی سٹاف نے اسے سختی سے دور بھگایا۔ بچہ اس رویے سے اس قدر دلبراشتہ ہوا کہ اب وہ سکول جانے سے ہی کترانے لگا ہے۔

میاں آفتاب احمد بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ کیسے کوئی والدین اپنے بچے کو ذہنی اذیت کا شکار بننے دے سکتے ہیں؟ اور ایک جمہوری اور با شعور ریاست میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سکول میں دو طبقاتی نظام رائج کر دیے جائیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بہت سارے والدین نے مل کر اس سکول کے خلاف وزیراعلیٰ پنجاب کے شکایت سیل میں بھی اپیل کی ہے اور انتظامیہ کو نظر ثانی کی درخواست بھی دی ہے لیکن ابھی تک دونوں طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

مقامی شہری حافظ سلیمان احمد کا بیٹا اس سکول میں گریڈ تھری میں پڑھتا جنہوں ںے نیا نظام نافذ ہونے کے بعد اسے سکول سے اٹھا کر ایک اور پرائیویٹ سکول میں داخل کرا دیا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ  اس مسئلے پر جب انھوں نے سکول انتظامیہ سے ملاقات کی کوشش کی تو پرنسپل، ایڈمن سٹاف اور کوآرڈینیٹر سمیت کسی ذمہ دار نے ان سے ملنا گوارا نہیں کیا جبکہ اسی روز اپنے بچوں کو آئی بی سیکشن میں منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کرنے والے والدین کو انتہائی عزت و احترام سے بریفنگ دی گئی۔

حافظ سلیمان کے خیال میں انتظامیہ کو بچوں کی تعلیم سے غرض نہیں بلکہ وہ اسے اپنے کاروبار کے طور پر ترقی دینا چاہتے ہیں۔

عطیہ کوکب کے بقول سکول کی اس برانچ میں بچوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ تاہم چند ماہ پہلے تک وہاں تعلیم دینے والے ایک استاد کا کہنا ہے کہ نیا نظام آنے کے بعد تقریباً  سو بچے سکول چھوڑ چکے ہیں اور اب وہاں 900 کے قریب طلبہ پڑھ رہے ہیں۔

عطیہ کوکب کہتی ہیں کہ سکول انتظامیہ کلاسوں کو طبقاتی بنیاد پر تقسیم کر کے بچوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ فلاں کے والدین ماہانہ 30 ہزار روپے ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور تمہارے والدین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔

اس معاملے میں جب سکول انتظامیہ سے رابطے کے لیے کیمپس میں جانے کی کوشش کی گئی تو گیٹ پر تعینات عبداللہ نامی ایڈمن آفیسر نے واضح کیا کہ میڈیا کو سکول کے اندر داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے بعد لاہور گرائمر سکول کی ورکنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر نیلم حسین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ نیلم حسین نہیں بلکہ ایل جی ایس سکول سسٹم کے فرنٹ ڈیسک سے بات کررہی ہیں۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ گجرات برانچ میں ایک ہی عمارت میں دو الگ الگ نظام کیوں چلائے جارہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ گجرات میں سکول کی دو عمارتیں ہیں جن میں تین نظام چل رہے ہیں۔

جب ان سے کہا گیا کہ دو نظام دو الگ الگ عمارتوں میں کیوں نہیں چلائے جا رہے تو ان کا کہنا تھا کہ کروڑوپے روپے خرچ کر کے عمارتیں تعمیر کرنے والوں کو انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا حق کیوں نہیں؟ انہوں ںے مزید کہا کہ سکول میں آئی بی کے علاوہ بھی مزید دس پروگرام شروع کیے جا رہے ہیں۔ سکول کے مالکان اپنے ادارے کو اپنی شرائط پر چلانے کے لیے آزاد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نظامِ تعلیم میں طبقاتی تقسیم: واحد قومی نصاب کس طرح سرکاری اور نِجی سکولوں میں فرق بڑھا دے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سکول کی دونوں عمارتوں میں تین تین گیٹ بنائے گئے ہیں اور ہر سسٹم میں پڑھنے والے بچے الگ الگ گیٹ سے سکول میں آتے ہیں۔

تاہم مقامی لوگوں کے مطابق سکول میں میٹرک کے درجے تک تعلیم دینے والے حصے کے دو دروازے ضرور ہیں لیکن بچوں کا داخلہ ایک ہی مرکزی گیٹ سے ہوتا ہے اور چھٹی کے بعد والدین انہیں وہیں سے واپس لیتے ہیں۔ سکول میں قائم آئی بی سسٹم کی کلاسیں گراؤنڈ فلور پر ہوتی ہیں جبکہ عام انگریزی سسٹم کی کلاسوں کا اہتمام بالائی فلور پر ہے۔

عطیہ کوکب، حافظ سلیمان اور بعض دوسرے والدین کے خیال میں سکول کا دہرا نظام صرف اسی صورت قدرے قابل قبول ہو سکتا ہےکہ دونوں حصوں کی عمارتیں الگ کر دی جائیں اور آئی بی نظام کے تحت نئے سرے سے داخلے دیے جائیں۔ سکول میں پہلے سے ہی زیرتعلیم بچوں کو فیس کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کرنا کسی طور قابل قبول نہیں۔

گجرات میں محکمہ تعلیم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ڈاکٹر سیف اللہ ڈھلوں بھی ایک عمارت میں دو تعلیمی نظام قائم کیے جانے کو غلط قرار دیتے ہیں۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور گرامر سکول کے متاثرہ والدین کی طرف سے ان کے محکمے کو ابھی تک اس حوالے سے کوئی شکایت درج نہیں کرائی گئی ہے جس کی بنیاد پر وہ محکمانہ کارروائی کر سکیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ضلع میں پرائیویٹ سکولوں کی تعداد تقریباً 1400 ہے۔ نجی سکولوں کے لیے ہر ضلعے میں ایک ڈسٹرکٹ رجسٹریشن اتھارٹی کام کرتی ہے جس کا کام صرف ادارے کی رجسٹریشن کرنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی سکو ل ضلعی اتھارٹی کی اجازت کے بغیر اپنی ماہانہ فیس میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ فیس میں اضافے کیلئے باقاعدہ درخواست دی جاتی ہے جس کے بعد ضلعی اتھارٹی بھی پانچ فیصد سے زیادہ فیس بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

انہوں نے بتایا کہ کسی بھی سکول سسٹم کے آغاز میں اس کی فیس کا تعین بھی ضلعی اتھارٹی نہیں کرتی۔ لاہور گرامر سکول سمیت دیگر پرائیویٹ ادارے والدین اور بچوں کو دی جانے والی سہولیات کی بنیاد پر اپنی فیس طے کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو ایسے سکولوں میں بھیجنے والے والدین بھاری بھر کم فیس کے ساتھ دیگر اخراجات بھی برداشت کر سکتے ہیں۔

(اس سٹوری کی تیاری میں لاہور سے آصف ریاض نے بھی مدد فراہم کی۔)

تاریخ اشاعت 15 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

گجرات سے تعلق رکھنے والے طاہر جمیل 18سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف مقامی اور قومی اخبارات میں بحثیت رپورٹر و کالم نگار کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.