لنڈی کوتل کے علاقے میرداد خیل کے احمد شاہ کی چچا زاد بہن کو زچگی کا درد شروع ہوا تو وہ اہلخانہ کے ساتھ انہیں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹروں نے انہیں ڈرپ لگائی اور انجکشن دیے لیکن ان کی حالت بگڑ گئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ انہیں فوری طور پر پشاور کے ہسپتال لے جانا ہو گا وگرنہ ان کی کی جان کو خطرہ ہے۔ تاہم وہ پشاور پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی انتقال کر گئیں۔
احمد شاہ کہتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا کو کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ ناصرف ان کے علاقے بلکہ پورے قبائلی ریجن میں آئے روز بہت سی خواتین زچگی کے دوران جاں بحق ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضلع خیبر میں نہ صرف ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی ہے بلکہ سڑکیں بھی نہایت خراب ہیں، جس کی وجہ سے دور دراز سے لائی جانے والی خواتین اکثر ہسپتالوں کے راستے میں دم توڑ دیتی ہیں۔ جو خواتین ہسپتال پہنچ جائیں ان کے عزیزوں کو اکثر "ریفر ٹو پشاور" کی پرچی تھما دی جاتی ہے۔
احمد شاہ کے بقول قبائلی اضلاع میں بہت ساری این جی اوز بھی صحت پر کام کر رہی ہیں لیکن اس سے قبائلی لوگوں کو بہت کم فائدہ ہوا ہے۔ احمد شاہ کے مطابق لنڈی کوتل ہسپتال کیٹیگری اے میں شمار ہوتا ہے لیکن ابھی تک یہاں زچگی کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔
لنڈی کوتل ہسپتال میں کلاس فور ملازمین کے نمائندے خیال مدار کہتے ہیں کہ لوئی شلمان سڑک کی حالت بہت خراب ہے۔ یہاں لوگ جب مریض اور خاص کر زچگی والی خواتین کو لاتے ہیں تو اسّی فیصد خواتین کی حالت بہت خراب ہو چکی ہوتی ہے اسی لیے انہیں پشاور ریفر کر دیا جاتا ہے۔
"حکومت کو چاہیئے کہ لوئی شلمان علاقے میں یا تو الگ ہسپتال بنادے یا پھر سڑک کی حالت بہتر بنائے تاکہ لوگوں کی مشکلات میں کمی آ سکے اور مریضوں کو برقت ہسپتال پہنچایا جا سکے۔ ہسپتال میں دیگر عملے اور کلاس فور ملازمین کی بھی کمی ہے جسے پورا کرنا چاہیئے۔"
ایک اور اہم مسئلے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لنڈی کوتل ہسپتال میں بلڈبینک تو موجود ہے لیکن بجلی 12 گھنٹے ہوتی ہے اور 12 گھنٹے غائب رہتی ہے۔ اسی وجہ سے بینک کو آپریشنل نہیں کیا جا سکا۔
"جب تک بلڈ بینک اور بجلی کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک لنڈی کوتل ہسپتال میں زچگی کے کیسز صحیح طریقے سے نہیں ہو سکتے۔ ابھی یہ صورتحال ہے کہ جیسے ہی لیبر روم میں کسی مریض کی بلیڈنگ شروع ہوجائے یا حالت بگڑ جائے تو اسے فوراً پشاور ریفر کر دیا جاتا ہے۔"
خیبر کے ضلعی افسر صحت ظفر خان کے پاس لنڈی کوتل ہسپتال کے ایم ایس کا اضافی چارج بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہسپتال میں سہولیات اور سامان کی کمی نہیں بلکہ اصل مسئلہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہے۔ لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے لیے انہوں نے چار پانچ مرتبہ واپڈا حکام کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں، انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ہسپتال کو 24 گھنٹے بجلی فراہم کریں گے۔
ظفرخان نے کہا کہ انہوں نے جب سے ایم ایس کا چارج سنبھالا ہے تب سے ہسپتال میں اصلاحات لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے میں انہوں نے گائنی وارڈ کو سولرائزڈ سسٹم کے ذریعے 24 گھنٹے بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔ اس کے علاوہ فی میل میڈیکل افسر ہر وقت دستیاب ہوتی ہیں اور عملے کو کہا گیا ہے کہ وہ صرف ایمرجنسی کی صورت میں خواتین اور باقی مریضوں کو ایل آر ایچ یا دیگر ہسپتالوں کو ریفر کریں۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق خیبرپختونخوا میں ہر سال تقریباً 1,900 خواتین حمل و زچگی میں موت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ زندہ پیدا ہونے والے 1000 بچوں میں سے 29 بچے ایک سال کی عمر سے پہلے ہی انتقال کر جاتے ہیں۔ صرف 49 فیصد بچوں کی پیدائش کسی مرکزِ صحت یا ہسپتال میں ہوتی ہے۔
پانچ سال سے کم عمر کے 52 فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہیں۔ 85 فیصد خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ قبائلی اضلاع میں ملازمت یا کاروبار کرنے والی شادی شدہ خواتین کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن بشریٰ محسود کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں خواتین کو صحت کے معاملے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اضلاع میں بنیادی مراکز صحت (بی ایچ یوز) فعال نہیں اور اگر کہیں ہیں بھی تو صرف برائے نام، وہاں نہ تو علاج کی سہولیات موجود ہے اور نہ ہی تربیت یافتہ عملہ ہے۔
بشریٰ محسود نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں ایم بی بی ایس لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کے برابر ہے صرف لیڈی ہیلتھ وزیٹرز (ایل ایچ ویز) ہیں جو اکثر ڈیوٹی سے غائب رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
"یہاں ایمرجنسی میں صرف درد کا انجکشن ملتا ہے"، ٹانک کے شہری واحد سرکاری ہسپتال میں سہولتوں کے فقدان پر نالاں
بشریٰ محسود کا کہنا ہے کہ قبائلی خواتین پہاڑی علاقوں میں رہتی ہیں جو سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ جب بھی کوئی خاتون زچگی کے وقت ہسپتال لائی جاتی ہے تو سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
" حمل کے وقت خاتون کے جسم میں ہارمونز کے باعث زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اس کو باقاعدگی کے ساتھ مناسب معائنے اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قبائلی خواتین کی اکثریت ان سہولیات سے محروم ہے، جس کی وجہ سے کچھ بچے وقت سے پہلے (پری میچور) پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ انتقال کر جاتے ہیں۔"
ایک اہم مسئلے پر بات کرتے ہوئے بشریٰ محسود نے کہا حمل میں خواتین کو اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اچھی خوراک ماں اور بچے دونوں کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے، لیکن قبائلی خواتین کو حمل میں مناسب خوراک بھی نہیں ملتی، جس کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہوتی ہے اور زچگی میں انہیں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
تاریخ اشاعت 28 اکتوبر 2023