محمد اشرف کی زرعی اراضی دو جگہ منقسم ہے۔ ایک جگہ 17 ایکڑ رقبہ ایک ایسے ٹیوب ویل سے سیراب ہوتا ہے جو پانچ سو فٹ کی گہرائی سے زیرِ زمین پانی نکالتا ہے جبکہ دوسری جگہ چھ ایکڑ زمین میں آبپاشی کے لیے لگایا گیا ٹیوب ویل محض ڈھائی سو فٹ گہرائی سے پانی نکالتا ہے۔ نتیجتاً زمین کے دونوں ٹکڑوں کی پیداواری صلاحیت مختلف ہے۔ جہاں پہلی اراضی پر بہت اچھی فصل اگتی ہے وہاں دوسری کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم رہتی ہے۔
محمد اشرف فقیریا والا گاؤں کے رہنے والے ہیں جو لاہور سے 55 کلومیٹر جنوب مشرق میں قصور شہر سے دیپال پور جانے والی سڑک کے پاس اور ایک ایسے پلانٹ کے پڑوس میں واقع ہے جس میں قصور کی چمڑا بنانے اور رنگنے والی فیکٹریوں سے نکلنے والا مائع فضلہ صاف کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں پلانٹ سے خارج ہونے والا پانی مقامی نالوں سے گزرتا ہوا دریائے ستلج میں جا گرتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پلانٹ سے نکلنے والا پانی پوری طرح صاف نہیں ہوتا جس کے باعث فقیریا والا اور اس کے کئی قریبی دیہات میں زیرِ زمین پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق "یہی وجہ ہے کہ کم گہرائی سے نکالا جانے والا پانی فصلوں کی پیداوار پر منفی اثر ڈال رہا ہے"۔
اپنی ساری زمین کو پانچ سو فٹ کی گہرائی سے پانی نکال کر سیراب کرنے سے وہ اس مسئلے پر قابو پا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں نہ صرف گہرا بور کرنے پر ایک لاکھ سے زیادہ روپے خرچ کرنا پڑیں گے بلکہ اتنی گہرائی سے پانی کھینچنے کے لیے انہیں بڑا انجن بھی لگانا پڑے گا جس میں زیادہ ڈیزل استعمال ہو گا اور یوں آب پاشی پر آنے والے ان کے مجموعی اخراجات بڑھ جائیں گے۔
فقیریا والا اور اس کے آس پاس کے دیہات کے بیشتر کاشت کاروں کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ وہ اپنی فصلوں کو آلودہ زیرِ زمین پانی سے سیراب کرنے مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس گہرائی سے نسبتاً صاف پانی نکالنے کے مالی وسائل نہیں ہیں۔
سپرنگر انٹرنیشنل پبلشنگ نامی ادارے کے شائع کردہ جریدے میں 2017 میں چھپنے والے ایک تحقیقی مضمون میں اس مسئلے کے ایک اور اہم پہلو کی نشان دہی کی گئی ہے۔ اس میں صنعتی فضلے کی صفائی کے لیے لگائے گئے پلانٹ کے قریب موجود تین دیہاتوں، فقیریا والا، دولے والا اور مان والا، میں زیرِ زمین پانی، مٹی اور سبزیوں میں کرومیم کی مقدار کا جائزہ لیا گیا اور نتیجہ نکالا گیا کہ ان تینوں اشیا میں انسانی صحت کے لیے مضر اس دھات کی ایک بڑی مقدار موجود ہے۔
یہ مضمون پنجاب یونیورسٹی کے دو شعبوں کے اساتذہ، محمد شفیق، طاہرہ شوکت، عائشہ نذیر اور فردوس بریں، نے مل کر لکھا۔ اس کے مطابق فقیریا والا کی مٹی اور سبزیوں اور دولے والا کے آبپاشی کے پانی میں کرومیم کی مقدار اس کی قابلِ قبول مانی گئی مقدار سے خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ پہلے گاؤں کی سبزیوں میں اس کی مقدار دو سو ایک ملی گرام فی کلو گرام سے لے کر دو سو 88 ملی گرام فی کلو گرام ہے حالانکہ بین الاقوامی معیار کے مطابق یہ مقدار محض ایک ملی گرام فی کلوگرام ہونی چاہیے۔ اس گاؤں کی مٹی میں کرومیم کی زیادہ سے زیادہ مقدار 55 ملی گرام فی کلوگرام ہے حالانکہ امریکی معیار کے مطابق یہ 25 ملی گرام فی کلو گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح دولے والا کے آبپاشی کے پانی میں اس کی مقدار 2.23 ملی گرام فی لٹر سے لے کر 6.32 ملی گرام فی لٹر کے درمیان ہے حالانکہ پنجاب کے تحفظِ ماحولیات کے سرکاری معیار کے مطابق یہ مقدار 0.01 ملی گرام فی لٹر ہونی چاہیے۔
تحفظِ ماحول پر کام کرنے والی ایک بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم، ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر، کی طرف سے 2018 میں شائع کی گئی ایک رپورٹ مٹی اور پانی میں پائے جانے والے اس کرومیم کا تعلق براہِ راست چمڑے کے کارخانوں سے جوڑتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں یہ کارخانے چمڑا رنگنے کے عمل میں اس دھات کا استعمال کرتے ہیں جو بعد میں ان سے نکلنے والے مائع فضلے میں شامل ہو جاتی ہے۔
اس رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس فضلے میں کرومیم کے ساتھ ساتھ امونیم کے نمکیات، رنگ و روغن اور دوسرے معلق ٹھوس اجزا جیسے کئی دیگر زہریلے مواد بھی موجود ہوتے ہیں جو، طبی ماہرین کی نظر میں، سب کے سب انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔ تاہم ان میں سے کرومیم کے منفی طبی اثرات سب سے سنگین ہیں کیونکہ زرعی زمین اور آب پاشی کے لیے استعمال کیے جانے والے پانی میں اس کی ضرورت سے زیادہ مقدار انسانوں میں سرطان اور مستقل جینیاتی تبدیلیوں کو جنم دیتی ہے۔
پلانٹ کے قریب ترین واقع بستی، بنگلہ کمبوہاں کے لوگوں کو ان طبی خطرات سے بچانے کے لیے حکومت نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے گاؤں کا زیرِ زمین پانی پینے کے لیے استعمال نہ کریں۔ اس کے بجائے انہیں سرکاری خرچے پر کہیں اور سے پینے کا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پانی بھی نہ صرف آلودہ ہے بلکہ اس کی فراہمی بھی متواتر نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر دسمبر 2021 کے تیسرے ہفتے میں کئی روز اس کی فراہمی معطل رہی۔
سرکاری پانی کی عدم دستیابی کی دوران گاؤں کے لوگ کرومیم ملا مقامی پانی استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی اکثریت کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ وہ بازار میں بکنے والا صاف پانی خرید سکیں۔ نتیجتاً بنگلہ کمبوہاں میں بیشتر لوگ کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہیں۔ کسی کا یورک ایسڈ بڑھا ہوا ہے تو کسی کو ذیابیطس ہے، کسی کے خون کا دباؤ زیادہ ہے تو کسی کا جسم ہر وقت دکھتا رہتا ہے۔
ایک مقامی سبزی فروش کی بیوی آسیہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ یورک ایسڈ کی زیادتی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان کے جوڑوں میں شدید درد رہتا ہے جبکہ ان کی جوان بیٹی دمے کی مریضہ ہیں۔
نا اہلی اور کرپشن
پاکستان اور انڈیا کی سرحد کے قریب واقع قصور شہر میں چمڑے کے کارخانوں سے نکلنے والے گندے پانی کی نکاسی اور تلفی کا مسئلہ اس وقت سے موجود ہے جب سے یہ کارخانے وجود میں آئے ہیں۔ تاہم 1980 کی دہائی میں ان کی تعداد میں اتنا بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا کہ ان سے نکلنے والے گندا پانی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ جلد ہی اس پانی کی بدبو اور اس کے مضرِ صحت اثرات اس قدر شدید ہو گئے کہ حکومت کو ان کے حل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑا۔
چنانچہ 1990 کی دہائی کے شروع میں ایک ایسے پلانٹ کی تنصیب کا منصوبہ بنایا جانے لگا جو اس صنعتی فضلے کو صاف کر سکے۔ اس وقت قصور میں چمڑے کے ایک سو 60 کارخانے تھے جن سے روزانہ نو ہزار مکعب میٹر گندا پانی خارج ہوتا تھا۔ تاہم مستقبل میں کارخانوں کی تعداد میں اضافے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 1993 میں ایک ایسا پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنایا گیا جو روزانہ 13 ہزار مکعب میٹر صنعتی فضلہ صاف کر سکے۔
لیکن 1999 میں بالآخر حکومت نے جو پلانٹ لگایا اس سے فضلے کی صرف جزوی صفائی ہی ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کارخانوں سے نکلنے والے پانی میں سے کرومیم، کیڈمیم اور زنک جیسی بھاری دھاتیں نکال ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اس میں سے خارج ہونے والے نیم صاف پانی کے ذریعے ان دھاتوں کی ایک بڑی مقدار فقیریا والا اور اس کے نواحی دیہات کی مٹی اور پانی میں جذب ہوتی رہتی ہے۔
لیکن اس پلانٹ میں اس سے بھی بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ مسلسل نہیں چلتا۔ آج کل بھی یہ بند پڑا ہے جس کے باعث اس میں آنے والا تمام کا تمام صنعتی فضلہ بغیر صاف ہوئے زرعی زمینوں میں سے گزرتا ہوا دریا میں گر رہا ہے۔
پلانٹ کو چالو رکھنے کے ذمہ دار سرکاری ادارے، قصور ٹینریز ویسٹ منیجمنٹ ایجنسی، کے ایک سابقہ ملازم دعویٰ کرتے ہیں کہ اب یہ پلانٹ اکثر بند رہتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے تین سالہ دورِ ملازمت میں اسے صرف اس وقت چلایا جاتا تھا جب اعلیٰ حکومتی عہدیدار اس کی کارکردگی کا جائزہ لینے آتے تھے۔ ڈان اخبار کا بھی کہنا ہے کہ 2009 اور 2017 کے درمیان یہ پلانٹ آٹھ سال بند رہا۔
دوسری طرف ایجنسی کے پراجیکٹ منیجر شبیر حسین چیمہ کہتے ہیں کہ پلانٹ کو صرف اسی وقت بند کیا جاتا ہے جب اس میں کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو جائے۔ بصورتِ دیگر، ان کے مطابق، اسے ہر وقت چالو رکھا جاتا ہے۔
لیکن پچھلے 30 سال میں قصور میں کارخانوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ اگر یہ پلانٹ ہر وقت بھی چالو رہے تو اس میں ان سے پیدا ہونے والے تمام مائع فضلے کو صاف کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ قصور ٹینریز ویسٹ منیجمنٹ ایجنسی کے مطابق شہر میں چمڑے کے کارخانوں کی مجموعی تعداد دو سو 82 ہو گئی ہے (جن میں سے دو سو 62 چالو حالت میں ہیں)۔ یہ کارخانے روزانہ 21 ہزار چار سو 25 مکعب میٹر گندا پانی خارج کرتے ہیں جو پلانٹ کی صلاحیت سے تقریباً آٹھ ہزار مکعب میٹر زیادہ ہے۔
شبیر حسین چیمہ کہتے ہیں کہ حکومت اس کی صلاحیت بڑھانے پر وقتاً فوقتاً غور کرتی رہتی ہے لیکن مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس پر ابھی تک کام نہیں ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں
تھرپارکر میں پانی کی قلت: 'ہم کئی نسلوں سے چیخ رہے ہیں کہ ہمیں پانی چاہیے لیکن حکومت نے کبھی ہماری بات نہیں سنی'۔
اسی دوران پلانٹ کے مالی معاملات میں بدعنوانی کی کچھ خبریں بھی سامنے آ ئی ہیں۔ ڈان اخبار میں 15 جولائی 2020 کو شائع شدہ ایک خبر کے مطابق قصور کی ضلعی انتظامیہ کو قصور ٹینریز ویسٹ منیجمنٹ ایجنسی کے مالی معاملات کے بارے میں دو تحقیقاتی رپورٹیں پیش کی گئی ہیں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2018 اور 2020 کے درمیان اس کی انتظامیہ نے 20 لاکھ روپے خورد برد کیے جبکہ 2009 اور 2020 کے درمیان اس نے تین کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں کیں۔
ڈان کا کہنا ہے کہ ان رپورٹوں کی روشنی میں قصور کے ڈپٹی کمشنر نے ایجنسی کے آڈٹ آفیسر جہاں زیب ٹیپو اور اکاؤنٹس آفیسر فیصل علی کو معطل کر دیا ہے۔
بیماریاں پھیلاتا کوڑا کرکٹ
پلانٹ کے قریب ہی قصور ٹینریز ویسٹ منیجمنٹ ایجنسی نے چمڑے کے کارخانوں سے نکلنے والے کوڑے کرکٹ کی تلفی کے لیے ایک جگہ مختص کی ہوئی ہے۔ لیکن اس کی صحیح طربقے سے دیکھ بھال نہیں کی جا رہی چنانچہ اس میں ہر طرف رنگے ہوئے چمڑے کے ٹکڑوں، کاغذوں اور جانوروں کی کھال سے اتارے گئے بالوں سمیت ہر قسم کا کچرا بکھرا ہوا ہے۔
اس کے پاس واقع گاؤں بنگلہ کمبوہاں میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کچرا گھر کے گرد چاردیواری نہ ہونے کی وجہ سے اس میں پڑا کوڑا اکثر ہوا کے زور پر اڑ کر ان کے گھروں میں پہنچ جاتا ہے جس سے، ان کے مطابق، کئی قسم کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
شبیر حسین چیمہ تسلیم ہیں کہ کارخانوں کی طرف سے اس جگہ پھینکا جانے والا کوڑا ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے- لیکن وہ اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ اس کی "تلفی کے لیے بنائے گئے قواعد اور ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے تا کہ انسانی آبادی کو اس کے منفی ماحولیاتی اور طبی اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے"۔
تاریخ اشاعت 31 دسمبر 2021