کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ، اس مرتبہ کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے؟

postImg

بلال حبیب

postImg

کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن ، اس مرتبہ کیا حکمت عملی بنائی گئی ہے؟

بلال حبیب

سولہ سالہ ناصر زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ ایک ڈاکو انہیں بار بار چھڑی مار رہا تھا۔ ناصر کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے اور زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔

ڈاکوؤں نے ناصر سے کہا کہ وہ موبائل کیمرے کے سامنے گھر والوں سے مخاطب ہوں اور ان سے کہیں کہ وہ جلد از جلد تاوان کی رقم دیں، "ورنہ وہ اسی طرح مار کھاتا رہے گا۔"

درد سے کراہتے ناصر نے ایسا ہی کیا۔

تحصیل صادق آباد کے قصبے بھونگ کے ناصر کو تین اپریل 2023ء کو اغوا کیا گیا تھا۔

اغوا کے بعد ڈاکو انہیں روجھان کے کچے کے علاقے میں لے گئے تھے۔وہیں ویڈیو بنائی گئی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

ویڈیو میں ڈاکوؤں نے پنجاب پولیس کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ہمت ہے تو نوجوان کو چھڑوا لو"۔

پولیس نے جدید اسلحے اور بکتر بند گاڑیوں کی مدد سے آٹھ اپریل 2023ء کو کچہ روجھان میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کرتے ہوئے مغوی ناصر کو بازیاب کرا لیا۔

تاہم انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے نو اپریل کو کچے کے علاقے کا دورہ کرنے کے بعد ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا اعلان  کردیا۔

ضلعی ترجمان پولیس سیف علی کے مطابق پنجاب کے دو اضلاع راجن پور اور رحیم یار خان جبکہ سندھ کے دو اضلاع کشمور اور گھوٹکی سے یہ آپریشن بیک وقت شروع کیا گیا۔

اس میں پنجاب کے دو اضلاع کی پولیس کے علاوہ پنجاب کانسٹیبلری کے دستوں نے بھی حصہ لیا۔لہٰذا اسے گرینڈ آپریشن کا نام دیا گیا ہے۔

نو اپریل 2023ء کی شام کو ڈی پی او آفس میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی نے بتایا کہ یہ آپریشن عسکری اور سیاسی قیادت کی ہدایات پر شروع کیا گیا ہے۔

چھ خطرناک گروہوں کے 90 ڈاکو  اور 11ہزار پولیس اہلکار

پنجاب پولیس کے مطابق کچے کے علاقے میں آپریشن چھ خطرناک گروہوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ ان میں سکھانی گینگ کے 14، لٹھانی گینگ کے 25، لونڈ گینگ کے 15، دولانی گینگ کے 12، پٹ عمرانی گینگ کے 15 اور بنگیانی گینگ کے نو ڈاکو شامل ہیں۔

کچہ، سات جزیرہ نما علاقوں پر مشتمل ہے جن میں کچہ کراچی، کچہ عمرانی، کچہ حیدر آباد، کچی بنو، کچی مورو، کچی جمال اور کچی کپرا شامل ہیں۔

کچہ کراچی ضلع رحیم یارخان میں ہے۔ کچہ حیدر آباد کا کچھ علاقہ رحیم یار خان اور باقی دیگر پانچ کچے کے علاقے ضلع راجن پور میں ہیں۔

کچے کے 15 ہزار مربع کلومیٹر علاقے کی سرحد تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے ملتی ہے۔

اس گرینڈ آپریشن میں 11 ہزار پولیس اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔

ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی: ڈی پی او

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رضوان عمر گوندل بتاتے ہیں کہ کچے کے انتہائی مطلوب ڈاکوﺅں کی تعداد 36 ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی ابھی تک پکڑا یا مارا نہیں جا سکا۔

ڈی پی او کے مطابق رواں برس فروری، مارچ، اپریل اور مئی میں ضلع رحیم یار خان سے اغوا کی ایک واردات ہوئی ہے جبکہ ضلع راجن پور سے 17، ضلع کشمور سے 38 اور ضلع گھوٹکی سے 36 افراد اغوا ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سات جون 2023ء کو لونڈ گینگ کے خلاف راجن پور پولیس نے آپریشن شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچے کے علاقے میں مورچہ زن ڈاکو تمام علاقے سے بخوبی واقف ہیں۔

" کسی مورچہ زن کے پاس اگر جدید اسلحہ وافر ہو تو وہ اکیلا کئی افراد پر بھاری ہوتا ہے"۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس بار پولیس کی کوشش ہے کہ جانی سمیت کسی بھی نقصان کے بغیر زیادہ سے زیادہ اہداف حاصل کیے جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک ہونے والے آپریشن میں رحیم یار خان پولیس کے اہلکار محفوظ رہے ہیں تاہم راجن پور پولیس کا ایک اہلکار غلام قاسم شہید ہوا ہے۔

"یہ واقعہ تین مئی 2023ء کا ہے۔لڑائی میں تین ڈاکو ہلاک مارے گئے"۔

 آپریشن کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈی پی او نے کہا کہ اس وقت کچے کے کچھ علاقوں میں دریا کا پانی چڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں آپریشن کرنا ممکن نہیں۔

"رحیم یارخان سے ملحقہ جزیرہ نما کچہ کراچی میں رہنے والا ڈاکو قابل سکھانی پولیس کو مطلوب ڈاکو ہے۔ وہ اور اس کے ساتھی کچہ کراچی کو چھوڑ کر کچہ رجوانی میں چلے گئے ہیں۔ کچہ رجوانی میں 11 فٹ اونچا جنگل ہے جہاں بکتر بند گاڑی نہیں چل سکتی۔آپریشن کے لیے ہم بکتر بند گاڑیوں پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کچے کا ترقیاتی بجٹ منظور ہونے جا رہا ہے جس کے بعد یہاں پولیس کے چار بیس کیمپ اور 20 چوکیاں بنیں گی۔

"ہم نے تجویز دی ہے کہ کچے کی چوکیاں اونچائی پر بنائی جائیں تاکہ آپریشن سیلاب سے متاثر نہ ہو"۔

ماضی میں کیے گئے آپریشن کیوں ناکام ہوئے؟

ریٹائرڈ ڈی ایس پی پولیس ایاز لغاری ماضی میں کچے کے آپریشنوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

ان کے مطابق ماضی میں پولیس کی ناکامی کا سبب کم وسائل تھے۔

" ڈاکوؤں کے پاس راکٹ لانچر اور اینٹی ائیر کرافٹ گنز سمیت مختلف طرح کا جدید اسلحہ ہوتا تھا جسے وہ بچپن میں چلانا سیکھ لیتے ہیں"۔

وہ بتاتے ہیں ڈاکوؤں کے پاس ایسا نظام بھی تھا جس سے وہ پولیس کے وائرلیس پیغامات سن لیتے تھے اور ضرورت پڑنے پر پناہ گاہیں چھوڑ کر روپوش ہو جاتے تھے۔

پنجاب سے ڈاکو کبھی سندھ اور کبھی بلوچستان چلے جاتے۔سندھ سے بھی ڈاکو پنجاب آ کر پناہ لیتے ہیں۔

تاہم محدود وسائل کے باوجود پولیس کچے میں آپریشن کرتی رہی۔

رحیم یار خان پولیس کے ضلعی ترجمان سیف علی کا کہنا ہے کہ پولیس کے ماضی کے آپریشن ناکام نہیں ہوئے۔ پولیس نے محدود وسائل اور وقت میں اپنے اہداف حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اپریل  میں گندم  کی کٹائی کے بعد کچے میں حد نگاہ بہتر ہو جاتی ہے اور دریائی پانی بھی کم ہوتا ہے۔ اپریل سے جون تک تقریباً دو سے ڈھائی ماہ کا عرصہ پولیس کو ملتا ہے جس میں اسے آپریشن کرنا ہوتا ہے۔

جون میں دریا میں پانی دوبارہ چڑھنا شروع ہو جاتا ہے تو کچے میں پولیس کی پیش قدمی محدود ہو جاتی ہے۔

"جب تک رسائی آسان نہیں ہوتی اور وہاں سڑکیں اور محفوظ پوسٹیں نہیں بنتیں، پولیس کا وہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔"

انہوں نے کہا پولیس کے  آنے پر ڈاکو کبھی دریا کے دوسری طرف چلے جاتے ہیں اور کبھی سندھ یا بلوچستان۔

انہوں نے بتایا کہ رحیم یار خان اور راجن پور کی ٓپولیس آپس میں رابطے میں رہتی ہے۔ معلومات کی شیئرنگ کی وجہ سے پولیس کی پیش قدمی جاری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ رحیم یار خان پولیس نے زیادہ آپریشن ضلع راجن پور کے کچے میں کیے ہیں۔

"رحیم یار خان کے کچے سے راجن پور کے کچے میں رسائی آسان ہے۔ راجن پور پولیس کو کچے میں جانے کے لیے دریا عبور کرنا پڑتا ہے۔ جغرافیائی تقسیم اتنی پیچیدہ ہے کہ راجن پور سے کچے کے تھانے شاہوالی جانے کے لیے اگر دریا میں پانی کم ہو تو 15 سے 20 منٹ کا وقت لگتا ہے۔ پانی چڑھا ہو تو تین گھنٹوں سے زائد کا وقت لگتا ہے"۔

پولیس میں ڈاکوؤں کے مخبر

ایاز لغاری نے بتایا کہ زیادہ تر سندھ پولیس اور اکا دکا پنجاب پولیس اہلکاروں کے ڈاکوؤں سے رابطے تھے۔

" یہ پولیس اہلکار چاہتے تھے کہ ڈاکو ان کی تعیناتی والے علاقوں میں واردات نہ کریں اور اگر وہاں سے کوئی اغوا ہو تو ڈاکو فوراً ان کو بتادیں"۔

ریٹائرڈ ڈی ایس پی کہتے ہیں کہ سندھ پولیس کے ڈاکوؤں سے بہت زیادہ رابطے تھے۔ "ہم نے جب بھی سندھ پولیس کے ساتھ مل کر ڈاکوؤں پر ریڈ کیا تو ان کے علاقے خالی ملے کیونکہ انہیں پہلے ہی اطلاع مل جاتی تھی"۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ڈاکوؤں کی سیاسی لوگ اور سندھ کے وڈیرے سرپرستی کرتے ہیں انہیں زمینوں پر قبضے سمیت دیگر معاملوں میں استعمال کرتے ہیں۔

کچے کے مستقل حل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب پولیس کو کچے سے واپس نہیں آنا چاہیے۔ حکومت وہاں سکول، کالج، ہسپتال اور سڑکیں و دیگر ترقیاتی کام کرے۔ کچے کے لوگوں کو تعلیم کے ساتھ روزگار دے۔ وہاں جنگلوں کو  محفوظ بنائے۔

"ہمیں ڈاکو بھی پیغام بھجواتے تھے کہ حکومت نے آج تک ہمیں دیا کیا ہے جو ہم یہ کام چھوڑیں؟"

ایاز لغاری کہتے ہیں کہ حالیہ آپریشن ماضی سے مختلف ہے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پولیس نے ڈاکوؤں کے ٹھکانوں پر مورچے بنائے ہیں اور مسلسل وہاں موجود ہے۔ اس سے کچے کے ڈاکوؤں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔

البتہ رحیم یار خان میں بہت سے لوگ پولیس کے دعوؤں سے مطمئن نہیں۔

ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رحیم یارخان نے آٹھ جون 2023ء کو پولیس کے رویے اور کچے میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کے خلاف ہڑتال کی۔

 جنرل سیکرٹری بار محمد احمد کانجو  کہتے ہیں کہ ہر دو چار سال بعد کچے میں آپریشن کیا جاتا ہے۔

"ہم 15 برسوں سےکچہ آپریشن ہوتے دیکھ رہے ہیں"۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس جب بھی کچے میں آپریشن کرتی ہے، اس کا اثر ایک یا دو سال رہتا ہے۔ پھر روپوش ہونے والے ڈاکو واپس آ جاتے ہیں اور دوبارہ منظم ہو کر وارداتیں کرنے لگتے ہیں۔

ماضی کے اہم آپریشن

ماضی میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل حبیب تاجک کے دور میں 2011 ء میں "آپریشن توبہ" کے نام سے یہاں بڑا آپریشن کیا گیاتھا جس میں کچہ کراچی اور اسے سے ملحقہ کچے کو ڈاکوؤں سے صاف کروایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے ہلاکتیں: پولیس ایسے واقعات روکنے میں ناکام کیوں ہے؟

سہیل حبیب تاجک نے لوک سجاگ کو بتایا کہ  کچے کے تمام نو گو ایریاز کو ختم کرکے ریاست کی رٹ قائم کر دی گئی تھی۔اس آپریشن میں دو پولیس اہلکار محمد سرفراز اور داؤد احمد شہید ہوئے تھے۔

دوسرا بڑا آپریشن جسے ضرب آہن کا نام دیا گیا تھا 24 روز جاری رہا۔ اس کا ہدف سنگین جرائم میں ملوث چھوٹو گینگ تھا۔اس کے خلاف پنجاب پولیس نے مارچ 2016ء کے آخری ہفتے میں آپریشن شروع کیا تھا۔

آپریشن کے اٹھارویں دن تک پولیس کے سات جوان شہید ہوچکے تھے۔

چھوٹو گینگ نے 24 پولیس اہل کاروں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا اس صورت حال میں پنجاب پولیس نے پاک آرمی سے مدد مانگی جس پر 20 اپریل 2016ء کو فوج نے آپریشن کیا۔ فوج نے کچے کا محاصرہ کر لیا جس کے بعد چھوٹو گینگ نے ہتھیار پھینک کر گرفتاری دے دی۔

ماضی میں تین گینگ مشہور تھے جن کے نام شر گینگ، کوش گینگ، پٹ عمرانی اور چھوٹو گینگ تھے۔ یہ گینگ اسلحہ کی نوک پر لوگوں کو اغوا کر کے تاوان لیا کرتے تھے۔ چھوٹو گینگ کی گرفتاری کے بعد شر اور کوش گینگ کچہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔لیکن اب دونوں واپس آچکے ہیں۔

تاریخ اشاعت 4 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.