'ہم زندگی نہیں گزار رہے، زندگی ہمیں گزار رہی ہے'، بلوچستان میں سیکڑوں صحافی بغیر تنخواہ کام کرنے پر مجبور

postImg

فیروز خان خلجی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'ہم زندگی نہیں گزار رہے، زندگی ہمیں گزار رہی ہے'، بلوچستان میں سیکڑوں صحافی بغیر تنخواہ کام کرنے پر مجبور

فیروز خان خلجی

loop

انگریزی میں پڑھیں

کوئٹہ کے پچاس سالہ ندیم اعوان  چند ماہ پہلے تک سینئر صحافی ہوا کرتے تھے۔ مگر آج کل بے روزگار ہیں اور اپنا گھر چلانے کے لیے دکان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے صحافتی کیریئر کا آغاز 1998 ء میں کوئٹہ کے ایک اخبار سے بطور فوٹوگرافر کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت صحافی کی تنخواہ سرکاری طور پر مقرر کم از کم اجرت کے برابر نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ انہوں نے 2004ء میں الیکٹرانک میڈیا کے لیےبطور کیمرہ مین کام شروع کیا۔

2007ء میں جیو نیوز سے منسلک ہو گئے اور 2016ء میں بول چینل کو ایسوسی ایٹ رپورٹر کے طور پر جوائن  کر لیا۔

ندیم اعوان بتاتے ہیں کہ میڈیا انڈسٹری وہ واحد شعبہ ہے جہاں کارکنوں  کی تنخواہیں برسوں نہیں بڑھتیں ۔بلکہ گاہے بگاہے بحران کے نام پر اجرتوں میں کمی کر دی جاتی ہے۔

"پہلے میری تنخواہ 20 فیصد کم گئی اور پھر30 فیصد مزید کٹوتی کی گئی اور آخر کار دو ماہ قبل مجھے کوئی نوٹس دیے بغیر نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔"

وہ کہتےہیں کہ انہوں نے صحافت کو 25 سال دیے۔لیکن آج اپنے تین بچوں کی تعلیم اور روزی روٹی کے لیے دوستوں سے ادھار لینے پر مجبور ہیں۔ وہ دوسروں کے حقوق کے لیے ہمیشہ لڑتے رہے مگر ان کی خاطر کوئی بات کرنے والا بھی نہیں ہے۔

فوٹوگرافر عدنان 2010 ءسے نیوز ایجنسی آئی این پی سے وابستہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کہ 13 سال قبل ان کی تنخواہ سات ہزار روپے مقرر کی گئی تھی اور وہ آج تک اسی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ کیا اس آمدنی سے کوئی پانچ افراد پر مشمل کنبے کو پال سکتا ہے؟

"میڈیا مالکان دوسروں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن خود کو کسی قانون یا اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتے۔کار کنوں کی اتنی کم اجرت پر بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔انہوں نے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم دوسروں سے پیسے مانگیں۔"

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس(بی یو جے) کے مطابق صوبے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں کی کل تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔لیکن نجی شعبے کے میڈیا اداروں میں کبھی ویج بورڈ کے فیصلوں یا پیمرا قوانین کا نفاذ نہیں ہوا۔بلکہ پرنٹ میڈیا میں تو  کبھی از کم اجرت کے قانون پر بھی عمل نہیں کرایا گیا۔

سینئر صحافی اشتیاق مصطفیٰ بخاری کے مطابق ویج بورڈ کی رو سے اخبارات میں کام کرنے والے جونیئر رپورٹر، سب ایڈیٹر اور فوٹو گرافر کی کم از کم تنخواہ 38 سے 40 ہزار روپے تک ہونی چاہیے۔ ان تینوں شعبوں میں کام کرنے والے جس صحافی کے پاس 10 سال کا تجربہ ہو، ویج بورڈ کے تحت اس کی کم از کم تنخواہ 50 تا 55 ہزار روپے ہونا لازمی ہے۔

بی یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری  فتح  شاکر بتاتے ہیں کہ صحافیوں کو مالکان کے ناجائز مطالبات اور ڈیوٹی ٹائم سے زیادہ کام اور سہولتیں نہ ملنے کی شکایات پہلے بھی تھیں۔اب تو صورت حال بہت ہی ابتر ہے۔ صحافیوں کو چھ، چھ ماہ بغیر تنخواہ کام کرنا پڑتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ذرائع  ابلاغ کے اداروں سے سیکڑوں کارکن نکالے جا چکے ہیں۔ انڈسٹری اور نجی اشتہارات نہ ہونے کی وجہ سے چار چینل کے نیوز بیوو دفاتر بند ہو جانے سے مزید تین درجن صحافی بیروزگار ہوئے ہیں ۔

فتح شاکر نے 2006ء میں بطور  کیمرہ مین صحافت شروع کی تھی۔ اس وقت ان کی  تنخواہ  30 ہزا ر روپے تھی پھر اس میں کبھی اضافہ نہیں ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی بے تحاشہ  بڑھ چکی ہے۔ تیس ہزار تنخواہ میں گھر کا کرایہ، کچن، بچوں کی فیسیں بیماری اور دیگر اخراجات  پورے کرنا ناممکن ہے۔ میں کیسے  گزارا  کر رہا ہوں یہ میں ہی جانتا ہوں۔"

ان کا کہنا ہے کہ میڈیا اداروں کے بیورو چیفس اور صحافتی  تنظیموں کے نمائندوں کو صرف اپنی مراعات کا غم ہوتا ہے۔کارکن مسائل یا تںخواہ پر بات کریں تو جواب ملتا ہے " مالکان کا  بجٹ کم ہے۔ ورکرز  کے حق میں بولنے سے بیورو انچارج کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں  ان کی سہولتیں کم نہ  ہوجائیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2021 ء میں بی یو جے کے جنرل سیکرٹری  کی حیثیت سے صحافیوں کے معاشی مسائل پر جب  سروے کیا تو انکشاف ہوا کہ صوبے میں 80 فیصد صحافی غربت کی لکیر  سے نیچے  زندگی گزاررہے ہیں۔اور 33 اضلاع  میں بیشتر نامہ نگار مفت کام کرتے ہیں۔

خضدار پریس کلب کے جنرل سیکرٹری  محمد اقبال مینگل بتاتے ہیں کہ  کلب کے 22 ارکان ہیں۔ان میں سے صرف تین ہی صحافیوں کو تنخواہ ملتی ہےجو بڑے قومی میڈیا ہاؤسز سے وابستہ ہیں۔ باقی 19 کو میڈیا ادارے کچھ نہیں دیتےاور اگر کام کے دوران کسی کو حادثہ پیش آئے یا اس کی موت واقع ہو جائے تو تب بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ان لوگوں کوگھر چلانے کے لیےکہیں نہ کہیں کسی سے مالی مدد لینا پڑتی ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ  "ہم زندگی نہیں گزار رہے بلکہ زندگی ہمیں گزار رہی ہے۔ خبر چھاپیں تو جان  کا خطرہ ہے۔صحافت میں جاب سیکورٹی کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا۔ تنخواہیں ناصرف بہت کم ہیں بیشتر اداروں میں وقت پر ملتی بھی نہیں۔"

وہ کہتے ہیں کہ میڈیا مالکان سے تنخواہوں کی بات کریں تو جواب ملتا ہے  "بلوچستان سے  بزنس نہیں مل رہا"۔ یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ  ہر سال بلوچستان حکومت سے اشاعتوں کی مد میں ایک بڑی رقم انہی مقامی اور قومی میڈیا مالکان کو ملتی ہے۔"

روزنامہ آزادی کوئٹہ کےمالک اور  ایڈیٹر آصف بلوچ اس صورت حال کا ذمہ دار  وفاق اور صوبائی حکومتوں  کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں اخباری صنعت  پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ صوبائی حکومت کے اشتہارات  نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مالی مشکلات کے باعث بہت سے لوکل اخبارات بند ہوچکے ہیں۔

"پرنٹ میڈیا کا تمام سامان درآمد ہوتا ہے اور ڈالر کی ہر روز قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ 20 روپے میں والا اخبار ہمیں دو سو روپے میں پڑتا ہے۔ نجی اشتہارات سے تنخواہیں پوری نہیں ہوتیں۔سرکاری اشتہارات کے بل پاس ہونے میں چھ ماہ لگ جاتے ہیں۔اس لیے صحافیوں کو تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتی۔"

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس انڈسٹری کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ بہرحال پرنٹ میڈیا کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس لیے اس کی اہمیت کو محفوظ خاطر رکھتے ہوئے اس صنعت کو ترجیح دیتے ہوئے مختص فنڈز میں اضافہ کیا جائے۔

مقامی اخبارات 'نوی ژوند '، 'اعلان' اور روزنامہ صداقت کے مالک انور شاہ بتاتے ہیں کہ  صوبے  میں 130 مقامی اخبارات ہیں لیکن صوبائی  اور وفاقی حکومتیں اشتہارات  قومی اخباروں کو دیتی ہیں۔سیاسی جماعتیں بھی قومی میڈیا پر اپنی مہم چلاتی ہیں۔

"سیاسی جماعتوں کو دیکھنا چاہیے کہ ان کا ووٹر تو مقامی اخبارات پڑھتا ہے۔یہاں دور دراز علاقوں میں صرف  مقامی اخبارات کی ترسیل ہوتی ہے۔ قومی اخبارات وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتے مگر اشتہارات کا بجٹ صرف قومی میڈیا کو ملتا ہے۔ برسراقتدار سیاسی جماعتوں کو دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کے حوالے سے بھی قانون سازی کرنی چاہیے۔"

صوبے کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں انڈسٹری نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا کی کوئی آمدنی نہیں ہے۔جب حکومت میڈیا مالکان سے صحافیوں کی تنخواہیں بڑھانے کی بات کرتی ہے تو جواب ملتا ہے "حکومت کیا مدد  کر رہی ہے؟"

یہ بھی پڑھیں

postImg

'میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں'، بلوچستان میں 16 سال میں 41 صحافی نامعلوم ہاتھوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے

وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم دیگر صوبوں  کو دیکھیں تو سندھ میں انڈسٹری کے علاوہ صوبائی حکومت کا 12 ارب روپے کا اشاعتی بجٹ ہے۔ پنجاب کااشاعتی بجٹ 18 ارب روپے ہے اور بلوچستان کا  صرف 55 کروڑ ہے جو کافی نہیں۔ میڈیا مالکان حکومت سے بزنس کی بنیاد پر ڈیل کرتے ہیں۔

چئیرمین بلوچستان بار کونسل  راحب بلیدی کہتے ہیں کہ قانوناً ہرسرکاری اور نجی ادارے  پر کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کرنا لازم ہے۔اگر کوئی ایسا نہیں کرتا توحکومت یا صحافتی تنظیمیں  لیبر کورٹ  سے رجوع کر سکتی ہیں۔متعلقہ ادارے کو جرمانہ اور سزا  بھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح نئے میڈیا قوانین کے تحت صحافیوں کو تنخواہ کی ادائیگی میں دو ماہ زیادہ تاخیر نہیں کی جا سکتی۔

بی یو جے کے جنرل سیکرٹری منظوررند کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا آنے کے بعد پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے کار کنوں کونکالا جا رہا ہے۔ بی یو جے نے بے روزگار کی کفالت کے لیے صحافیوں کے لیے ویلفیئر فنڈ فنڈ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم صحافیوں کو درپیش مسائل پر احتجا ج کر رہی ہے اور کم  سے کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد میں جلد کامیابی ملے گی۔

تاریخ اشاعت 5 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

کل باغوں کے مالک تھے، آج مزدوری کر رہے ہیں

سکردو: ٹراؤٹ فش ختم ہوتی جا رہی ہیں

thumb
سٹوری

فیکٹری میں بوائلر کیوں پھٹتے ہیں؟ انسانی غلطی یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

کیا بجلی سے چلنے والے رکشوں کی مہنگی بیٹری اور بجلی کے مسائل کا کوئی حل ہے؟

thumb
سٹوری

مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوسیم خٹک
thumb
سٹوری

ننگر پارکر: گیارہ سال پائپ لائن بچھانے میں لگے معلوم نہیں میٹھا پانی کب ملے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

فیصل آباد: کسانوں کی خواتین بھی احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں

بچے راہ دیکھ رہے ہیں اور باپ گھر نہیں جانا چاہتا

thumb
سٹوری

بھارت کا نیا جنم

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.