نورمحمد ہر وقت غصے میں رہتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کی زرعی زمین کا بڑا حصہ ان کے ہاتھ سے نکلنے والا ہے۔
ان کا تعلق پنجاب کے شمالی ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان کے گاؤں دولت پور سے ہے۔ اوائلِ اپریل 2022 میں ایک دن وہ اپنے گھر سے چند فرلانگ دور گندم کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد اِن کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔
ان کے مطابق دولت پور کی آبادی چار ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ چھوٹے زمین دار ہیں جو دو ایکڑ سے بھی کم اراضی کے مالک ہیں۔ ان کے گاؤں کی کل زرعی اراضی 13 سو 37 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ ان میں سے نو سو 93 ایکڑ ایسے ہیں جن پر گندم اور دوسری نقدآور فصلیں کاشت کی جاتی ہیں جبکہ باقی زمین چارے کی کاشت اور مویشیوں کی چراگاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔
سر پر پگڑی باندھے اور ہلکے بھورے رنگ کی قمیض اورسفید دھوتی پہنے وہ اپنے گھر کی بیٹھک میں داخل ہوتے ہی بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی سفید داڑھی اور چہرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی عمر 60 سال کے لگ بھگ ہے۔
انہوں نے ایک فائل کور میں نہایت سلیقے اور ترتیب سے بہت سے کاغذات ڈال رکھے ہیں۔ ان میں سے ایک کاغذ نکال کر وہ کہتے ہیں کہ "یہ ایک نقشہ ہے جو آنے والے دنوں میں دولت پور کی زمینیں برباد کردے گا"۔
لیکن یہ نقشہ اتنا پیچیدہ ہے کہ کوئی غیرمقامی شخص اسے مشکل سے ہی سمجھ پائے گا۔ اس کی وضاحت کرنے کے لیے نور محمد بیٹھک میں پڑی شیشے کی میز پر ایک مارکر سے کئی لکیریں کھینچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں سے کچھ کلومیٹر مشرق کی جانب واقع قصبے جلال پور شریف کے قریب دریائے جہلم پر بنائے گئے رسول بیراج سے تین سو فٹ چوڑی نہر نکالی جارہی ہے جو ایک سو 16 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ضلع خوشاب کے علاقے کندووال تک جائے گی۔
سرکاری طور پر اس منصوبے کو جلال پور اِریگیشن پراجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس پر 27 کروڑ 46 لاکھ 30 ہزار امریکن ڈالر لاگت آئے گی اور اس سے ایک لاکھ 74 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہو گی۔
نور محمد کی کھینچی ہوئی لکیروں کے حساب سے یہ نہر دولت پور کے شمال سے گزر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی تعمیر کی وجہ سے ان کے گاؤں کی تقریباً دو سو 22 ایکڑ اراضی قابلِ استعمال نہیں رہی۔ تاہم، ان کے مطابق، یہ اراضی پہاڑ کے دامن میں ہونے کی وجہ سے زرعی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں تھی۔
اس نہر سے لگ بھگ ایک سو 85 فٹ چوڑی ایک چھوٹی نہر بھی نکالی جائے گی جو دولت پور کی زمینوں سے گزر کر اس کے جنوب اور مغرب میں واقع دیہات کو سیراب کرے گی۔ اس کی وجہ سے بھی درجنوں ایکڑ مقامی اراضی زرعی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکے گی۔
لیکن ان کا کہنا ہے کہ جلال پور اِریگیشن پراجیکٹ کا سب سے نقصان دہ حصہ ایک برساتی نالے کی تعمیر ہے جو کوہِ نمک (سالٹ رینج) سے نکل کر شمال کی طرف سے دولت پور کی زمینوں میں داخل ہوگا اور جنوب مغرب کا رخ کر کے چک دانیال نامی گاؤں سے گزرتا ہوا دریائے جہلم میں جا گرے گا۔ اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد بارشوں کے پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر اسے زرعی اور گھریلو استعمال میں لانا ہے۔
نور محمد کے بقول ان کی آٹھ ایکڑ زمین اس کی زد میں آ رہی ہے جبکہ دولت پور میں مجموعی طور پر اس کا حصہ بننے والی زرعی زمین ایک سو بیس ایکڑ سے زیادہ ہے۔
نور محمد کی آٹھ ایکڑ زمین جس پر وہ گندم کاشت کرتے ہیں نہر کی زد میں آ رہی ہے
اس اراضی کے مالکان نے 8 جون 2018 کو پنڈ دادن خان کے اسسٹنٹ کمشنر کو ایک درخواست دی جس میں انہوں نے کہا کہ جلال پور اِریگیشن پراجیکٹ کی تعمیر سے "ہمارے گاؤں کا تقریباً سارا زرعی رقبہ ختم ہو (رہا) ہے"۔ نالے کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے استدعا کی کہ "برساتی پانی کو نہ چھیڑا جائے" بلکہ اسے اس کے قدرتی راستوں سے گزرنے دیا جائے۔
حکومت، عدالت اور کاشت کار
دولت پور کے رہنے والے 30 سالہ اعجاز حسین اپنے دو چچاؤں کے ساتھ مل کر اپنی چار ایکڑ خاندانی زمین کاشت کرتے ہیں۔ ان کی ایک ایکڑ اراضی برساتی نالے کے راستے میں آ رہی ہے۔
ایک پرانے سرکاری سروے کے تحت یہ نالہ ان کی زمین کے بجائے کہیں اور سے گزارا جانا تھا۔ اپنے گاؤں کے کئی دوسرے کسانوں کی طرح وہ "جاننا چاہتے ہیں کہ آخر اس کا روٹ کس بنیاد پر تبدیل کیا گیا ہے"۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت انہیں اس سوال کا تسلی بخش جواب دے دے تو انہیں نالے کی تعمیر پر "کوئی اعتراض نہیں ہو گا"۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 8 جون 2018 کو دولت پور کے زمینداروں کی طرف سے دی گئی ایک درخواست پر اسسٹنٹ کمشنر پنڈدادن خان نے نالے کا ڈیزائن بنانے والی سرکاری کمپنی، نیشنل انجینئرنگ سروسز پاکستان جسے عام طور پر نیسپاک (NESPAK) کہا جاتا ہے، کے مقامی پراجیکٹ منیجر رانا عبدالرحمان کو کہا تھا کہ وہ تین دن کے اندر متاثرہ زمینوں کا دورہ کرکے ان کے مالکان کے تحفظات دور کریں۔
لیکن نیسپاک نے اس ہدایت پر کوئی عمل درآمد نہ کیا۔
جلد ہی نورمحمد نے چند دیگر لوگوں سے مل کر لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں ایک رٹ پیٹشن دائر کی جس میں انہوں نے کہا کہ نالے کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے ان کی شکایات کو بغور سنا جائے اور انہیں دور کیا جائے۔ اس پٹیشن کی سماعت کرنے کے بعد عدالت نے 10 ستمبر 2018 کو اسسٹنٹ کمشنر پنڈدادن خان کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزاروں اور تمام متعلقہ اداروں کو برابر موقع دے کر ان کی بات سنیں اور 30 دن کے اندر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔
لیکن جب ایک ماہ گزرنے کے باوجود اس عدالتی حکم پر کوئی عمل درآمد نہ ہوا تو نور محمد نے اسسٹنٹ کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست جمع کرا دی۔ اس پر عدالت نے دوبارہ حکم دیا کہ دو ہفتوں میں اس معاملے کا فیصلہ کیا جائے۔
اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر پنڈ دادن خاں گوہر زمان وزیر کہتے ہیں کہ اِس حکم کے نتیجے میں انہوں نے تمام فریقوں یعنی پنجاب کے محکمہ آب پاشی، نیسپاک اور دولت پور کے لوگوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا "جس کا باقاعدہ ریکارڈ بھی موجود ہے"۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے "سارے قانونی پہلوں کو پیش نظر رکھ کر میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دیا"۔
انہوں نے اس فیصلے میں لکھا کہ اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ نالے کا نقشہ کسی دباؤ کی وجہ سے تبدیل کیا گیا بلکہ، ان کے مطابق، تکنیکی ماہرین نے اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اس کے راستے، چوڑائی اور گہرائی میں تبدیلی کرنے کی سفارش کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے ایک باقاعدہ تفصیلی سروے کیا گیا تھا جس میں کسی زمین دار کے ساتھ بھی تعصب یا رعایت کا برتاؤ نہیں کیا گیا تھا۔
دولت پور کے زمین دار اس فیصلے کو درست نہیں مانتے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بات سنی ہی نہیں گئی۔ دوسری طرف اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا ہے کہ انہوں نے گاؤں والوں کو کئی بار نوٹس بھیجے لیکن وہ مقررہ وقت پر پیش ہی نہیں ہوئے۔
تاہم نور محمد کی سربراہی میں زمین داروں نے اس فیصلے کے خلاف دوبارہ لاہور ہائی سے رجوع کیا جس نے دو سال 11 ماہ بعد یہ کہہ کر ان کی درخواست واپس کر دی کہ سرکاری قواعدوضوابط کی رُو سے انہیں اسسٹنٹ کمشنر کے فیصلے کے خلاف ایڈیشنل کمشنر کے سامنے اپیل کرنا ہو گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب وہ اپنی شکایت ایڈیشنل کمشنر روالپنڈی ڈویژن کے پاس لے کر گئے تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی درخواست قبول نہیں کی جا سکتی کیونکہ انہوں نے اسے قانونی طور پر مقرر کردہ وقت کے اندر جمع نہیں کرایا تھا۔
انصاف یا موت
دولت پور کے رہنے والے 31 سالہ فیاض حسین اسلام آباد میں ایک فون کمپنی میں بطور انجینئر کام کرتے ہیں۔ نالے کی تعمیر کی وجہ سے اپنے گاؤں کی زمینوں کو پہنچنے والے نقصان کی روک تھام کے لیے ستمبر 2021 میں انہوں نے اس منصوبے کے لیے قرض فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے، ایشائی ترقیاتی بنک، کو ای میل خطوط بھیجنا شروع کیے۔ ان میں انہوں نے نالے سے متعلقہ سرکاری اندازوں اور تخمینوں میں پائی جانے والی متعدد خامیوں کی نشان دہی کی۔
انہوں نے بنک کو بتایا کہ نقشہ تبدیل کرنے سے نالے کی لمبائی چھ کلومیٹر سے بڑھ کر 17 کلومیٹر ہو گئی ہے اور اس کی چوڑائی بھی دو سو 50 فٹ سے بڑھ کر دو سو 85 فٹ ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں تبدیلیوں کی وجہ سے اس پر سرکاری تخمینے سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی لیکن اس کے باوجود، اور سرکاری دعووں کے برعکس، یہ ان کے گاؤں کے آس پاس سے گزرنے والے تمام برساتی پانی کو سنبھال نہیں پائے گا۔
اسی طرح انہوں نے نیسپاک اور محکمہ آب پاشی کے حکام کا یہ دعویٰ بھی غلط قرار دیا کہ ان کے گاؤں میں نالے کی زد میں آنے والی زمین کا معیار اُس زمین کے معیار سے کم ہے جہاں سے اسے پرانے نقشے کے مطابق گزرنا تھا۔
اس خط و کتابت کے نتیجے میں ایشائی ترقیاتی بینک کی طرف سے زمین داروں کی شکایات کے ازالے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔ اس کمیٹی نے 21 اکتوبر 2021 کو پنڈ دادن خان میں واقع شاہ کمیر نامی مقام پر دولت پور کے زمین داروں، محکمہ آب پاشی کے اہل کاروں اور ضلعی انتظامیہ کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ 22 فروری 2022 کو اس کمیٹی نے انہی فریقوں سے دوبارہ ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں
لیہ میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی: 'جہاں کبھی گھنے درخت تھے وہاں اب دھول اُڑتی ہے'۔
ان دو ملاقاتوں کے بعد بنک نے فیصلہ کیا کہ ایک غیر جانب دار ادارہ پورے منصوبے کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ مرتب کرے گا جس کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا کہ کس کا موقف درست ہے اور کس کا غلط۔ 24 فروری 2022 کو ایشیائی ترقیاتی بنک کو بھیجی گئی ایک ای میل میں فیاض حسین نے اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نالے سے متاثر ہونے والے زمین دار چاہتے ہیں کہ یہ غیر جانب دار ادارہ اپنی حتمی رپورٹ مکمل کرنے سے پہلے ان کی شکایات بھی ضرور سنے۔
اس صورت حال کے بارے میں ایشائی ترقیاتی بنک کے اہل کار اسد ظفر کا کہنا ہے کہ دولت پور کے لوگوں کی شکایات کے حل کے لیے ان کے ادارے کے قواعد کے مطابق ایک واضح طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جس پر عمل درآمد جاری ہے۔ وہ بنک کی جانب سے جلال پور اِریگیشن پراجیکٹ کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ٹیم کے سربراہ ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے "گاؤں کے لوگوں کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ نالے کی تعمیر کا جائزہ لینے والے غیر جانب دار ادارے سے اپنی مجوزہ ملاقات سے پہلے کسی ماہرِ آب پاشی سے باقاعدہ مشورہ کر لیں تاکہ وہ اپنا موقف صحیح طرح سے پیش کرسکیں"۔
تاہم نورمحمد کا کہنا ہے کہ اگر بنک بھی ان کی شکایات رد کر دیتا ہے تو وہ نہ صرف دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے بلکہ ہر ایسا راستہ اختیار کریں گے جس کے ذریعے وہ نالے کی تعمیر کو روک سکیں۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اگر دولت پور کے زمین داروں کو انصاف نہ ملا تو پورا جلال پور اِریگیشن پراجیکٹ ہی کھٹائی میں پڑ جائے گا کیونکہ، ان کے بقول، "پھر محکمہ آب پاشی کے اہل کاروں کو ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی ہماری زمینوں سے نہریں نکالنا پڑیں گی"۔
تاریخ اشاعت 16 اپریل 2022