حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے جبری گمشدگیوں کے خلاف 26 جنوری 2021 کو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے والے ایک قانون کا مسودہ مسترد کر دیا۔ دو سال سے کم عرصہ میں یہ دوسرا موقع ہے جب پی ٹی آئی نے اسی موضوع پر کسی قانون کی منظوری کی مخالفت کی ہے۔ دونوں مواقع پر قانون کا مسودہ قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے پیش کیا تھا۔
جب ان کا پہلا مسودہ 30 اپریل 2019 کو مسترد ہوا تو اپنی ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اس مسودہ قانون کی مخالفت کر کے 'اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے'۔ اس مرتبہ بھی ان کا یہی کچھ کہنا تھا۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے اپنے مسودے کی حمایت کی منظوری کے لیے مدد مانگتے ہوئے انہوں نے پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمان کو یاد دلایا کہ ان میں سے بہت سے لوگ کبھی جبری گمشدگیوں کے خلاف شدومد سے بولا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ محسن داوڑ کی احتجاجی آواز صدا بالصحرا ثابت ہوئی۔
اس صورتحال سے یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے پی ٹی آئی کی حکومت نے اس موضوع پر کبھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ تاہم اس سے برعکس دو سال پہلے اس کی وفاقی وزارت برائے انسانی حقوق نے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کے لیے ایک مسودہ قانون تیار کیا تھا۔ تاہم یہ مسودہ وفاقی سیکرٹریٹ کی فائلوں میں گم ہو چکا ہے۔
ایسا قانون منظور کرنے کا خیال سب سے پہلے سینیٹ میں انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی میں پیش کیا گیا تھا۔ 2018 کے آخر میں اس کمیٹی نے تجویز کیا کہ جبری گمشدگیوں کو دیگر طرح کے اغوا سے الگ جرم سمجھا جانا چاہیے۔ اس تجویز کے پیچھے کچھ بیرونی عوامل بھی کارفرما تھے۔
مثال کے طور پر اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ساتھ کام کرنے والے ماہرین کے ایک گروہ نے ستمبر 2012 میں کہا تھا کہ: 'ہم پاکستان کو درپیش سلامتی کے مسائل سے آگاہ ہیں ۔۔۔ تاہم جبری گمشدگیوں کے خلاف تمام افراد کے تحفظ سے متعلق 1992 کے اعلامیے کی رو سے 'خواہ جنگ کا خطرہ ہو یا حالت جنگ، اندرونی سیاسی عدم استحکام ہو یا کوئی اور ہنگامی حالت، کسی بھی طرح کے حالات کسی کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے'۔
یہ اعلامیہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1992 میں منظور کیا تھا اور اس پر دستخط کرنے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اس اعلامیے میں بہت سی دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'کسی فرد کو کسی بھی طرح لاپتہ کیا جانا انسانی وقار پر حملہ ہے'۔ اس اعلامیے میں ایسے اقدامات کو 'انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ میں بیان کردہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی سنگین اور کھلی خلاف ورزی' قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی گئی ہے۔
اس کے بعد سے اقوام متحدہ مسلسل اسی موقف کا اظہار کرتی چلی آئی ہے۔ ستمبر 2020 میں اس سے وابستہ انسانی حقوق کے ماہرین نے ادریس خٹک کے جبری لاپتہ کیے جانے کی کڑے الفاظ میں مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستانی حکام انہیں قانون کی عدالت میں پیش کریں اور ان پر ایک منصفانہ مقدمہ چلانے کی ضمانت دیں'۔
2012 اور 2020 کے درمیان انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی حکومتوں نے متعدد مواقع پر پاکستان پر زور دیا کہ وہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ یہ بین الاقوامی دباؤ حکومت کی جانب سے مذکورہ بالا قانون کا مسودہ تیار کرنے کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے ایک تھا۔
انسانی حقوق کی وزارت کی جانب سے تیار کیا جانے والا یہ مسودہ قانون پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) اور کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) میں ترمیم کے ذریعے جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دینے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کو اغوا سے ہٹ کر ایک جرم سمجھا جانا چاہیے کیونکہ عام طور پر جبری گمشدگیوں کے پیچھے ریاستی اداروں کے حکام کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ قانون جبری گمشدگی کے کسی واقعے میں ملوث قانون نافذ کرنے و الے اداروں اور انٹیلی جنس حکام کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے۔
جب یہ مسودہ تیار ہو گیا تو جنوری 2019 میں اسے جائزے کے لیے وفاقی وزارت قانون اور وزارت داخلہ کو بھیج دیا گیا۔ دونوں وزارتوں نے اس پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا۔ وزارت داخلہ میں کام کرنے والے ایک سرکاری افسر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 'وزارت داخلہ سمجھتی ہے کہ یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں انٹیلی جنس سروس کی ساکھ خراب کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
اصولی طور پر دیکھا جائے تو وزارت داخلہ کو اس خدشے سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا بنیادی کام پاکستان بھر میں قانون کا نفاذ یقینی بنانا ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ وزارت داخلہ کا انٹیلی جنس اداروں پر اختیار بہت ہی محدود ہے کیونکہ عملی طور پر صرف ایک انٹیلی جنس ایجنسی یعنی انٹیلی جنس بیورو اس کے ماتحت ہے۔ دوسرے اداروں کا فوج سے تعلق ہے اور وہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو ہی براہ راست جوابدہ ہیں۔
تاہم فوج کا یہ موقف ہے کہ اس کا زیادہ تر جبری گشمدگیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ گزشتہ برس اس نے جبری گمشدگیوں کے واقعات کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی سیل قائم کیا جو اس نتیجے پر پہنچا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں جبری گمشدگیوں کے بہت سے واقعات کی ذمے دار نہیں۔ اس جائزے سے واقف ایک افسر کا کہنا ہے کہ 'لاپتہ کیے جانے کے 2000 سے زیادہ واقعات مجرمانہ اغوا سے متعلق تھے جبکہ لاپتہ ہونے والے سیاسی طور پر سرگرم لوگوں میں بیشتر نوجوان ہیں جو شدت پسندوں گروہوں کا حصہ بن کر اپنی مرضی سے زیرِ زمین جا چکے ہیں'۔
یہ نتیجہ اس مسودہ قانون کو پارلیمان کے سامنے پیش کیے جانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع نے اس کی منظوری میں تاخیر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'وزارت داخلہ فوج کی اس رائے سے اتفاق کرتی ہے کہ اس قانون کی وجہ سے انٹیلی جنس اداروں کے نام پر حرف آئے گا'۔
دریں اثنا انسانی حقوق کی وزارت نے ایک اور تجویز پیش کی ہے کہ حکومت تمام افراد کو جبری گمشدگی سے تحفظ دینے کے عالمی کنونشن پر دستخط کر دے۔ وزارت کا خیال ہے کہ اس سے پاکستان پر اس مسئلے کی وجہ سے اقوام متحدہ اور دوسرے ممالک کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
2001 سے اب تک پاکستان کے مختلف حصوں سے ہزاروں لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسی بیشتر گمشدگیاں سندھ اور بلوچستان سے ہوئیں۔
بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ کی جانب سے قائم کردہ تنظیم 'دی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کے مطابق اس صوبے سے اب تک مجموعی طور پر 6000 افراد غائب ہو چکے ہیں۔ تنظیم کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2009 سے اب تک بلوچستان کے غیرآباد علاقوں سے 1400 لاپتہ بلوچوں کی مسخ لاشیں ملی ہیں۔
سندھ میں حکومت نے حال ہی میں متعدد سندھی قوم پرست تنظیموں پر پابندی عائد کی ہے یہاں گزشتہ چند برس میں 152 افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔ سندھ میں وائس فار مسنگ پرسنز کی شاخ کے مطابق ایسے بیشتر لوگ سیاسی کارکن تھے۔
تاہم حکومت کی جانب سے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر قائم کردہ کمیشن کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال ان دعووں سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے حال ہی میں کہا ہے کہ ملک بھر میں لاپتہ افراد کی تعداد اس وقت 2141 ہے۔ انہوں نے سکیورٹی اداروں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے 'ایسے بہت سے لوگ یا تو متشدد نظریات کے حامل مذہبی و فرقہ وارانہ اور سیاسی شدت پسند گروہوں کا حصہ بن چکے ہیں یا بیرون ملک منتقل ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے کارکن سر عام سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو جبری گمشدگیوں کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دعوے کے حق میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ صرف وہی لوگ لاپتہ ہوتے ہیں جو یا تو ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں یا انہیں ایسی پالیسیوں کا مخالف تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق تمام لاپتہ افراد کو چار درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک سے وابستہ ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو کالعدم مذہبی و فرقہ وارانہ تنظیموں کا حصہ ہیں۔
تیسرے درجے میں ایسے لوگ آتے ہیں جو سندھی قوم پرست جماعتوں کے حامی یا کارکن ہیں اور چوتھے درجے میں آنے والے لوگ لبرل اور بائیں بازو کے نظریات کے حامی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
جبری تبدیلیِ مذہب کے خلاف قانون: قبولِ اسلام کی اسناد کے اجرا کا معیار یکساں بنانا کیوں ضروری ہے؟
جبری گمشدگیوں کے واقعات میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مبینہ کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون دان اور انسانی حقوق کے کارکن پی ٹی آئی کی حکومت سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ لاپتہ افراد یا ان کے اہلخانہ کی کوئی مدد کرے گی۔ سپریم کورٹ کے وکیل سلمان اکرم راجہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکمران جماعت جبری گمشدگیوں کے مسئلے پر سنجیدگی سے کچھ کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے کوئی نیا قانون لانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے پر سجاگ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ 'پاکستان پینل کوڈ کے تحت یہ گمشدگیاں پہلے ہی ایک جرم ہیں۔ ایسے تمام واقعات اغوا سے متعلق قوانین کی ذیل میں آتے ہیں'۔
اپنا ہی تیار کردہ مسودہ قانون پارلیمان سے منظور کرانے میں حکومت کی ہچکچاہٹ کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ' اتنی تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ بصورت دیگر یہ قانون دو سال سے اس طرح نہ پڑا ہوتا'۔
سپریم کورٹ کی وکیل اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن حنا جیلانی لگی لپٹی رکھے بغیر کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت جبری گمشدگیوں کے معاملے میں بے بس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'حکومت کے پاس کبھی اس مسئلے سے نمٹنے کا اختیار تھا ہی نہیں کیونکہ۔ اس معاملے کو فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے ہی دیکھتے ہیں'۔
سجاگ کے ساتھ فون پر بات چیت کرتے ہوئے حنا جیلانی کہتی ہیں مسئلہ یہ نہیں کہ آیا ہمیں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کوئی مخصوص قانون درکار ہے یا نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آیا انٹیلی جنس ادارے ہمارے قانونی اور عدالتی نظام کے دائرے میں آتے بھی ہیں یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ 'ہمیں ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جہاں فوج اور اس کے انٹیلی جنس اداروں کو ہر کام کی کھلی چھوٹ نہ ہو بلکہ وہ منتخب حکام کے سامنے جواب دہ ہوں'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 1 فروری 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 4 فروری 2022