وزیر اعظم شہباز شریف نے 12 مارچ کو انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے نئے چیئرمین کا تقرر کیا لیکن سندھ کے سخت ردعمل پر دو ہی دن میں اپنا حکم واپس لے لیا۔
وزیر اعظم نے یہ تقرری ارسا آرڈیننس 2024ء کے تحت کی جسے نگران حکومت نے جاتے جاتے نافذ کر دیا تھا۔ ارسا آرڈیننس 2024ء، ارسا ایکٹ 1992ء کو کس طرح سر کے بل کھڑا کر دیتا ہے، یہ تفصیل یہاں پڑھیے۔
دریاوں کے 'نئے مالک' سے ملیے!
لوک سجاگ نے اس معاملے پر سندھ کے متعلقہ ماہرین سے بات کی۔
"وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے"
صوبائی وزیر محکمہ آبپاشی سندھ جام خان شورو
وزیر جام خان شورو نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا 1991ء والا معاہدہ اور 1992ء میں ارسا کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا جب نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ شہباز شریف سندھ پنجاب پانی کے تنازعے سے اچھی طرح آگاہ ہیں اس کے باوجود انہوں نے آرڈیننس کے تحت ارسا کا چیئرمین مقرر کر کے سندھ کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
انہوں نے کہا کے وفاقی حکومت شک و شبہات کم کرے۔ "قومی اسمبلی اور سینیٹ موجود ہے، آرڈیننس کو پارلیمان میں لایا جائے یا واپس لیا جائے"۔
جام خان شورو کے مطابق سندھ کو تھل کینال پر اعتراض رہا ہے۔
"2018ء کی نگران حکومت کے دور میں جہلم کی ایک لاکھ 80 ہزار زمین آباد کرنے کے لیے جلال پور کینال کا معاملہ بھی ہم نے مشترکہ مفادات کونسل کو بھیجا تھا۔ اس بار پھر نگران حکومت نے جاتے جاتے اس آرڈیننس کے ذریعے پانی کے معاہدے اور ارسا قوانین میں ترمیم کی غیر جمہوری حرکت کی ہے"۔
انہوں نے کہا جو معاملات آئین اور معاہدوں میں طے ہیں ان کو نہ چھیڑا جائے۔
"ارسا میں فیصلے اکثریت کے نام پر کیے جاتے ہیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا ووٹ پنجاب اپنے ساتھ ملا لیتا ہے۔ مشرف دور میں یہ طے کیا گیا تھا کے ارسا میں وفاق کا نمائندہ بھی صوبہ سندھ سے ہو گا لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہوا"۔
انہوں نے کہا سندھ کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاملے پر تکنیکی اعتبار سے زیادتی جاری ہے۔ سندھ کو پورا پانی نہیں مل رہا۔ "پنجاب کی مزید زمینیں آباد کرنے کے لیے یہ ڈاکا ڈالنے کی کوشش بند کی جائے، ورنہ یہ ملک کے لیے خطرناک ثابت ہو گا"۔
" چاروں صوبوں کی مرضی کے بغیر ارسا ایکٹ میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی"
سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور آئینی ماہر بیرسٹر ضمیر گھمرو
بیرسٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ ارسا ایکٹ میں کوئی بھی ترمیم چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مرضی یا رائے کےبغیر نہیں کی جا سکتی۔ اس کا معاملہ براہ راست مشترکہ مفادات کی کونسل سے جڑا ہے۔
"نگران وفاقی حکومت کا آرڈیننس تو کیا منتخب قومی اسمبلی بھی ارسا ایکٹ میں ترمیم کا آئینی حق نہیں رکھتی"۔
بیرسٹر گھمرو کے مطابق ارسا چیئرمین کی مقرری کے لیے آرڈیننس 2024ء کا سہارا لینا غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہو گا۔
"ہم سندھ کا مقدمہ قومی اسمبلی میں لڑیں گے"
نواب یوسف ٹالپر، ممبر قومی اسمبلی، پیپلز پارٹی
نواب یوسف ٹالپر ضلع عمرکوٹ اور کنری والے علاقے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں۔ بیاسی سالہ یوسف ٹالپر اصلاح پسند زمیندار ہیں اور پانی اور زراعت کے معاملات پر گھری نظر رکھتے ہیں۔
ان کے مطابق پانی کے مسئلے پر سندھ پنجاب کی تکرار کو بڑی مشکل سے ارسا ایکٹ اور ارسا کے قیام سے کم کیا گیا تھا۔ اگر ارسا جیسے متفقہ اور خودمختار ادارے کے معاملات کو غیر آئینی اقدامات سے متنازع کیا گیا تو سندھ اور پنجاب کی پاکستان بننے سے پہلے والی پانی کی تکرار پھر سے شروع ہوجائے گی جو ملک کو بہت نقصان پہنچائے گی۔
"اس ملک میں سندھ کو اب پانی کے سوا مل کیا رہا ہے؟ سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈالنے کی سوچ پرانی ہے جو نئی شکلوں اور حرکتوں کے ساتھ سامنے آئی ہے"۔
انہوں نے کہا کے قومی اسمبلی کی کمیٹیاں ابھی قائم نہیں ہوئی ہیں۔ "ہم سندھ کے پانی کا مقدمہ ان کمیٹیوں میں بھی لڑیں گے اور قومی اسمبلی میں بھی"۔
انہوں نے کہا کے سندھ کو جو پانی مل رہا وہ صوبے کی ضروریات پوری نہیں کر رہا یہ پنجاب کی غیر آباد زمینیں آباد کرنے کے لیے سندھ کے حصے کا پانی چرانے کی کوششیں ہیں۔
نواب یوسف نے کہا کہ ارسا صوبوں کا متفقہ ادارہ ہے لیکن اس پر پنجاب قابض ہے۔ سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے جو تھوڑے بہت معاملات چھوٹے صوبوں نے قبول کیے ہوئے ہیں ان کو متنازع نہ کیا جائے۔
"سندھ کو سینسرز کے ڈیٹا پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے"
سابق چیئرمین ارسا، مظہر علی شاہ
ارسا میں سندھ کے نمائندے انجینئر احسان لغاری کے مطابق پانی کی تقسیم اور مقدار 1991ء کے معاہدے میں طے ہے۔ ارسا آرڈیننس نے ارسا ایکٹ کے بنیاد ہی تبدیل کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان کے دریاؤں کے 'نئے مالک' سے ملیے! ارسا ایکٹ 1992ء اور ارسا آرڈیننس 2024ء کا ایک تقابلی جائزہ
ارسا میں سندھ کے سابق نمائندے اور سابق چیئرمین ارسا مظہر علی شاہ کے مطابق پنجاب کو پہلے ہی برتری حاصل ہے۔ ان کا ریسرچ سیل بنا ہوا ہے وہ سائنسی اور فنی بنیادوں پر بھی پانی زیادہ لے جاتے ہیں۔
"پنجاب کے حصے میں جانے والے پانی کی مقدار اور سینسرز سے حاصل ہونے والے ریکارڈ میں فرق ہوتا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ ارسا میں سندھ کی نمائندگی کرنے والے انجینئر کو سینسرز کے ریکارڈ پر اعتبار نہیں کرنا چایئے بلکہ پانی کی تقسیم والے جگہوں پر جا کر چیک کرنا چاہیے۔
"آرڈینسس کے معاملے پر وزیر اعلی سندھ کو سی سی آئی میں آواز اٹھانی چاہیے"۔
مظہر علی شاہ تجویز دیتے ہیں کہ سندھ کے محکمہ آبپاشی اور سندھ کے ارسا ممبر کو چاہیے کہ وہ ایک ریسرچ سیل قائم کریں جو سندھ کے پانی کو بچانے کے لیے ضروری اقدامات تجویز کرے۔
تاریخ اشاعت 25 مارچ 2024