'گھر اجڑ گئے، زندگیاں تباہ ہو گئیں'، سیالکوٹ میں منشیات کا استعمال بڑھنے کے اشارے

postImg

اقصیٰ یونس رانا

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'گھر اجڑ گئے، زندگیاں تباہ ہو گئیں'، سیالکوٹ میں منشیات کا استعمال بڑھنے کے اشارے

اقصیٰ یونس رانا

loop

انگریزی میں پڑھیں

عائشہ بی بی عین جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں تو ان کے سر پر چار بچوں کی کفالت کی ذمہ داری آن پڑی۔ انھوں نے لوگوں کے گھروں میں صفائی کا کام کرکے ناصرف اپنی یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی بلکہ انتہائی محدود وسائل کے باوجود تینوں بیٹوں کو میٹرک تک پڑھایا بھی۔

لیکن ان کے بیٹے جوں جوں جوانی کی سیڑھی چڑھتے گئے تو نشے کی لت میں مبتلا ہوتے گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسی نشے کی وجہ سے ان کے دو جواں سالہ بیٹوں کا انتقال ہو گیا جبکہ تیسرے بیٹے پر اتنے مقدمے ہیں کہ وہ زیادہ تر قید میں ہی رہتا ہے۔

عائشہ بی بی کا تعلق پنجاب کے شمالی ضلع سیالکوٹ کے علاقے پاک پورہ سے ہے۔ وہ 56 سال کی عمر کو پہنچ چکی ہیں لیکن آج بھی روزی روٹی کے لیے اسی طرح در در ٹھوکریں کھا رہی ہیں۔

عائشہ کہتی ہیں کہ جوانی شوہر کے انتقال کے غم میں گزری تو اب بڑھاپے میں بیٹوں کی موت کا غم آن پڑا ہے۔ یوں سمجھ لیں"زندگی میں ایک پل کا بھی سکون نصیب نہیں ہوا"۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بڑے دو بیٹے احمد اور عامر کافی سلجھے اور محنتی تھے لیکن چھوٹے بیٹے علی کی صحبت کچھ اچھی نہ تھی۔ اس لیے محلے والوں کی طرف سے انہیں اکثر شکایات موصول ہونے لگیں جس پر دونوں  بڑے بھائیوں نے اسے پہلے پیار سے سمجھایا اور پھر سختی کی لیکن وہ باز نہیں آیا۔ پھر اس کی طبیعت میں دن بہ دن بگاڑ آنا شروع ہوگیا۔  یہاں تک کہ جب وہ 19سال کی عمر کو پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ نشہ کرنے لگا ہے۔

عائشہ بی بی کہتی ہیں کہ وہ پہلے چرس اور افیون پیتا تھا پھر آئس جیسے خطرناک نشے کو استعمال کرنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ منشیات کی خرید و فروخت میں بھی ملوث ہوگیا۔

ان کے بقول پھر ایک دن پولیس کو بھی اس کی بھنک لگ گئی اور اس نے ہمارے گھر پر چھاپے مارنا شروع کردیے۔

عائشہ بی بی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اسے حالات کی مار سمجھ کر قبول کر لیا لیکن ان کے پیروں کے نیچے سے زمین تب نکلی جب معلوم پڑا کہ دونوں بڑے بیٹے جو اس وقت گھر کے کفیل تھے وہ بھی نشہ کرنے لگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ نشے کے استعمال کی وجہ  سے ان کے بڑے بیٹے احمد کو پھیپھڑوں کا کینسر اور منجھلے بیٹے عامر کو ٹی بی کو مرض لاحق ہوگیا۔

عامر جب 24 سال کی عمر کو پہنچا تو وہ انتقال کرگیا، عائشہ کے بقول یہ 2015 کی بات ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس کے کچھ عرصہ بعد ان کا چھوٹا بیٹا پولیس کی گرفت میں آگیا تو بڑے بیٹے احمد کی طبیعت بھی ناساز رہنے لگی۔

"پھر ایک دن انہیں پتا چلا کہ اسے کینسر لاحق ہے جو آخری سٹیج پر پہنچ چکا ہے جس کا علاج بھی ممکن نہیں رہا ہے۔ 2018 میں احمد بھی دنیا چھوڑ کر چلا گیا"۔

سیالکوٹ میں رہنے والی عائشہ بی بی ہی اکیلی ایسی نہیں ہیں جن کا ہنستا بستا گھر منشیات کی وجہ سے اجڑ چکا ہو بلکہ 35 سالہ بشریٰ بی بی کی زندگی بھی تباہ ہو گئی ہے۔

 بشریٰ کا خاندان سرگودھا کے قصبے کوٹ مومن سے بہتر مستقبل کی امید لیے 11 سال پہلے سیالکوٹ منتقل ہوا۔ ان کے پانچ بچے ہیں۔ ان کے شوہر جو ایک درزی ہیں وہ پچھلے کچھ عرصہ سے نشہ کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے بشریٰ کو بچوں کی کفالت کے لیے مجبوراً لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کپڑوں کی سلائی میں کافی ماہر تھے جس سے وہ اتنی کمائی کر لیتے تھے کہ ان کا خاندان اچھی زندگی گزار رہا تھا۔

"پھر وہ بری صحبت میں پڑ کر نشہ کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ ان کی صحت گرنے لگی تو کام بھی متاثر ہونا شروع ہوگیا، وہ سارا دن نشہ کرکے گھر میں سوئے رہتے، گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی"۔

وہ بتاتی ہیں کہ حالات اس قدر بدتر ہوگئے کہ جو خاتون ان کے گھر کام کرتی تھی اسی کے ساتھ وہ دوسروں کے گھر جاکر کام کرنے لگیں۔

بشریٰ تسلیم کرتی ہیں کہ ایک وقت آگیا تھا کہ وہ مایوسی کی آخری نہج پر پہنچ گئی تھی لیکن پھر بچوں کی خاطر ہمت باندھی اور اس ساری صورتحال سے اپنے سسر کو آگاہ کر دیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے سسر فوری طور پر سیالکوٹ آگئے اور اپنے بیٹے کو علاج کے لیے تین ماہ تک بحالی صحت کے ایک مرکز میں داخل کرادیا۔ یہاں پر ان کی حالت کافی بہتر ہوئی گئی اور وہ گھر آگئے لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد وہ دوبارہ انہی دوستوں سے ملنے لگے جنہوں نے انہیں نشے پہ لگایا تھا۔

بشریٰ بی بی کہتی ہیں کہ وہ عورت ہیں اور مرد کو زبردستی گھر میں باندھ کر تو نہیں رکھ سکتیں اس لیے دوبارہ سے سسر سے مدد مانگی جو پورے خاندان کو واپس کوٹ مومن لے گئے ہیں۔

سیالکوٹ میں کام کرنے والی ماہر نفسیات سمیعہ علی کا کہنا ہے کہ بے روزگاری، غربت، ذہنی سکون کی کمی، مہنگائی اور روشن مستقبل کے کم امکانات نے لوگوں کو نشے کی طرف راغب کرنے میں نمایاں کردار کیا ہے۔ لوگ پریشانیوں اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کی خاطر بھی نشے کا رخ کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس طرح ان کی مشکلات اور پریشانیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ نشے کے مریض کیلئے کاؤنسلنگ بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی دوا ۔ اس لیے صحت کی بحالی کے مراکز میں اس بات پہ خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

بشریٰ بی بی کا خاندان چونکہ سیالکوٹ سے سرگودھا اپنے آبائی گھر چلا گیا ہے تو ان کے اندر یہ امید جاگی ہے کہ ان کے شوہر اب اس عادت سے چھٹکارہ حاصل کرلیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ سیالکوٹ میں نشہ کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

بشریٰ بی بی کی طرح عائشہ بی بی کا خیال ہے کہ ان کے  بیٹے نشے پر اس لیے لگے کیوں کہ ان کا میل ملاپ ایسے لوگوں سے تھا جو یا تو خود نشہ کرتے ہیں یا اس کے کاروبار میں ملوث ہیں۔

سیالکوٹ میں بہت سے چوراہوں، پلوں کے نیچے اور ریل کی پٹڑی کے آس پاس نشہ کرنے والوں کی ٹولیاں نظر آتی ہیں۔

سیالکو ٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے افسر تعلقات عامہ خرم شہزاد بتاتے ہیں کہ پچھلے ایک سال کے دوران ضلع بھر میں 1596 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے دس کلوگرام ہیروئن، دو کلو گرام آئس اور 11 ہزار 500 لیٹر شراب اور 464 گرام چرس برآمد کی ہے۔ ان کے مطابق ان تمام ملزمان کے کیس عدالت میں چل رہے ہیں۔

سیالکوٹ شہر میں "آس ری ہیبلی ٹیشن سینٹر" نامی ادارہ منشیات کی لت میں مبتلا مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔ اس کی انتظامیہ کے مطابق یہاں پر پچھلے ایک سال میں دو سو سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں بیشتر نوجوان تھے اور ان کی عمر 16 سے 30برس کے درمیان تھی۔

اس مرکز کے ملازم محمد بلال کا کہنا ہے کہ یہاں مریضوں کو علاج مہیا کرنے کے ساتھ ان کی دینی اور دنیاوی تربیت اور کاؤنسنگ بھی کی جاتی ہے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مریض جب وہ یہاں سے صحت یاب ہوکر واپس گھر چلا جائے تو دوبارہ اس لت میں مبتلا نہ ہو لیکن یہ بات سچ ہے کہ یہاں آنے والا ہر مریض ہمیشہ کےلیے نشہ نہیں چھوڑتا کیونکہ بہت سے افراد علاج کے بعد دوبارہ اسی لت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

لاہور میں قائم پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صوبے بھر سے اس کو منشیات سے متعلقہ معائنوں کے لیے ملنے والے کیسز میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔

ادارے کی ویب سائٹ پر 2015 سے 2021 تک موصول ہونے والے کیسز کی رپورٹس دی گئی ہیں جن کے مطابق ان آٹھ سال میں پنجاب میں ایسے کیسوں کی تعداد میں 50 فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

2015 میں اس لیبارٹری کو 23 ہزار 326، 2016 میں 21 ہزار 930 اور2017 میں 23 ہزار 493 اور 2018 میں 20 ہزار 615 کیس موصول ہوئے تھے۔ لیکن 2019 میں یہ تعداد بڑھ کر 42 ہزار 412 تک پہنچ گئی جبکہ 2020 میں اس لیبارٹری کو کل 50 ہزار 521 اور 2021 میں 46 ہزار 971 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

انسداد منشیات کی وفاقی وزارت کے ڈیٹا کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ایسے کیسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ وزارت کی سال 2021 اور 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یکم جولائی 2021 سے 30 جون 2022 تک منشیات کے 96 ہزار 516 کیس سامنے آئے اور ایک لاکھ ایک ہزار 672 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ اس سے دو سال پہلے یعنی 2019 اور 2020 میں رجسٹرڈ کیسوں کی تعداد 69 ہزار 141 تھی جبکہ 74 ہزار 820 ملزموں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم کے مطابق پاکستان میں 76 لاکھ  لوگ نشے کے عادی ہیں۔لیکن ان میں سے 30 ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج اور طبی سہولیات میسر ہیں۔ اس کے علاوہ ان افراد کے لیے مفت علاج بھی میسر نہیں ہے۔

پاکستان سوشل سائنسز ریویو نامی تحقیقی ادارے میں 31 مارچ 2020 کو شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق 2017 میں پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 76 لاکھ تھی جن میں سے 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین تھیں۔ اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں 40 ہزار افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

منشیات بحالی مرکز ملتان: ' نشے کے عادی افراد کو ادویات کے بجائے کونسلنگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے'

ہائی کورٹ کے وکیل شہریار احمد کا کہنا ہے کہ ملک میں موثر قانون سازی کے باوجود نشے کے مریضوں کی تعداد میں دن بہ دن تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ قوانین کے مطابق غیر قانونی منشیات سے متعلق جرائم کے لئے موت یا عمر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

انسداد نشہ آور مواد ایکٹ 1997 کی شق 8 کے مطابق  اگر کسی سے ایک سو گرام یا اس سے کم مقدار میں نشہ برآمد ہو تو اسے دو سال تک قید ہوسکتی ہے۔ اگر یہ مقدار ایک کلو تک ہو تو سات سال قید اور جرمانہ ہوگا۔

اگر یہ مقدار ایک کلو سےزیادہ ہوگی تو موت، عمر قید یا 14 سال قید اور دس لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہے۔  تاہم اگر منشیات کی مقدار دس کلو گرام سے زیادہ ہو تو سزا عمر قید سے کم نہیں ہوگی۔

شہریار احمد کہتے ہیں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ منشیات فروشوں کے خلاف مقدمے کچھ عرصہ عدالت میں چلتے ہیں اور پھر وہ باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منشیات فروش مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں اور کوئی بھی ثبوت پیچھے نہیں چھوڑتے۔
ان کے مطابق بعض واقعات میں پولیس کی غفلت اور ناکافی ثبوتوں کی بنا پر کیس بند ہوجاتا ہے اور منشیات فروش آزاد ہوجاتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 23 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اقصیٰ یونس رانا کا تعلق ضلع سیالکوٹ سے ہے۔گزشتہ تین سال میں پاکستان کے مختلف انگریزی اور اردو اخبارات کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.