کسی دور میں ناخدا معیار فجر سے پہلے اٹھ کر ساحل پر لنگر انداز اپنی چھوٹی کشتیوں کی جانب روانہ ہو جاتے تھے۔ وہ انہیں اس امید کے ساتھ سمندر میں اتارتے کہ جلد شکار کر کے دوپہر کے کھانے کے لیے اپنے گھر لوٹ آئیں گے۔ اس دوران وہ پاپلیٹ، سورو ، گرانز اور دیگر اقسام کی مچھلیاں پکڑ کر لایا کرتے تھے۔ لیکن اب سمندر میں ان مچھلیوں کا نام و نشان نہیں ملتا۔
معیار کہتے ہیں کہ سمندر کے اندر کئی دن گزارنے کے باوجود وہ بہت کم مقدار میں مچھلی پکڑ پاتے ہیں اور اسے بیچ کر بس اتنے ہی پیسے ملتے ہیں کہ راشن والے کا ادھار چکانےکے بعد کچھ نہیں بچتا۔
ناخدا معیار کا تعلق بلوچستان کے ساحلی علاقے پسنی سے ہے۔ انہوں نے 10 سال کی عمر میں نے اپنے والد کے ساتھ مچھلی کے شکار کے لیے سمندر میں جانا شروع کیا تھا۔ وہ تقریباً 45 سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ اس عرصہ میں انہوں نے سمندر کے ہر طرح کے گرم سرد رخ دیکھے ہیں۔
"ہمارے ہم کاروں کی لاشیں اس سمندر کی مست موجوں کی امانت ہوئی ہیں۔ کئی دوست ہم سے بچھڑ گئے۔ اب ہماری زندگی اور موت اسی سے منسلک ہے۔ اگر ایک دن بھی سمندر نہ جائیں تو بھوک آواز دینے لگتی ہے۔"
پسنی ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ 1931ء میں خان آف قلات میر محمود خان دوم کی وفات کے بعد ان کے جانشین میر احمد یار خان نے بیرون ملک تجارتی تعلقات کا آغاز کیا تو اس مقصد کے لیے پسنی کی بندرگاہ قلات کی دوسری بندرگاہوں کے مقابلے میں زیادہ کار آمد ثابت ہوئی۔
چنانچہ سندھ اور بلوچستان کے تاجروں نے، جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی، یہاں سے تجارتی مال درآمد و برآمد کرنا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی گمنام بستی ایشیا بھر میں شہرت پا گئی۔ جاپان سے ریشمی، سوتی اور اونی کپڑا اور کیوبا سے چینی بڑی مقدار میں درآمد ہونے لگی۔ یہاں سے خشک مچھلی اور پیش کی چٹائیاں وغیرہ ہندوستان اور کولمبو کو برآمد کی جانے لگیں۔ تاہم مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہی رہا جو اب ان سے چھنتا جا رہا ہے۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق پسنی شہر کی کل آبادی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ اس میں 80 فیصد خاندان ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ یہ ضلع گوادر کی تحصیل اور مقامی ماہی گیروں کی قدیم بستی ہے اور اس کا ساحل بہت طویل ہے۔
پسنی ہی کے ناخدا پَشو کی عمر 60 سال ہے۔ نامساعد حالا ت کے باوجود انہوں نے سمندر سے اپنا تعلق ٹوٹنے نہیں دیا۔
وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی انہیں مچھلیاں پکڑ کر بہت اچھی آمدنی ہو جاتی تھی لیکن اب یہاں ماہی گیری کا سنہری دور ختم ہو چکا ہے۔
"ہم سمندر سے حاصل ہونے والے رزق کے بل بوتے پر اپنے بچوں کو کراچی جیسے شہروں میں تعلیم کے لیے بھیجتے تھے۔ اب ماہی گیروں کے بچے فون کرتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں کچھ بھیج دیجیے تو ان کا سر جھک جاتا ہے کہ پیسے کہاں سے لائیں۔"
وہ بتاتے ہیں کہ پہلے ان کی دو کشتیاں تھیں اور حالات اچھے تھے لیکن اب سمندر سے اچھی آمدن نہیں ہوتی۔ جال پھٹ جائے تو نئے جال کی قیمت دو لاکھ سے زیادہ ہے۔ غریب یہ جال کیسے خریدے۔ ایک جال چھ مہینے سے زیادہ چل نہیں سکتا اور ہر چھ ماہ بعد جال تبدیل کرنا ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی ایک کشتی فروخت کر دی ہے تاکہ دوسری کشتی کے لیے جال خرید سکیں بچے کی یونیورسٹی کی فیس ادا ہو سکے۔
"ہم مچھیرے دن رات محنت کرتے ہیں لیکن پھر بھی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ مچھیروں کے لیےحکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں۔ ہم جو بھی کررہے ہیں اپنی مدد آپ کے تحت کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے پسنی کے ساحل پر توجہ نہ دینے سے یہاں کے باسیوں کا کاروبار روز بروز پستی کی جانب گامزن ہے۔"
ہر کوئی معیار یا پَشو نہیں۔ مگر اب ناخدا (ملاح) اپنے روایتی خاندانی پیشے سے دست بردار ہورہے ہیں اور دوسرے شہروں میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ماہی گیروں کے مقامی نمائندہ رہنما ناخدا عمر نے بتایا کہ ان کی روزی روٹی پر سیاسی لوگ قدغن لگا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پسنی کے مچھیروں کے لیے ایک فش ہاربر جیٹی بنائی گئی تھی لیکن جیٹی مٹی سے بھر چکی ہے وہاں کشتی کی جگہ اب جانور بندھے ہوتے ہیں ۔ایک بڑی عمارت جس میں مچھلیوں کی خرید و فروخت ہونا تھی وہ بھی ویران پڑی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
کراچی کا دسترخوان اور ماہی گیروں کے کھانے: ایک ثقافت کی اپنی بقا کی جنگ کی کتھا
"ہم کشتیوں میں پٹرول ڈلوا کر اور برف لاد کر شکار کے لیے نکلتے ہیں مگر کبھی پٹرول اور برف کے پیسے بھی پورے نہیں ہوتے۔ سمندر کو ٹرالنگ والوں نے مچھلیوں سے خالی کر دیا ہے۔ ان ٹرالنگ والوں کی پشت پناہی حکومتی لوگ کر رہے ہیں۔
ماہر سمندری حیات ظریف نوشیروانی کا کہنا ہے کہ اوور فشنگ یعنی مچھلیوں کے حد سے زیادہ شکار سے کئی اقسام کی آبی حیات معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ افزائش نسل کے وقت شکار سے بھی مچھلیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ آبی آلودگی کے باعث کئی اقسام کی سمندری مخلوق معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ اسی طرح پلاسٹک کے ممنوعہ جالوں کا استعمال بھی اس کا ایک بڑا سبب ہے۔ یہ پلاسٹک چار سے ساڑھے چار سو برس تک قدرتی نظام کا حصہ نہیں بن سکتا اور سمندر میں رہ کر آلودگی پھیلاتا رہتا ہے۔
تاریخ اشاعت 18 اگست 2023