بلند عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات، آخر گڑ بڑ کہاں ہے؟

postImg

راشد لغاری

postImg

بلند عمارتوں میں آگ لگنے کے واقعات، آخر گڑ بڑ کہاں ہے؟

راشد لغاری

چالیس سالہ روی تنبولی، حیدر آباد سول سپتال میں ملازم ہیں جو شہر کے گنجان آباد علاقے پٹھاں کالونی میں والدین کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ 10 اگست 2022ء کو گیس لیکیج سے ان کے گھر میں آگ بھڑک اٹھی جس میں ان کے بوڑھے والدین 30 سالہ بھائی ساگر، بہن اوشا اور ان کے دو بچوں سمیت خاندان کے 11 افراد زندہ جل گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کا خاندان دو منزلہ گھر میں رہتا ہے جہاں اہل خانہ نے گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث رات کو سلنڈر پر کھانا بنایا لیکن سوئی گیس کو بند کرنا بھول گئے۔

"صبح جاگنے سے پہلے ہی گھر میں گیس پھیل چکی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم پھر کیا ہو کہ آگ کے شعلوں نے پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس نے سب جلا کر راکھ کر ڈالا اور اور ہم والدین سمیت گھر کے 11 افراد سے محروم ہو گئے۔"

وہ یہ بھی شکوہ کرتے ہیں کہ آگ لگنے کے واقعے کے بعد فائر برگیڈ عملہ بھی بہت دیر سے پہنچا۔

حیدر آباد ہی میں گل سنٹر کے قریب ضلع کونسل کے ایک فلیٹ میں 23 فروری 2024ء کو اچانک آگ لگ گئی جس میں 50 سالہ علی حیدر جھلس کر دم تور گئے۔ متوفی کے پڑوس میں مقیم افرد بتاتے ہیں کہ اس آگ کی شدت زیادہ نہیں تھی اگر یہاں عمارت میں آگ بجھانے والے آلات نصب ہوتے تو اس پر قابو پایا جا سکتا تھا۔

بلدیہ حیدر آباد کے میونسپل کمشنر ظہور احمد لکھن تصدیق کرتے ہیں کہ فائر کال ریکارڈ کے مطابق جنوری 2022ء سے دسمبر 2022ء تک 537 آتش زدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ فروری 2023ءسے دسمبر 2023ء تک ان واقعات کی تعداد 354 رہی۔

تاہم ان کے بقول شہر میں فائر بریگیڈ ذمہ داری سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔

آگ لگنے کو واقعات صرف حیدر آباد میں نہیں ہوتے بلکہ گذشتہ سال کراچی میں مجموعی طور پر 98 افرد جھلس کر ہلاک ہو گئے تھے۔ صوبائی دارلحکومت میں نومبر 2023ء میں بھی ہولناک واقعہ ہوا جس میں 11 افراد کی جانیں چلی گئیں جبکہ چھ دسمبر 2023ء کو عائشہ منزل کے عرشی مال میں آتشزدگی سے 5 پانچ اموات ہوئیں۔

آتشزدگی کے بڑھتے واقعات کے چیلنجز کےحوالے سے فائر پروٹیکشن آف پاکستان (ایف پی اے پی) کی جانب سے پچھلے سال نومبر میں کراچی میں نیشنل فائر سیفٹی سپموزیم اینڈ رسک بیسڈ ایوارڈز کا انعقاد ہوا۔

 اس موقع پر فائر سیفٹی آلات فراہم کرنے والی کمپنی حسین حبیب کے نمائندے فواد بیری نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں اب تک ہونے والے آتشزدگی کے واقعات میں 15 ہزار اموات اور ایک کھرب روپے سے زائد کا مالی نقصان ہوا۔ جبکہ تقریباً ایک لاکھ 50 ہزار افراد جھلس کر زخمی ہو چکے ہیں۔

نگران صوبائی وزیر یونس ڈھاگا نے بھی کا کہنا تھا کہ یہاں 70 فیصد عمارتوں میں آگ سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے کا نظام ہی موجود نہیں ہے۔

پینتالیس سالہ رخسانہ، حیدر آباد کے علاقے قاسم آباد میں موجود آٹھ منزلہ عمارت ہیون پلازہ کی رہائشی ہیں لیکن وہ پریشان دکھائی دیں۔ کہتی ہیں کہ ان کی عمارت میں خدا نخواستہ اگر کبھی گیس یا شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی تو اس پر قابو پانے کے لیے کوئی انتظام یا آلات نصب نہیں ہیں۔

"ہم اس خوف میں مبتلا ہیں کیونکہ بلڈر نے بلند عمارت تو تعمیر کر لی ہے مگر اس میں آگ کا کوئی الارم ہے اور نہ ہی اس کو بجھانے کے آلات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ آگ بھڑک اٹھنے کی صورت میں باہر نکلنے کے لیےایمرجنسی گیٹ یا سیڑھی بھی نصب نہیں کی گئی۔"

لگ بھگ 23 لاکھ آبادی کے شہر حیدر آباد کے مرکزی علاقوں سٹی ایریا، لطیف آباد اور قاسم آباد میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی  اے) کی منظوری سے سینکڑوں بلند عمارتیں بن چکی ہیں اور کئی زیر تعمیر بھی ہیں جن میں آگ کو قابو پانے کے لیے کوئی انتظام نہیں ہے۔

رخسانہ کا کہنا ہے کہ ایس بی سی  اے حکام پر اکثر رشوت کے الزام لگتے رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسی بنیاد پر بلڈرز سے ان کی عمارتوں کی تکمیل پر ان میں آگ بجھانےکے آلات کی تنصیب کے حوالے سے نہ پوچھا جاتا ہو۔

ایس بی سی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عرس ڈاوچ کہتے ہیں کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بلڈنگ پلان میں آتشردگی سے بچاؤ کے پورے سسٹم کی موجودگی کا اطمینان ہونے کے بعد ہی پلان کی منظوری اور عمارت کی تعمیر کی جا سکتی ہے۔

 اس سلسلے میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی درخواست پر پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی) نے بلڈنگ کوڈ فائر سیفٹی پریونشن  پالیسی 2016ء میں تیار کی تھی جس کو قانون بنا کر نافذ کیا جا چکا ہے۔

یہ قانون نہ صرف ایمرجنسی ایگزٹس (دروازوں)کی موجودگی یقین بناتا ہے بلکہ اس کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ یہ کوڈ (بائی لا) نئی اور پہلے سے موجود دونوں طرح کی عمارتوں پر لاگو ہو گا۔

( اے) جن عمارتوں کو تعمیر کرنے کی نئی اجازت دی گئی ہو وہاں فوری طور پر اس قانون پر عمل کیا جائے گا۔

(بی) پہلے سے تعمیر شدہ عمارتیں جتنی جلدی ممکن ہو اس قانون کی تعمیل کریں لیکن عمل درآمد کی مدت تین سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔

(سی) آگ سے بچاؤ کی کم از کم ضروریات جیسا کہ فائر الارم کی فراہمی اور آگ کا پتہ لگانے اور آگ بجھانے والے آلات، ہنگامی ردعمل کا پلان مہیا کرنا۔ اس پر ایک سال سے زیادہ عرصہ نہیں لگنا چاہیے اور اس کی مشقیں کرائی جائیں گی۔

اس قانون کےآرٹیکل 7 کے تحت اگر کوئی شخص اس قانون کی تعمیل میں ناکام رہتا ہے یا اجازت نامے سے منسلک کسی شرط کی خلاف ورزی کرتا ہے تو متعلقہ اتھارٹی کے قواعد کے تحت سزا وار ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ہوائیوں کے رنگ اور پٹاخوں کے آہنگ میں ڈوبی آہیں اور سسکیاں: جڑانوالہ کی آتش بازی ساز فیکٹریاں اپنے مزدوروں کی موت کا باعث بننے لگیں۔

لیکن اس بلڈنگ کوڈ پر عمل ہوتا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ حیدر آباد میں رہائشی عمارتوں کے ساتھ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں بھی الارم، فائر فائٹنگ سسٹم یا ایمرجنسی فائر ایگزٹ موجود نہیں ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل سندح بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عبدالرشید سولنگی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ایس بی سی اے آگ بجھانےکے آلات نصب کرنے کے حوالے سے اسی قانون کے تحت ہی بلڈرز کو عمارتوں کی تعمیرات کی اجازت دیتی ہے۔

"ہم اس وقت تک کسی بلڈر کو تعمیرات کی اجازت نہیں دیتے جب تک وہ آگ بجھانے کے آلات نصب کرنے اور ایمرجنسی گیٹ لگانے کی تحریری ضمانت نہیں دیتا۔"

وہ بتاتے ہیں کہ ایس بی سی اے نے کثیر منزلہ عمارتوں میں آگ بجھانے کے آلات لگانے کے لیے حیدرآباد میں 50 سے زائد عمارتوں کو نوٹس دیے ہیں اور جنھوں نے سسٹم نصب نہیں کیا ان پر جرمانہ عائد کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ حیدر آباد میں آغا خان ہسپتال، انڈس ہوٹل اور بینکوں سمیت مختلف عمارتوں میں فائر فایئٹنگ سسٹم نصب کیا گیا ہے۔

حیدر آباد میں آگ بجھانے کے انتظامات کے حوالے سے فائر بریگیڈ کے انچارج جلال بتاتے ہیں کہ شہر میں فائر بریگیڈ کے پاس صرف ایک جدید سنارکل گاڑی ہے جس سے 100 فٹ بلند یا 12 منزلہ عمارت کی آگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے پاس مجموعی طور پر فائر بریگیڈ کی 15گاڑیاں اور 60 فائر فائٹرز موجود ہیں۔

فائر سیفٹی سسٹم سے متعلق سوال پر بلڈرز کی تنظیم 'آباد ' کے وائس چیئرمین ذوالفقار فاروقی کہتے ہیں کہ ماضی میں آگ بجھانے کا سسٹم موجود نہیں تھا لیکن آگ لگنے کے بڑھتے واقعات کے بعد صورت حال تبدیل ہوئی ہے۔

"ہم بلڈرز کو پابند کرتے ہیں کہ وہ فائر سیفٹی سسٹم ضرور نصب کریں۔ اس وقت جتنی بھی عمارتین بن رہی ہیں ان میں آگ پر قابو پانے کا سسٹم لگایا جا رہا ہے۔"

بلڈرز کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن اس تصدیق تب ہو گی جب بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کسی ایک عمارت کی تکمیلی رپورٹ جاری کرتے وقت اس میں موجود فائر سیفٹی سسٹم کی ڈرل کرائے گی۔

تاریخ اشاعت 30 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

راشد لغاری حيدرآباد سنده سے تعلق رکھتے ہیں. بطور رپورٹر صحافی. ماحولیات, انسانی حقوق اور سماج کے پسے طبقے کے مسائل کے لیے رپورٹنگ کرتے رہیں ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.