'پہلے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے، اب اس کی میت وطن واپس منگوانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے'

postImg

احتشام احمد شامی

postImg

'پہلے اپنے بیٹے کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے دئیے، اب اس کی میت وطن واپس منگوانے کے لیے ساڑھے تین لاکھ روپے'

احتشام احمد شامی

وسطی پنجاب کے شہر وزیر آباد سے 15 کلو میٹر دور ورپال چٹھہ گاؤں کے سمیع اللہ کا 19 سالہ بیٹا اظہر محمود اپنے دوست غلام عباس کے ساتھ پاکستان سے یورپ جانے کے لیے روانہ ہوا لیکن دونوں دوست زندہ سلامت واپس نہ آ سکے۔
دونوں کی میتوں کو پچھلے دنوں ان کے آبائی قبرستانوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

سمیع اللہ بتاتے ہیں کہ ان کے بیٹے کو عثمان علی نامی ایجنٹ نے کہا تھا کہ وہ اسے ایران کے رستے عراق لے جائے گا جہاں سے بہت سے نوجوان ان دنوں لیبیا جا رہے ہیں جو وہاں سے کشتی کے ذریعے اٹلی پہنچ جائیں گے۔

ایجنٹ نے انہیں عراق تک پہنچانے کے لئے ڈھائی لاکھ روپے مانگے اور کچھ رقم پیشگی وصول کی۔ اظہر کے دوست غلام عباس کو بھی اتنی ہی رقم میں باہر بھجوانے کا معاملہ طے پایا جو علی پور چٹھہ کا رہائشی تھا۔

سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ عراق سے آگے لیبیا پہنچانے کا معاملہ اگلا ایجنٹ طے کرتا ہے اور لوگوں کو لیبیا سے کشتی کے ذریعے اٹلی لے جایا جاتا ہے۔ کشتی کا کرایہ کشتی والے ایجنٹ کو ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس ایجنٹ نے بتایا تھا کہ ایک فرد کو اٹلی پہنچانے کا مجموعی خرچہ دس سے گیارہ لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔

''پہلے ایجنٹ نے ہمیں کہا کہ وہ لڑکوں کو ایرانی زائرین کی حیثیت سے ویزے لگوا کر دے گا اور پھر ایران سے آگے عراق اور یورپ تک 'ڈنکی' لگوائے گا۔ جب ڈھائی تین ماہ تک لڑکوں کی کوئی کال نہ آئی اور  نہ ہی یہ پتہ چلا کہ وہ کہاں تک پہنچے ہیں تو اہل خانہ کو تشویش ہوئی اور انہوں نے بار بار ایجنٹ سے رابطے کیے۔ شروع میں تو ایجنٹ ٹال مٹول کرتا رہا تاہم مسلسل اصرار پر اس نے ہمیں بتا دیا کہ دونوں لڑکے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔''

سمیع اللہ نے بتایا کہ جب ایجنٹ سے میتیں واپس منگوانے کا مطالبہ کیا تو اس نے معذوری ظاہر کر دی اور کہا کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔

"راہوالی کے ایک شخص نے دونوں لڑکوں کی میتیں پاکستان واپس لانے کے لئے ہم سے ساڑھے تین لاکھ روپے لئے اور ایران جا کر میتیں واپس لایا۔''

اس واقعے میں جاں بحق ہونے والے غلام عباس کے والد محمد اشفاق آٹے کی چکی چلاتے ہیں۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جن میں غلام عباس سب سے بڑا تھا۔

محمد اشفاق نے بتایا کہ ایجنٹ انہی کے علاقے کا ہے جوکہ مبینہ طور پر لڑکوں کو بار بار یورپ کے سہانے خواب دکھاتا اور کہتا تھا کہ پاکستان میں تمہاری زندگی برباد ہو رہی ہے، اصل زندگی تو یورپ میں ہے۔

"غلام عباس نے ایسی باتیں سن کر باہر جانے کی ضد شروع کر دی تھی۔ وہ ہمیں مجبور کرتا اور کہتا کہ میں باہر جاکر اپنے مالی حالات بہتر بنانے کے بعد چھوٹے بھائیوں کو بھی وہیں بلا لوں گا"۔

اشفاق کہتے ہیں کہ وہ  بیٹے کے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کے حق میں نہیں تھے لیکن اس کی ضد کے سامنے ہار گئے۔

انہوں نے بتایا کہ جو شخص ایران سے لاشوں کو پاکستان لایا ہے اس کے مطابق عراق میں پہاڑی علاقے میں چڑھائی کے دوران ایک لڑکے کا پاؤں ٹوٹ گیا تھا۔ غلام عباس اور اظہر حسین اس کی مدد کرتے رہے اور اپنے قافلے سے کافی پیچھے رہ گئے۔ پہاڑوں پر آکسیجن کی کمی اور برف باری کے باعث دم گھٹنے سے ان کی موت واقع ہو گئی۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس پر یہی لکھا ہے کہ عراق میں شدید سردی اور برف باری کے باعث ان کی موت واقع ہوئی۔ ان کے جسموں پر تشدد یا گولی کا کوئی نشان نہیں تھا۔

پاکستان میں روزگار کے لئے یورپ جانے کا سلسلہ 70ء کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب حکومت نے شہریوں کے لیے پاسپورٹ کی سہولت عام کر دی تھی۔ 80 کی دہائی میں روزگار کے لئے بیرون ملک جانے کا رحجان عروج پر پہنچ گیا تھا۔ اس دوران گوجرانوالہ، گجرات ، منڈی بہاءالدین، سیالکوٹ، حافظ آباد اور نارووال سمیت وسطی پنجاب کے اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے یورپ پہنچے۔ ان لوگوں نے بیرون ملک کمائی کر کے اپنے آبائی علاقوں میں عالیشان مکان تعمیر کئے اور اپنی خوشحالی کا اظہار کیا۔

انسانی حقوق پر کام کرنے والی قانون دان شکیلہ سلیم رانا کہتی ہیں کہ ان لوگوں کی کامیاب زندگی کو دیکھ کر مقامی نوجوانوں میں بھی اپنی قسمت بدلنے کی خواہش نے جنم لیا جو اس مقصد کے لئے ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھے۔ ان کے ساتھ بہت سے ایسے گروہ بھی منظم ہو گئے جو اُن لوگوں کو غیرقانونی طریقے سے باہر بھجوانے کا کام کرنے لگے جن کے لئے قانونی طریقے سے جانا ممکن نہیں تھا۔

''گزشتہ تین عشروں میں سیکڑوں افراد کے لئے یورپ کا سفرِ معاش سفرِ آخرت ثابت ہوا  لیکن بیرون ملک جانے کا جنون اس قدر زیادہ ہے کہ ایجنٹوں کے پاس مغربی ممالک میں جانے کے خواہش مند لوگوں کی کبھی کمی نہیں ہوئی۔''

انسانی سمگلنگ کی روک تھام وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ذمہ داری ہے جس کے گوجرانوالا اور گجرات میں قائم زونل دفاتر میں ہر ماہ سیکڑوں متاثرین کی درخواستیں آتی ہیں۔

ایف آئی اے قوانین کے ماہر شہروز شبیر چوہان ایڈووکیٹ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انسانی سمگلنگ کی زیادہ سے زیادہ سزا 14 سال قید ہے۔ ریکارڈ کے مطابق پچھلے ایک سال کے عرصے میں گوجرانوالہ اور گجرات کے زونل دفاتر نے انسانی سمگلنگ کے 300 سے زیادہ مقدمات درج کر کے 415 سمگلروں کو گرفتار کیا جن میں 45 مختلف مقدمات میں اشتہاری جبکہ چھ ریڈ بک کے ملزم شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گوجرانوالہ میں ڈبل شاہ ایپ 'آئی ڈی اے' لوگوں کے کروڑوں روپے لوٹ کر غائب

اس طرح کے کیسوں میں زیادہ تر راضی نامہ ہو جاتا ہے یا ملزم ٹھوس شواہد نہ ہونے یا استغاثہ کی کمزوری کے باعث بچ جاتے ہیں تاہم بعض مقدمات میں ملزموں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران گوجرانوالہ اور گجرات کے زون کی عدالتوں میں 55 انسانی سمگلروں کو قید و جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔''

ایف آئی اے ہر سال ایک ریڈ بک جاری کرتا ہے جس میں ان انسانی سمگلروں کا ریکارڈ شامل کیا جاتا ہے جن کے خلاف پاکستان سمیت دوسرے ممالک سے سنگین نوعیت کی شکایات موصول ہوئی ہوں۔

ریڈ بک میں اس وقت 115 انتہائی مطلوب انسانی سمگلروں کا ڈیٹا موجود ہے جن میں سے 57 کا تعلق وسطی پنجاب کے اضلاع سے ہے۔ گزشتہ سال ریڈ بک میں شامل صرف 11 انسانی سمگلروں کو ہی گرفتار کیا جا سکا جن میں سے سات کا تعلق پنجاب سے تھا اور چار اسلام آباد کے رہائشی تھے۔

سمیع اللہ کہتے ہیں کہ لڑکوں نے آخری مرتبہ ایران سے پاکستان میں اپنے گھر والوں کے ساتھ فون پر رابطہ کیا تھا۔ دونوں بہت خوش تھے اور بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ دعا کریں کہ ہم جلد اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔''
سمیع اللہ افسردہ لہجے میں کہتے ہیں ''کسے پتہ تھا کہ جسے وہ اپنی منزل کہہ رہے ہیں وہ یورپ نہیں بلکہ موت ہے۔''

تاریخ اشاعت 3 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

احتشام احمد شامی کا تعلق وسطی پنجاب کے شہر گوجرانوالہ سے ہے۔ لوک سُجاگ کے علاؤہ وہ بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور فری لانس کام کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.