طبی کچرے کی غیر قانونی فروخت: ہسپتالوں کا پیدا کردہ زہریلا کوڑا برتنوں کا خام مال بننے لگا۔

postImg

تنویر احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

طبی کچرے کی غیر قانونی فروخت: ہسپتالوں کا پیدا کردہ زہریلا کوڑا برتنوں کا خام مال بننے لگا۔

تنویر احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

محمد اقبال* طِبی مراکز میں پیدا ہونے والے کوڑے سے پلاسٹک بنانے کے کاروبار کو 'نالی تھیلی' کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس عمل میں بنیادی طور پر دوائیوں کی تھیلیاں، بوتلیں، ان کے ساتھ لگی نالیاں اور ٹیکے لگانے والی سرنجیں استعمال ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ طِبی استعمال کی اِن اشیا  میں اعلیٰ معیار کے اجزائے ترکِیبی استعمال ہوتے ہیں لہٰذا انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر ان سے روز مرہ استعمال کی اشیا، جیسے پلاسٹک کی پلیٹیں، چمچ  اور بچوں کے فیڈر وغیرہ، بنائے جاتے ہیں۔ 

45 سالہ محمد اقبال، جو خود بھی گزشتہ دس سال سے لاہور میں پلاسٹک دانہ بنانے کا کام کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ طِبی کوڑا کِرکٹ سستے داموں مل جاتا ہے اس لئے اس سے گھریلو استعمال کی اشیا بنانا ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ ان کے مطابق پنجاب کے مختلف شہروں میں یہ کوڑا 135 روپے سے 180 روپے فی کلو گرام کے حساب سے فروخت ہوتا ہے لیکن جس کوڑے پر خون اور دوسری آلائشیں لگی ہوتی ہیں اس کی قیمت اس سے بھی کم ہوتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور میں اس کوڑے کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا کام بند روڈ، شاہدرہ، سِنگھ پورہ، مصری شاہ اور ساندہ جیسے غریب طبقے کے رہائشی علاقوں میں ہو رہا ہے جبکہ اس کے پلانٹ لوگوں نے گھروں کے اندر لگا رکھے ہیں۔

کوڑے سے پلاسٹک کی اشیا تک کا سفر

طِبی مراکز میں دو طرح کا کوڑا پیدا ہوتا ہے: عام کچرا جس میں مٹی، درختوں کے گرے ہوئے پتے، کاغذ، لفافے، کھانے پینے کی بچی کھچی اشیا اور ان کے ڈبے وغیرہ شامل ہوتے ہیں؛ اور علاج معالجے کے دوران پیدا ہونے والا کوڑا جسے انسانی صحت کے لئے ضرر رساں (یا infectious) سمجھا جاتا ہے۔ عالمی ادارہِ صحت کے معیار کے مطابق طِبی مراکز میں پیدا ہونے والے ہر 100 کلو گرام کوڑے میں سے 30 کلو گرام کوڑا ضرر رساں ہوتا ہے جسے ایک سائنسی طریقے سے جلایا جانا ضروری ہے۔ 

اس کوڑے میں سرجری کے آلات، نِشتر، سوئیاں، پٹیاں، سرنجیں، پیشاب اور خون کی تھیلیاں، ٹیکے لگانے کی نالیاں اور ٹوٹی ہوئی شیشیاں شامل ہوتی ہیں۔ اکثر اس میں انسانی اعضا، خون، ہڈیاں، گوشت، ناخن اور جسمانی رطوبتیں، ادویات اور کیمیائی اجزا بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں اگر مناسب طریقے سے تلف نہ کیا جائے تو وہ بیماریاں پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس طِبی فضلے کو محفوظ طریقے سے تلف کرنے کے لئے سرکاری ہسپتالوں اور بڑے نِجی طِبی مراکز میں تو کسی نا کسی حد تک انتظامات موجود ہیں لیکن چھوٹے نِجی کلینکوں اور چھوٹی لیبارٹریوں میں مناسب انتظامات کا فقدان ہے یہاں کا طِبی کوڑا یا تو عام کوڑے کے طور پر غیر محفوظ طریقے سے تلف کیا جاتا ہے جس کے باعث اس کے مضر اثرات کا زیرِ زمین پانی میں پہنچنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے یا پھر یہ کوڑا اٹھانے والوں اور کباڑیوں کے ذریعے ان گھریلو صنعنتوں تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔

اسی طرح بڑے شہروں کی نسبت چھوٹے قصبوں اور دیہاتی علاقوں کے طِبی مراکز میں پیدا ہونے والے کوڑے کے غیر مناسب استعمال کا امکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان جگہوں پر مؤثر حکومتی نگرانی اکثر و بیشتر نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ پلاسٹک کا دانہ بنانے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کے دوسرے شہروں اور کراچی سے بھی طِبی کوڑا لاہور میں منگایا جا رہا ہے لیکن اس کی نقل و حمل سے پہلے اس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹا اور توڑا جاتا ہے تاکہ یہ پتہ ہی نہ چل سکے کہ اس میں کیا کچھ شامل ہے۔  

محمد اقبال کے مطابق 'دوسرے شہروں سے آیا ہوا یہ کوڑا استعمال کرنا اس لئے آسان ہے کہ لیبارٹری ٹیسٹ کیے بغیر پتہ ہی نہیں چلایا جا سکتا کہ یہ اصل میں ہے کیا'۔ عام طور پر اس کوڑے کی قیمت اڑھائی سو روپے فی کلو گرام تک ہوتی ہے۔ 

تاہم لاہور میں مقامی طور پر بھی طِبی کوڑے کی خرید و فروخت جاری ہے اگرچہ کچھ سال پہلے کی طرح اب یہ کاروبار کھلم کھلا نہیں ہو رہا بلکہ چھپ چھپا کر کیا جا رہا ہے کیونکہ، محمد اقبال کے بقول، متعدد سرکاری محکمے شہر کے اندر اس کی نقل و حمل اور تلفی کی نگرانی کر رہے ہیں جن میں صوبائی محکمہِ ماحولیات اور صوبائی محکمہِ صحت سرِ فہرست ہیں۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ طبی کوڑے کو دوبارہ قابلِ استعمال پلاسٹک کی شکل دینا کسی فردِ واحد کے لئے ممکن نہیں۔ 'اس میں ایک پورا گروہ ملوث ہوتا ہے جس میں ہسپتالوں کا انتظامی عملہ،  ہسپتالوں میں صفائی کا کام کرنے والے لوگ، کوڑا اٹھانے اور بیچنے والے افراد اور کوڑے کو پلاسٹک کی اشیا میں تبدیل کرنے والے صنعت کار سبھی شامل ہوتے ہیں'۔

حالیہ سالوں میں اس گٹھ جوڑ کے کئی ثبوت سامنے آئے ہیں۔

اس ضمن میں ایک اہم واقعہ 2008 میں پیش آیا جب سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور اور محکمہ ماحولیات پنجاب نے لاہور کے چلڈرن ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ خالد شاہ کو طِبی کوڑا فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا کیونکہ وہ اِس کوڑے کو چلڈرن ہسپتال میں موجود بھٹی میں پھینکنے کے بجائے ٹرک میں ڈال کر کسی اور جگہ منتقل کر رہا تھا۔

ہسپتالوں کے کوڑے کی نقل و حمل اور مناسب تلفی کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔

اسی طرح جون 2019 میں لاہور کے علاقے مالی پورہ میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی نشاندہی پر ایک فیکٹری سے طِبی کوڑے کے 25000 تھیلے ضبط کیے گئے۔ اسی سال ستمبر میں ملتان کے ڈپٹی کمشنر اور پنجاب کے محکمہ ماحولیات نے ماحولیات کی مقامی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا کہ ملتان میں نِجی طبی مراکز کے پیدا کردہ کوڑے کو تلف کرنے کی ذِمہ دار تنظیم ایسوسی ایشن آف ہاسپٹلز فار سیفٹی میژرز ایڈوانسز اینڈ نیشنل ہیلپ کے صدر ڈاکٹر مشتاق احمد کے خلاف جعل سازی کے جرم میں عدالتی کارروائی کی جائے۔ 

یہ تنظیم کئی سال پہلے ملتان میں نِجی ہسپتال اور کلینک چلانے والے ڈاکٹروں نے قائم کی تھی اور 100 مقامی طِبی مراکز سے طِبی کوڑا اکٹھا کر رہی تھی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یہ طِبی کوڑے کو محفوظ طریقے سے جلانے کے بجائے اس میں موجود پلاسٹک کی اشیا فروخت کر رہی تھی جنہیں بعد میں لاہور  لے جا کر ان سے فِیڈر، برتن اور مشروب پینے والے پائپ تیار کئے جا رہے تھے۔ 

ڈاکٹروں کی تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے لاہور کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ طِبی کوڑے کی نقل و حمل اور تلفی کی مناسب نگرانی نہیں کی جا رہی۔ ان کے مطابق ہسپتالوں میں طِبی کوڑے کو دوسرے کوڑے سے علیحدہ کرنے کے دوران ہی 'ہیرا پھیری شروع ہو جاتی ہے جس میں ہسپتالوں کا عملہ بھی ملوث ہے جن کی مدد سے کچھ لوگ راتوں رات کوڑا چوری کر لیتے ہیں'۔

پنجاب میں طِبی کوڑے کی تلفی کا ذمہ دار کون؟ 

تیس سالہ محمد افراہیم* ایک ڈبہ نما کمرے میں دروازہ بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ وہ اس بدبو سے بچ سکیں جو ملحقہ بھٹی (incinerator) میں طِبی کوڑا جلانے سے پیدا ہو رہی ہے۔ ان کے کمرے میں سرجری کے کچھ آلات پڑے ہیں جو انہوں نے جلے ہوئے کوڑے کی راکھ سے نکالے ہیں۔ ان کے آس پاس تاریں اور دیگر دھاتی اشیا بھی پڑی ہوئی ہیں جو بھٹی میں جل نہیں سکیں۔ 

یہ بھٹی گوجرانوالا ڈویژن کے ایک دیہی مرکزِ صحت میں نصب ہے۔ محمد افراہیم اس کے آپریٹر ہیں۔ 

بھٹی والے کمرے میں ایک کانٹا پڑا ہے جس پر کوڑے کا وزن کیا جاتا ہے۔ محمد افراہیم روزانہ یہ وزن ایک رجسٹر پر درج کرنے کے بعد اس کی رپورٹ اپنی کمپنی میڈی لینڈ پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ کے لاہور میں واقع مرکزی دفتر میں پہنچا دیتے ہیں۔

تاہم یہ بھٹی ایک دوسری کمپنی آرار گروپ کی ملکیت ہے جو پنجاب کے مختلف حصوں میں اس طرح کی متعدد بھٹیاں چلاتا ہے۔ اس کے باہر ایک پیلے رنگ کی گاڑی کھڑی ہے جو لاہور سے طِبی کوڑا یہاں پہنچاتی ہے۔ یہ کوڑا جلائے جانے سے پہلے پیلے رنگ کے ایک کمرے میں رکھا جاتا ہے جو اس کوڑے کی مخصوص زہریلی بدبو سے بھرا پڑا ہے۔

اس کمرے میں کوڑے کے درجنوں پیلے تھیلے پڑے ہیں جن پر چِسپاں نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کہاں سے بھیجے گئے ہیں۔ 

محمد افراہیم کہتے ہیں کہ اِن تھیلوں میں پڑا ہوا کوڑا اس وجہ سے نہیں جلایا جا سکا کہ دو دن سے گیس دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بھٹی چلائی نہیں گئی۔ ان کے مطابق بھٹی کی کوڑا جلانے کی صلاحیت 100 کلو گرام فی گھنٹہ ہے لیکن 'اس وقت ہم اس میں ایک گھنٹے میں 50 سے 70 کلو گرام کوڑا جلاتے ہیں'۔ 

افراہیم عام کوڑے اور طِبی کوڑے کے علیحدہ علیحدہ نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ طِبی کوڑے میں پلاسٹک کی عام بوتلیں، شیشے کی بوتلیں اور لوہے  اور دوسری دھاتوں کا سامان بھی بڑی مقدار میں موجود ہوتا ہے جبکہ سرکاری قواعد کے مطابق بھٹی میں صرف ضرر رساں طِبی فضلہ جلایا جانا چاہئے۔

اگرچہ اس طرح کی بھٹیاں پنجاب بھر میں قائم ہیں لیکن پروفیسر اشرف نظامی کے بقول لاہور میں ان کی تعداد صرف دو ہے۔ ان میں سے ایک چلڈرن ہسپتال میں لگی ہوئی ہے (جسے مرمت کی اشد ضرورت ہے) جبکہ دوسری ایک پرائیویٹ طبی مرکز شالامار ہسپتال میں موجود ہے۔ 

اس صورتِ حال کو تبدیل کرنے کے لئے سرکاری شعبے میں قائم لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے جون 2017 میں پنجاب کے منصوبہ سازی اور ترقیات کے محکمے کو ایک منصوبہ پیش کیا جس کے تحت لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں میں طِبی کوڑے کو اکٹھا کرنے اور اسے سائنسی طریقے سے تلف کرنے کے انتظامات کیے جانے تھے۔ اس منصوبے پر لاگت کا تخمینہ  71 کروڑ 58 لاکھ 44 ہزار تین سو چار روپے لگایا گیا تھا۔ منصوبہ سازی اور ترقیات کے محکمے نے اس کی منظوری بھی دے دی لیکن لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ترجمان کے مطابق یہ منصوبہ اس لئے آگے نہیں بڑھ سکا کہ پنجاب کا محکمہِ صحت اس کو خود روبہ عمل لانا چاہتا تھا۔ 

اس منصوبے کی عدم موجودگی میں طِبی کوڑے کی تلفی 2014 میں بنائے جانے والے قواعد و ضوابط کے تحت کی جا رہی ہے جن کی رو سے ہر ہسپتال اور طبی مرکز  کسی نِجی کمپنی کو اس کام کا ٹھیکہ دے دیتا ہے۔

محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان حماد رضا کہتے ہیں کہ 2014 کے قواعد کے مطابق طِبی کوڑا جمع کرنے کے لئے ان کے محکمے نے ہسپتالوں میں پیلے کمرے قائم کئے ہیں اور اس کی نقل و حمل کے لئے ہسپتالوں کو پیلی گاڑیاں فراہم کر رکھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'اب یہ بھی یقینی بنایا جا رہا ہے کہ ان گاڑیوں کے راستے معمول کے راستوں سے ہٹ کر ہوں تا کہ ان کی نقل و حمل کو مزید محفوظ بنایا جا سکے'۔

لیکن پروفیسر اشرف نظامی کے بقول اس انتظام میں دو اہم کمزوریاں ہیں۔ ایک یہ کہ 'پیلے کمرے اور پیلے تھیلے تو ہر سرکاری ہسپتال میں فراہم کر دیے گئے ہیں لیکن مضرِ صحت طِبی کوڑے کو عام کوڑے سے علیحدہ کرنے کا سائنسی انتظام کہیں موجود نہیں'۔ دوسرا یہ کہ 'اس میں ٹھیکے دار کمپنیوں کی نگرانی کا کوئی طریقہ کار مقرر نہیں'۔

اس حوالے سے ایک اہم انکشاف 2019 میں سامنے آیا جب قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا کہ پنجاب کے ہسپتالوں میں کام کرنے والی ایک کمپنی علی ٹریڈرز ویسٹ مینجمنٹ کمپنی طِبی کچرے کو سائنسی بنیادوں پر تلف نہیں کر رہی بلکہ جعل سازی کر کے اس سے پیسے کما رہی ہے۔

اگست 2020 میں نیب نے کمپنی کے چیف ایگزیکٹو محمد نصیر کو گرفتار بھی کر لیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے تین اہل کاروں سے مِلی بھگت کر کے  کوئی نئی مشینری لگائے بغیر ہی اپنی کمپنی کی ایک گھنٹے میں طِبی کوڑا جلانے کی صلاحیت ایک 100 کلو گرام سے بڑھا کر چار سو کلو گرام کرا لی۔ 

لیکن اپنے چیف ایگزیکٹو کی گرفتاری کے باوجود علی ٹریڈرز ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ابھی بھی سرکاری ہسپتالوں کا طِبی کوڑا تلف کرنے کا کام کر رہی ہے۔ کمپنی کے نمائندوں گلفام شہزاد ایڈووکیٹ اور راجہ طاہر محمود کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کریں گے کیونکہ 'ہمارا کیس عدالت میں ہے اور ہمارا کوئی بھی بیان ہمارے کیس پر اثر انداز ہو سکتا ہے'۔ 

 دوسری طرف محکمہِ صحت کے ترجمان حماد رضا کا کہنا ہے کہ کمپنی کے موجودہ ٹھیکے اس لئے ختم نہیں کیے گئے کیونکہ اس کیس میں ابھی تفتیش ہو رہی ہے۔ ان کے مطابق 'اس معاملے میں تحقیقاتی ادارہ یا عدالت ہم سے جو بھی معلومات مانگے گے ہم دیں گے اور عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس پر عمل درآمد کریں گے'۔

٭شناخت ظاہر نہ کرنے کے لیے نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 3 فروری 2021  کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔

تاریخ اشاعت 9 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

تنویر احمد شہری امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے ایم اے او کالج لاہور سے ماس کمیونیکیشن اور اردو ادب میں ایم اے کر رکھا ہے۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.