"قاتلوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ بچ جائیں گے": سوات میں ساڑھے تین برس میں 34 افراد غیرت کے نام پر قتل

postImg

وقار احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"قاتلوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ بچ جائیں گے": سوات میں ساڑھے تین برس میں 34 افراد غیرت کے نام پر قتل

وقار احمد

loop

انگریزی میں پڑھیں

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں قتل ہونے والی ایک خاتون کی سڑک پر پڑی لاش کے قریب اس کا کم سن بیٹا رو رہا ہے۔ ضلع سوات کے شہری علاقے مینگورہ میں پیش آنے والے اس واقعے میں گھریلو ناچاقی پر اختر علی نے بیٹے کے سامنے اپنی بیوی کا مبینہ قتل کیا۔

مقتولہ نائلہ اور اختر علی کی شادی 2014 میں ہوئی۔ ان کے بچوں میں بیٹی سپوگمئی سات سال اور بیٹا وصال پانچ سال کا ہے۔ گھریلو ناچاقی اور تنازعات کے باعث 2019ء میں نائلہ اپنے میکے چلی گئیں اور تب سے آس پاس کے گھروں میں کام کر کے گزر بسر کر رہی تھیں۔

کام پر جاتے ہوئے وہ دونوں بچوں کو ان کے ننھیال چھوڑ جایا کرتیں۔ رواں سال پانچ ستمبر کو بیٹے نے ضد کی کہ کام پر جاتے ہوئے اسے بھی ساتھ لے جائے۔ وہ اسے ساتھ لے کر جا رہی تھیں کہ شوہر نے فائرنگ کر کے انہیں قتل کر دیا۔ پولیس نے ملزم کو موقع ہی پر آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا۔

اس واقعے نے سوشل اور مین سٹریم میڈیا کی توجہ حاصل کر لی۔ تاہم سوات میں عورتوں کے خلاف اس نوعیت کے جرائم کو ذرائع ابلاغ میں عموماً کم ہی جگہ ملتی ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کے بارے میں سوات پولیس سے معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں ایک مرد اور تین عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، جس پر تین ملزمان گرفتار ہوئے۔

 2021ء میں چھ مردوں اور پانچ عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل اور 13 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

 2022ء میں نو مردوں اور سات عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، جس پر 25 ملزمان گرفتار ہوئے۔

رواں سال جون تک تین عورتیں غیرت کے نام پر قتل کی جا چکی ہیں جبکہ پانچ ملزمان گرفتار ہوئے ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے متحرک غیر سرکاری تنظیم دی اویکننگ کے مختلف ذرائع سے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ضلع سوات میں 2020ء میں 29 افراد، 2021ء میں 18، 2022ء میں 15 اور 2023ء میں جون تک 26 افراد غیرت کے نام پر قتل کیے گئے۔

تنظیم کے ڈائریکٹر عرفان حسین بابک کے مطابق ایسے واقعات میں بیشتر قاتل سزا سے بچ جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سوات کے ایک علاقے میں شادی کے تین چار دن بعد ہی شوہر نے نوجوان بیوی کو قتل کر دیا۔ انہوں نے اپنے وکیل کے ہمراہ اس کیس کی پیروی شروع کی۔ کچھ ہی عرصے بعد مقتول لڑکی کے خاندان نے صلح کر لی اور مبینہ طور پر لاکھوں روپے لے کر قاتل کو معاف کر دیا۔

شوکت سلیم خان ایڈووکیٹ 1998ء سے انسانی حقوق کمیشن کی کور کمیٹی کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کے عدالتی نظام کی سست روی، تفتیش کے ناقص معیار، تفتیشی عملے کے پاس وسائل کی کمی اور عورتوں کے خلاف امتیازی رویوں کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ گردانتے ہیں۔

"عام لوگ عدالتی عمل میں پڑنے، وکیل کرنے، پیشیوں پر حاضری دینے اور گواہ بننے سے کتراتے ہیں۔ پولیس کو جائے وقوعہ کا نقشہ مرتب کرنے، شہادتی مواد اکٹھا کرنے میں بھی تعاون نہیں ملتا۔ دوسری جانب متاثرہ خاندان کے ساتھ پولیس کا غیر مناسب رویہ اور ہمدردی حاصل نہ ہونا ان کی کیس میں عدم دلچسپی کا سبب بنتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ غیرت کے نام پر الگ قانون سازی ہوئی ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مرد کی بالا دستی ہے اور عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ سماجی مسئلہ قانون پر عمل درآمد میں بڑی رکاوٹ ہے۔

نیلم رحیم ایڈووکیٹ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل کی خبروں کو بعض اوقات دبا دیا جاتا ہے۔

"کئی واقعات میں غیرت کے نام پر قتل کو خودکشی کا رنگ دیا گیا۔ جب ہم موقع پر پہنچے تو خاندان والے کہنے لگے کہ ہماری عزت کا سوال ہے۔"

نیلم رحیم نے کہا کہ مجرمان کو سزا نہ ملنے سے ایسے واقعات زیادہ تعداد میں ہونے لگے ہیں کیونکہ قاتلوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ بچ جائیں گے۔

"عموماً غیرت کے نام پر قتل بھائی، شوہر یا گھر کا کوئی اور فرد کرتا ہے۔ چونکہ مدعی اسی گھر کے ہوتے ہیں، اس لیے معاف کر دیتے ہیں۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

قبائلی اضلاع میں بڑی تعداد میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کیوں سامنے آنے لگے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ قدامت پرست روایات کے باعث اکثر اوقات رشتہ طے کرتے وقت لڑکی کی رائے نہیں لی جاتی۔ اعتراض کرنے پر کہا جاتا ہے کہ عورت سے پوچھنا ہمارا کلچر نہیں ہے۔ ایسی شادیوں سے بعدازاں گھریلو ناچاقیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین قانون کے مطابق قتل کی دفعات میں سے دفعہ 302 قابل صلح ہے۔ دفعہ 311 لگنے کی صورت میں پولیس اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرتی ہے۔ البتہ غیرت کے نام پر قتل میں اکثر دفعہ 311 نہیں لگائی جاتی۔

عرفان حسین کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کے مقدمے میں سی آر پی سی کی دفعہ 311 لگ جائے تو جرم ثابت ہونے پر سخت سزا ہو جاتی ہے۔

 ضلعی پولیس آفیسر (ڈی پی او) شفیع اللہ خان گنڈا پور اس بارے میں کہتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل جیسے جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کیا جائے۔ والدین اپنے بچوں کی رضامندی اور رائے لیے بغیر ان کی شادی نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی بالغ کی زبردستی شادی کی جا رہی ہو تو وہ قریبی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرے تاکہ ممکنہ پیچیدگیوں کا بروقت ازالہ کیا جا سکے۔

تاریخ اشاعت 18 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

وقار احمد کا تعلق ضلع سوات سے ہے، انہوں ںے میڈیا اینڈ ماس کمیونکیشن میں ایم فل کیا ہے ماحولیات، انسانی حقوق،تعلیم ،الیکشن اوردیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.