برقی کھڈیوں پر کپڑا بننے والے مزدور محمد رمضان 28 مئی 2020 کو سو رہے تھے کہ کسی نے آدھی رات کے وقت ان کے گھر کا مرکزی دروازہ بری طرح پیٹنا شروع کر دیا۔
جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ان کے سامنے ان کا محلے دار رانا رفاقت علی اپنی بیوی اور چند مسلح افراد کے ہمراہ کھڑا تھا۔ وہ اونچی آواز میں گالیاں دیتے ہوئے ان کے گھر میں داخل ہوا اور کمروں کی تلاشی لینے لگا۔ اس دوران اس نے غضب ناک انداز میں ان سے پوچھا کہ ان کا بیٹا حامد اور ان کی بہو فوزیہ کہاں ہیں۔
فیصل آباد کے علاقے امداد ٹاؤن میں رہنے والے محمد رمضان کے مطابق ان کے 24 سالہ بیٹے حامد نے 19 فروری 2020 کو رانا رفاقت علی کی 21 سالہ بیٹی فوزیہ سے اس کے والدین کی اجازت کے بغیر شادی کر لی تھی جس پر اس کے خاندان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس رات ان کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد رانا رفاقت علی نے "مجھے خبردار کیا کہ اگر 12 گھنٹے میں میں نے ان دونوں کو اس کے حوالے نہ کیا تو وہ مجھے اور میرے گھر والوں کو قتل کر دے گا"۔
اگلے دن رانا رفاقت علی کے سالے عثمان مَنج نے محمد رمضان کو فیصل آباد میں واقع اپنے ڈیرے پر طلب کر کے پوچھا کہ حامد اور فوزیہ کہاں چھپے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "جب میں نے ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تو مجھے گالیاں دی گئیں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا"۔
اُسی روز انہیں زبردستی ایک نواحی گاؤں گلاں-83 لے جایا گیا جہاں رانا رفاقت علی اور عثمان منج کی برادری کے بااثر لوگ رہتے ہیں۔ وہاں انہیں اس قدر ڈرایا دھمکایا گیا کہ انہوں نے بالآخر کہہ دیا کہ ان کا بیٹا اور بہو ضلع چِنیوٹ کی تحصیل بھوانہ کے ایک گاؤں میں رہ رہے ہیں۔
رانا رفاقت علی اور عثمان مَنج نے اسی وقت محمد رمضان کو ساتھ لیا اور مذکورہ گاؤں جا پہنچے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ان دونوں نے مجھے آگے کر کے حامد کے گھر کا دروازہ کھلوایا اور اندر داخل ہو کر مجھے اور میرے بیٹے کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا"۔ اسی دوران فوزیہ بھی کمرے سے باہر آ گئی اور اس نے اپنے والد اور ماموں کو منع کیا کہ "وہ ہمیں نہ ماریں کیونکہ اس نے اپنی مرضی سے حامد سے شادی کی ہے۔ یہ سن کر وہ اُس پر بھی تشدد کرنے لگے"۔
رات گئے وہ حامد اور فوزیہ کو زبردستی فیصل آباد لے آئے۔
ایک روز بعد رات پونے دس بجے کے قریب محمد رمضان عثمان مَنج کے ڈیرے پر گئے اور اس سے درخواست کرنے لگے کہ وہ ان کے بیٹے کو چھوڑ دے۔ ان کے مطابق ان کی منت سماجت کے جواب میں اس نے حامد کو اپنے گھر سے بلایا اور اسے دیکھتے ہی رانا رفاقت علی کے بھائی رانا شوکت علی کے ساتھ مل کر اس پر فائرنگ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔
کچھ دیر بعد رانا شوکت علی نے انہیں بتایا کہ فوزیہ کو بھی مار دیا گیا ہے۔
پولیس نے بعدازاں دونوں ملزموں کو گرفتار کر لیا لیکن ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود یہ مقدمہ تاحال فیصل آباد کی ایک عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔
اِسی طرح کے ایک اور واقعہ میں فیصل آباد کی رہائشی دو چچا زاد بہنوں کو پچھلے سال مبینہ طور پر 'غیرت' کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ مقامی اخبارات میں چھپنے والی رپورٹوں کے مطابق 29 جولائی 2021 کو 19 سالہ سمیعہ اور 17 سالہ سعدیہ ایک مرد کے ساتھ ایک ریستوران میں کھانا کھا رہی تھیں کہ ان کے ایک ہمسائے نے انہیں دیکھ لیا۔ اس نے فوراً فون کر کے یہ خبر سمیعہ کے والد محمد ظفر کو دی جو وہاں پہنچ کر اپنی بیٹی اور بھتیجی کو گھر لے گئے۔
اسی رات سعدیہ کے والد مظہر حسین نے اپنے دوسرے بھائی محمد صفدر کے ساتھ مل کر دونوں لڑکیوں کو گلا گھونٹ کر قتل کر دیا۔ بعدازاں سمیعہ کی والدہ سکینہ بی بی نے پولیس کو بتایا کہ لڑکیوں کے مارے جانے کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی بات پر اپنے گھر والوں سے الجھ پڑی تھیں جس پر ان کے بڑوں کو طیش آ گیا تھا۔
اس واقعے کی تفتیش کرنے والے پولیس آفسر سب انسپکٹر شہزاد جاوید کا کہنا ہے کہ سکینہ بی بی نے عدالت میں پیش ہو کر یہ بیان بھی دیا ہے کہ وہ ملزمان کے خلاف مقدمے کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتیں جس سے "ان کی ضمانت پر رہائی کی راہ ہموار ہو گئی ہے"۔
حامد، فوزیہ، سمیعہ اور سعدیہ کی طرح 2011 سے لے کر 2020 تک ضلع فیصل آباد میں تین سو 30 افراد 'غیرت' کے نام پر قتل کیے گئے ہیں۔ پنجاب پولیس کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ان 10 سالوں میں فیصل آباد، جھنگ، چنیوٹ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع پر مشتمل فیصل آباد ڈویژن میں مجموعی طور پر چھ سو سات افراد کی جان 'غیرت' کے نام پر لے لی گئی ہے۔ یہ تعداد اس عرصے میں پنجاب کے کسی بھی دوسرے ڈویژن میں اسی وجہ سے قتل ہونے والے افراد کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
اس ضمن میں دوسرا نمبر سرگودھا ڈویژن کا ہے جہاں اسی عرصے میں میں تین سو 87 افراد 'غیرت' کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دیے گئے جبکہ گوجرانوالہ ڈویژن میں ایسے مقتولین کی تعداد تین سو 46، ملتان ڈویژن میں تین سو 18، ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں تین سو، لاہور ڈویژن میں دو سو 78، بہاولپور ڈویژن میں دو سو 66 اور ساہیوال ڈویژن میں دو سو 44 ریکارڈ کی گئی۔ گزشتہ دہائی میں اس طرح کے سب سے کم واقعات راولپنڈی ڈویژن میں دیکھنے میں آئے جہاں ان کی تعداد 97 رہی۔
ان اعدادوشمار کے مطابق 2011 سے لے کر 2020 تک پنجاب کے تمام تھانوں نے 'غیرت' کے نام پر ہونے والے قتل کے دو ہزار نو سو 57 واقعات کا اندراج کیا ۔ یعنی ان سالوں میں صوبے میں ہر پانچ دنوں میں اس طرح کے لگ بھگ چار قتل ہوئے۔
با اثر لوگ، بے اثر قانون
شاہینہ کوثر چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہیں۔ وہ دوبار سرجری کرا چکی ہیں اور شدید طبی اثرات والی دوائیاں کھانے کی وجہ سے شدید نقاہت اور کمزوری کا شکار ہیں جو ان کی دھیمی آواز سے واضح ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت کی وجہ سرطان نہیں بلکہ ان کے 22 سالہ بھانجے احسان خالق کا قتل ہے۔
ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کی بستی وَلانہ سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا بھانجا چار سال کا تھا جب اس کی والدہ فوت ہو گئیں۔ مزید تین سال بعد جب اس کے والد بھی وفات پا گئے تو وہ اسے اپنے گھر لے آئیں۔ ان کا اپنا کوئی بچہ نہیں ہے لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کا بھانجا انہیں اتنا عزیز تھا کہ اس کی تعلیم کی خاطر وہ 2010 میں لاہور منتقل ہو گئیں جہاں وہ جنرل ہسپتال کے قریب ایک کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔
گزشتہ سال کے وسط میں احسان خالق اپنے رشتہ داروں سے ملنے بستی ولانہ گیا لیکن 5 جون کو وہاں اُسے 'غیرت' کے نام پر قتل کر دیا گیا۔
تھانہ احمد پور لمہ میں درج کی گئی ابتدائی اطلاعی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق اسے داؤد نامی شخص نے چند دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر مارا تھا کیونکہ اسے شبہ تھا کہ مقتول کے اس کی بہن طاہرہ قمر کے ساتھ "ناجائز تعلقات" تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے طاہرہ قمر کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور دونوں کی لاشیں احمد واہ نامی نہر میں بہا دی تھیں۔
شاہینہ کوثر کہتی ہیں طاہرہ قمر ان کے بھانجے کو پسند کرتی تھی لیکن ان دونوں کے درمیان کوئی ناجائز تعلقات نہیں تھے۔ دوسری طرف مقتولہ کے اہلِ خانہ کا دعویٰ ہے کہ 4 جون 2021 کو احسان خالق اسے بھگا کر لے جا رہا تھا لیکن وہ دونوں ابھی گاؤں کی حدود میں ہی تھے کہ پکڑے گئے۔
اس دوہرے قتل کی تفتیش ابھی جاری تھی کہ احسان خالق کے چچا محمد قاسم ولانہ نے جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس (انویسٹی گیشن) کو یکم اکتوبر 2021 کو درخواست کی کہ اس کی ایف آئی آر میں نامزد کیے گئے پانچ ملزمان کے علاوہ مزید چھ افراد پر بھی مقدمہ درج کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ انویسٹی گیشن برانچ کی زیر نگرانی کی گئی تفتیش اور گواہوں کی بیانات دونوں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی اس واردات میں ملوث تھے۔
ان میں طاہرہ قمر کے سوتیلے چچا محمد یار ولانہ کا نام بھی شامل تھا جو اس وقت لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ کے سینئر ایڈیشنل رجسٹرار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن محمد قاسم کا کہنا ہے کہ ان کی دخواست پر تو کوئی عمل درآمد نہ ہوا البتہ "ملزموں کی جانب سے دی گئی ایک درخواست کے نتیجے میں مقدمے کی تفتیش ریجنل انویسٹی گیشن برانچ بہاولپور منتقل کر دی گئی جہاں ان چھ افراد کو بے گناہ قرار دے دیا گیا"۔
شاہینہ کوثر کا کہنا ہے کہ پچھلے چند ہفتوں میں ایف آئی آر میں نامزد پانچوں ملزموں کو بھی عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا ہے کہ "ملزمان بہت بارسوخ ہیں جبکہ میں اپنی صحت کی وجہ سے مقدمے کی پیروی کرنے کی حالت میں نہیں ہوں"۔
انصاف میں تاخیر، جرم کی حوصلہ افزائی
فیصل آباد پولیس کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2021 میں ضلع بھر میں 'غیرت' کے نام پر قتل کے 17 مقدمات درج ہوئے جن میں سے چار میں ابھی تک تفتیش مکمل نہیں ہوئی۔ اسی طرح ان میں نامزد 18 ملزموں میں سے 14 کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ چار ابھی تک مفرور ہیں۔
پچھلے سال عدالتوں میں پہنچنے والے 13 مقدمات بھی ابھی سب کے سب زیرِ سماعت ہیں۔ ان میں زیادہ تر کے مدعیان کو شاہینہ کوثر اور محمد رمضان کی طرح خدشہ ہے کہ ان کا نتیجہ جلد یا بدیر ملزموں کی ضمانت یا رہائی کی صورت میں نکلے گا۔
یہ بھی پڑھیں
لوئر کوہستان: غیرت کے نام پر بچے اور خاتون سمیت تین افراد قتل
ماہرینِ قانون اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'غیرت' کے نام پر کسی کی جان لینے کے جرم میں ملوث لوگوں کو فوری سزا نہ ملنے کی وجہ سے ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو اسے جرم ہی نہیں سمجھتے بلکہ سماجی روایات کے اعتبار سے ایک جائز عمل گردانتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دسمبر 2021 میں پنجاب میں صنفی مساوات کے حوالے سے جاری ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ (Punjab Gender Parity Report) کے مطابق گزشتہ ایک سال میں اس سے پچھلے سال کی نسبت صوبے میں 'غیرت' کے نام پر ہونے والے قتل کی وارداتوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔
خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکنوں کے مطابق یہ صورتِ حال ماضی کی نسبت زیادہ تشویش ناک ہے کیونکہ پنجاب میں 2016 سے ایک ایسا خصوصی قانون موجود ہے جس کا بنیادی مقصد 'غیرت' کے نام پر ہونے والے قتلوں کو روکنا ہے۔ یہ قانون اُسی سال ڈیرہ غازی خان کے علاقے شاہ صدر دین سے تعلق رکھنے والی ماڈل اور اداکارہ قندیل بلوچ کے اپنے بھائی کے ہاتھوں ہونے والے قتل کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔
لاہور میں نادارخواتین کو مفت قانونی امداد مہیا کرنے والی عاصمہ جہانگیر لیگل ایڈ سیل نامی غیرسرکاری تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ندا علی کا کہنا ہے کہ اس قانون نے مدعیوں کی جانب سے ملزموں کو معاف کرنے کا راستہ تو بند کر دیا ہے لیکن 'غیرت' کے نام پر ہونے والی قتل کی وارداتوں کی تفتیش اور عدالتی سماعت ابھی بھی پرانے قواعدوضوابط کے تحت ہی کی جا رہی ہے۔
اس کی مثال پیش کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "اس قانون میں پولیس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ قتل کے 14 دن کے اندر اس کی تفتیش مکمل کر کے فردِ جرم عدالت میں جمع کرائے گی لیکن گزشتہ چھ سال میں شاید ہی کسی ایک مقدمے میں ایسا ہوا ہو"۔ پچھلے سال اسلام آباد میں قتل ہونے والی نوجوان خاتون نور مقدم کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے وہ مزید کہتی ہیں کہ نیوز میڈیا، سول سوسائٹی اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے اس کی تفتیش کے ہر مرحلے پر کڑی نگاہ رکھی لیکن اس کے باوجود پولیس کو فردِ جرم عدالت میں جمع کرانے میں کئی ماہ لگ گئے"۔
ان کی نظر میں اسی طرح کی تاخیر کے باعث 'غیرت' کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات میں "ملوث لوگوں کو سزا ملنے کی شرح انتہائی کم رہتی ہے"۔
نوٹ: لاہور سے تنویر احمد نے بھی اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا ہے
تاریخ اشاعت 8 فروری 2022