ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کے علاقے شیر پلم میں 16 اکتوبر کو ایک بوری بند لاش ملی۔ پولیس کے مطابق یہ لاش 22/23 سالہ نامعلوم خاتون کی تھی جسے تیز دھار آلے سے قتل کر کے یہاں قبرستان کے قریب سڑک کنارے پھینک دیا گیا تھا۔
تھانہ شکردرہ کی ابتدائی اطلاعاتی رپورٹ(ایف آئی آر) کے مطابق بوری میں خاتون کی لاش کو زرد دوپٹے اور سرخ پھولدار چارد میں لپیٹا گیا تھا جبکہ گلے و گردن پر زخموں اور خراشوں کے نشانات تھے۔
پولیس نے فنگرپرنٹس لینے کے بعد لاش پوسٹمارٹم کے لیے بھجوا دی اور لاش کی شناخت کے لیے جہاں مختلف تھانے کو اطلاع دی وہاں سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا۔
خاتون کی شناخت نہ ہونے پر لاش کو میونسپل کمیٹی کی مدد سے نماز جنازہ کے بعد امانتاً سپرد خاک کر دیا گیا اور پولیس نے کیس کی تفتیش شروع کر دی۔
ایک ہفتے میں پانچ خواتین کا قتل
سوشل میڈیا پر بوری بند لاش کی خبر وائرل ہونے سے ضلع بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ یہ اسی ہفتے کے دوران یکے بعد دیگرے قتل ہونے والی تیسری خاتون تھیں لیکن معاملہ یہیں پر نہیں رکا۔
بوری بند لاش ملنے کے اگلے روز یعنی 17 اکتوبر کو ضلعے میں دو مزید خواتین قتل کر دی گئیں۔
پولیس رپورٹس کے مطابق تحصیل کبل کے تھانہ توتانو بانڈز کے حدود میں سسر نے بہو کو ذبح کر دیا جبکہ تحصیل بریکوٹ کے علاقے نویکلے کوٹہ میں مبینہ طور پر شوہر نے بیوی کو گھریلو ناچاقی پر قتل کردیا۔
ان واقعات سے قبل 10 اکتوبر کو تھانہ مینگورہ کے علاقے ملوک آباد میں مبینہ طور پر شوہر نے خاتون کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جس کی 16 سال پہلے شادی ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ 12 اکتوبر کو تھانہ منگلور کی حدود میں ایک بچی کی ماں کو ذبح کرکے کھائی میں پھینک دیا گیا تھا جس کے الزام میں پولیس نے بعد ازاں مقتولہ کے دو بھائیوں، شوہر اور دیور کو گرفتار کیا۔
پولیس نے بوری بند لاش کا معاملہ چند ہی روز میں حل ہو جانے کا دعویٰ کیا اور ایف آئی آر میں بھی ملزمان کو نامزد کر دیا۔
اس کیس میں پولیس نے تین ملزمان کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جن میں مقتولہ کا سسر، دیور اور ساس شامل تھے۔ تاہم عدالت نے دو ملزموں کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا جبکہ ایک ملزم سوداگر (سسر) کو جوڈیشل پر جیل بھجوا دیا۔
ایک ہفتے کے دوران قتل کے پانچ واقعات ضلعے میں خواتین کے خلاف جرائم میں تشویش ناک اضافے کو ظاہر کرتے ہیں جن کی وجوہات پولیس نے 'غیرت ' اور گھریلو ناچاقی بتائی ہیں۔
سوات میں خواتین کی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم 'دی اویکنگ' یہاں پچھلے آٹھ برسوں سے خواتین کے خلاف تشدد اور ان کے قتل کا ڈیٹا جمع کر رہی ہے۔
اس تنظیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عرفان حسین بابک بتاتے ہیں کہ ضلعے میں 2022ء کے دوران 16 خواتین ہلاک یا قتل ہوئیں اور 2023ء میں یہ تعداد 32 تک پہنچ گئی۔ رواں سال جنوری سے 21 اکتوبر تک 49 خواتین کی ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں جن میں غیرت سمیت مختلف بہانوں سے ہونے والے قتل اور خودکشیاں شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ خواتین پر تشدد اور قتل کے اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق گھریلو تنازعات، زبردستی کی شادیاں اور جبری ازدواجی تعلقات میاں بیوی میں اختلافات کا باعث بنتے ہیں جہاں سے بات مار پیٹ اور قتل تک پہنچ جاتی ہے۔
"ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جو خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ زندگی نہیں گزارنا چاہتیں وہ جب خلع کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہیں تو انہیں اکثر اوقات شوہر یا بھائی غیرت کے نام پر قتل کردیتے ہیں۔"
ان کا کہنا ہے کہ خودکشیوں کے واقعات میں زیادہ تر ہلاکتیں جواں سال لڑکیوں کی ہوتی ہیں۔ بیشتر بچیاں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور شادی کے لیے رضامند نہیں ہوتیں۔ جب ان پر زور زبردستی کی جاتی تو وہ خوکشی کر لیتی ہیں۔
عرفان بابک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ سوات میں خواتین کے خلاف تشدد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
"ہمارے پاس ایسے کیسسز بھی رپورٹ ہوتے ہیں جن میں خواتین کو قتل کر کے واقعے کو خودکشی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ تاہم دیکھا یہ گیا ہے کہ قتل کو خود کشی کا رنگ دیا گیا ہو یا کوئی کچھ اور، دونوں صورتوں میں کمزور انویسٹی گیشن کے باعث زیادہ تر ملزم بری ہوجاتے ہیں۔"
سونیا اعجاز، ضلع سوات میں شعبہ وکالت سے منسلک ہیں جو کئی سالوں سے 'دی اویکنگ' میں بطور لیگل ایڈ آفسیر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
وہ بھی اتفاق کرتی ہیں کہ یہاں غیرت کے نام پر قتل کی شرح بہت زیادہ ہے۔ عام طور پر پسند کی شادی کی خواہش کے اظہار پر لڑکیوں کو قتل کر کے خودکشی قرار دے دیا جاتا ہے۔
"ہمارے ہاں بعض اوقات وراثتی جائیداد اور خلع جیسے شریعی حقوق مانگنے پر بھی خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عدالتوں میں 93 فیصد کیسز میں مجرم بری ہوجاتے ہیں جس کی بڑی وجوہ ناقص تفتیش اور پراسیکیوشن کا صحیح طریقے سے شواہد پیش نہ کرنا ہیں۔"
قائم مقام ضلعی پولیس آفیسر سوات بادشاہ حضرت بتاتے ہیں کہ اکثر جرائم کے پیچھے تین بنیادی عوامل یعنی زر (پیسہ)، زن (عورت) اور زمین ہوتے ہیں۔ تاہم سوات کی آبادی اب 28 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور یہاں مختلف علاقوں سے لوگ آکر آباد ہو رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
"قاتلوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ بچ جائیں گے": سوات میں ساڑھے تین برس میں 34 افراد غیرت کے نام پر قتل
"جیسے جیسے آبادی، سیاحت اور کاروبار میں اضافہ ہو رہا ہے جرائم کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ ہر واردات کے پیچھے محرکات مختلف ہوتے ہیں تاہم تمام قتل کیسوں کو کامیابی کے ساتھ حل کیا گیا ہے اور ملزم بھی گرفتار ہوئے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ سماجی مسائل اور معاشی مشکلات اکثر جرائم کا سبب بنتے ہیں جن کے تدارک کے لیے مختلف سماجی تنظیموں کے تعاون سے بھی مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
سوات کے رہائشی شوکت سلیم خان ایڈوکیٹ انسانی حقوق کے کمیشن کی کور کمیٹی کے رکن ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد میں اضافے کی وجہ 'ناقص نظام انصاف' ہے جہاں تفتیشی عملے میں تربیت کی کمی، وسائل کا فقدان، جنسی امتیاز اور انصاف میں تاخیر جیسے بڑے مسائل درپیش ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگ تھانے میں رپورٹ درج کرانے، عدالت آنے، وکیل کرنے اور شہادت دینے سے بھی گھبراتے ہیں جبکہ خواتین کے قتل کیسز میں اکثر انصاف نہیں مل پاتا۔ مرد کی سماجی طاقت اس نا انصافی کا سبب بنتی ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
"ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین تو بن چکے ہیں لیکن ان پر پوری طرح عملدرآمد کم ہی دکھائی دیتا ہے۔"
تاریخ اشاعت 20 نومبر 2024