راجن پور: تین سال میں غیرت کے نام پر 50 افراد قتل، 44 واقعات میں ملزم سزا سے بچ نکلے

postImg

ونیزہ خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

راجن پور: تین سال میں غیرت کے نام پر 50 افراد قتل، 44 واقعات میں ملزم سزا سے بچ نکلے

ونیزہ خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

راجن پور کے علاقے بیٹ بوسن کی 22 سالہ اقصیٰ اور علی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ دونوں کا تعلق مختلف برادریوں سے تھا اور ان کے خاندانوں میں دیرینہ مخاصمت بھی چلی آ رہی تھی۔ تاہم اس کی پروا نہ کرتے ہوئے پانچ دسمبر 2021ء کو دونوں نے ملتان جا کر نے کورٹ میرج کر لی۔

شادی کی خبر ملنے پر دونوں خاندانوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ بالخصوص اقصیٰ کے خاندان والے اس شادی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ حالات کے پیش نظر علی اپنی اہلیہ کو لے کر راجن پور شہر سے دور منتقل ہو گئے۔

چند ماہ بعد اقصیٰ کے گھر والوں نے اسے یہ کہہ کر بلایا کہ وہ ان کی شادی کو قبول کرتے ہیں۔ تین ماہ کی حاملہ اقصیٰ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور اپنے گھر والوں سے ملنے چلی گئیں جہاں 17 جون 2022ء کو مبینہ طور پر ان کے بھائی محسن نے  فائرنگ کر کے انہیں قتل کر دیا۔

اس واقعے سے اگلے روز پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ تاہم 15 ستمبر 2022ء کو اس کے گھر والوں نے اسے رہا کرا لیا۔

راجن پور میں ایسے واقعات تواتر سے پیش آتے ہیں اور ملزموں کو سزا نہ ملنے یا رہا ہو جانے کا یقین ان واقعات کے تسلسل کا بڑا سبب ہے۔

اقصیٰ کیس کے وکیل ظہور احمد کھوسہ کا کہنا ہے کہ مقتولہ کے والد اس کیس کے مدعی تھے جنہوں نے اپنے قاتل بیٹے کو معاف کر دیا۔ معافی نامہ کے تحت اسے رہا کر دیا گیا اور کیس بھی ختم ہو گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں اور خواتین کو جھوٹی انا اور غیرت کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ راجن پور کے قصبہ فاضل پور میں پیش آیا جہاں 27 سالہ رقیہ بی بی کو مبینہ طور پر ان کے ماموں عبدالرحمٰن نے شک کی بنا پر آٹھ اکتوبر 2021ء کو قتل کر دیا۔ ملزم کو قتل کے تیسرے روز گرفتار کر لیا گیا۔ سات ماہ جیل میں رہنے کے بعد رشتہ داروں نے دیت دے کر ملزم کو رہا کرا لیا۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قوانین ہونے کے باوجود ایسے واقعات عام ہیں۔ ایسے قتل کو پنجاب میں کالا کالی، سندھ میں کاروکاری، خیبر پختون خوا میں تور تورا اور بلوچستان میں سیاہ کاری کہا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2004ءسے 2016ء کے درمیان ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے 15ہزار 222 واقعات رپورٹ ہوئے۔

ڈسٹرکٹ کورٹ راجن پور سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ضلع میں پچھلے تین برس میں غیرت کے نام پرتقریباً 50 افراد قتل ہوئے مگر اس سلسلے میں درج ہونے والے مقدمات میں صرف چھ افراد کو ہی سزا ہوئی۔

اس حوالے راجن پور تھانہ سٹی کے ایس ایچ او شبیر مستوئی سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں مجرم کے ورثا ہی عموماً مدعی ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ مجرم کو معاف کر کے صلح کے ذریعے کیس ختم کر دیتے ہیں۔

"جس کیس میں ورثا کے بجائے پولیس مدعی بنتی ہے، اس میں مجرم کو معافی نہیں بلکہ سزا ملتی ہے۔"

ڈسٹرکٹ کورٹ راجن پور کے سینئر وکیل انتظار احمد نے بتایا کہ 2016ء میں قانون میں ہونےو الی ایک ترمیم کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو فساد فی الارض میں شمار کیا گیا۔

اس کے مطابق ولی قصاص کے تحت سزائے موت کو معاف کر سکتا ہے لیکن تعزیر کے تحت عمر قید کو معاف نہیں کر سکتا۔ اس ترمیم کے بعد اب پولیس نے ایسے مقدمات تعزیرات پاکستان کے سیکشن 302 اور 311 کے تحت درج کرنا شروع کر دیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ قبل ازیں قانون سازی کے تحت غیرت کے نام پر قتل کو باقاعدہ جرم تو قرار دیا گیا تھا لیکن قاتل سزا سے بچ نکلتا تھا۔

دیت کے قانون کے تحت ورثا قاتل کو معاف کر دیتے تھے اور وہ چند ہی ماہ میں رہا ہو جاتا تھا۔ اسی لیے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کوئی کمی نہ آئی۔

سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ راجن پور کی ڈپٹی ڈائریکٹر شازیہ نواز کا کہنا ہے کہ صرف قوانین سخت کر دینے سے ایسے واقعات کی مکمل روک تھام ممکن نہیں۔ جب تک معاشرے کا اجتماعی شعور ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا اور نئی نسل میں شعور پیدا نہیں کیا جائے گا، ایسے واقعات ہوتے رہے گے۔

انہوں نے بتایا  کہ پنجاب پولیس کے مطابق صرف راجن پور میں 2011ء سے 2016ء کے درمیاں 85 افراد کی غیرت کے نام پر جان لے لی گئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

غیرت کے نام پر قتل: 'جب تک معاشرہ ایسے جرائم کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا تب تک یہ واقعات ہوتے رہیں گے'

ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل فرح کھوسہ نے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں جو ترامیم 2016ء میں کی گئیں وہ بنیادی طور پر دفعہ 302، دفعہ 310 اور دفعہ 345 کے آخر میں کیے گئے اضافے ہیں۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ ورثا قاتل کو معاف کر سکتے تھے۔

اس قانون سے پہلے اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا دو سے پانچ سال قید تھی۔ متعلقہ قانون میں کہا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کی سزا 25 سال سے کم نہیں ہو گی۔ اسی طرح انسانی جان کی دیت بھی 43 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے، لیکن دیت اس صورت میں ادا کی جا سکتی ہے اگر جج حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد یہ محسوس کرے کہ اس کیس میں راضی نامہ ہو سکتا ہے۔ گویا غیرت کے نام پر قتل کی دیت اور معافی نامہ جج کی مرضی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ جج کی رضامندی کے بغیر اگر کوئی اپنے طور پر دیت ادا کرتا ہے اور قاتل کو معافی مل جاتی ہے تو یہ درست نہیں ہو گا۔ اس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔

تاریخ اشاعت 22 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ونیزہ خان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ ونیزہ ایم ایس سی کی طالبہ ہیں اور اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

معذور ہی معذور کا سہارا ہے، عام لوگ تو صرف ہمدردی کرتے ہیں

کشمیر: پرانی رسم زندہ ہے تو غریبوں کا بھرم رہ جاتا ہے

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا، "ہزاروں خالی اسامیوں کے باوجود عارضی اساتذہ کی فراغت سمجھ سے بالا تر ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

"لال بتی حیدرآباد میں برن وارڈ نہیں، ڈیتھ وارڈ ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمرکوٹ سانحہ: "خوف کے ماحول میں دیوالی کیسے منائیں؟"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.