اسی سال ماہ رمضان میں جمیلہ بی بی کی گمشدگی کے بعدان کے شوہر نے ان کے بھائیوں پر شبہ ظاہر کرتے ہوئے پولیس میں رپورٹ درج کروائی تھی۔جمیلہ کے تین بھائیوں کو شک کی بنیاد پر رواں برس مئی میں حراست میں لیا گیا۔ ضلع باجوڑ کے ان بھائیوں نے اپنی بہن کے قتل کا اعتراف کیا اورانہی کی نشاندہی پر کھیتوں میں دفن مقتولہ کی لاش برآمد کر لی گئی۔ تین سال قبل پہلے شوہر سے طلاق ملنے کے بعد جمیلہ بی بی نے نور خان سے شادی کی تھی جس سے ان کی ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی۔ وہ چھ بچوں کی ماں تھیں۔
پولیس کے مطابق بھائیوں نے ان کی مرضی کے بغیر چھپ کر دوسری شادی کرنے پر اپنی بہن کو قتل کیا۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع باجوڑ میں 2019ء سے اب تک غیرت کے نام پر قتل کے کل 16 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اس سلسلے میں 2019ء میں دو، 2020ء میں تین، 2021ء میں چھ، 2022ء میں دو اور رواں سال اب تک تین ایف آئی آر درج ہوئیں۔ ضلع خیبر میں رواں سال اب تک اس نوعیت کے چار واقعات کی ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
ضلع شمالی وزیرستان میں گزشتہ چار برس میں عورتوں کے غیرت کے نام پر قتل کی 21 ایف آر ہوئیں۔ پولیس کے مطابق 2020ء میں چھ، 2021ء میں تین، 2022ء میں سات اور 2023ء میں اب تک پانچ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان میں لوگ اب بھی اس طرح کے قتل پولیس کو رپورٹ نہیں کرتے لہٰذا ان واقعات کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
ضلع مہمند کی پولیس کے مطابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے بعد اب تک عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کے صرف دو کیسز 2022 میں رپورٹ ہوئے۔
باجوڑ سے تعلق رکھنے والے صحافی بلال یاسر کے مطابق ایسا نہیں کہ قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ حالیہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے لائے جانے لگے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قبائلی معاشرے میں عورتوں سے متعلق ایسے معاملات ایک خاندان ہی نہیں پورے قبیلے کی عزت کا مسئلہ سمجھے جاتے ہیں، اس لیے انتہائی اقدام اتفاق رائے کے بعد اٹھایا جاتا ہے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی مشترکہ تصور ہوتی ہے۔ ماضی میں پولیس اور عدالتی نظام کی غیر موجودگی اورخاصہ دار و لیویز کی قبائلی وابستگیوں کے باعث ایسے کیسز شاذ و نادر ہی منظر عام پر آتے تھے۔
خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں ایسے واقعات کی شکایت کی جانے لگی ہے کیونکہ پولیس اور عدالت کے نظام کا دائرہ کار ان اضلاع تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اب عورتوں کے خلاف تشدد اور غیرت کے نام پر قتل پر باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوتی ہیں۔
ضلع خیبر میں اس نوعیت کی پہلی ایف آئی آر 2021ء میں وادئ تیراہ میں درج ہوئی جب دو خواتین سمیت پانچ افراد کو قتل کیا گیا ۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم پشاور ہائی کورٹ کی وکیل مہوش محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ پولیس کے نظام کی ان اضلاع تک توسیع اور فوجداری قوانین کی موجودگی سے ایسے تمام واقعات دبائے نہیں جاسکتے۔ غیرت کے نام پر قتل خاندانی یا قبائلی معاملہ نہیں رہا بلکہ اسے ریاست کے خلاف جرم تسلیم کیا جاتا ہے لہٰذا اسے کوئی بھی رپورٹ کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لڑکی کو پسند کی شادی پر بھی غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ گھر چھوڑ کر جانے والی خواتین بھی غیرت کے نام پر قتل ہو جاتی ہیں۔ جب کوئی کزن میرج سے انکار کرتی ہے تب بھی اس کے مارے جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
"ایسا بھی ہوا ہے کہ وارثت میں جائیداد کا مطالبہ کرنے پر عورت کو قتل کر کے اسے غیرت کا نام دے دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کی طبعی موت واقع ہوئی ہے۔"
قتل کے نئے طریقے
ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن نوشین فاطمہ نے بتایا کہ قبائلی اضلاع میں کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ لیے جانے پر عورت کے قتل کو مقامی جرگہ سراہتا ہے۔ ان کے مطابق اگر کسی خاتون کی کسی مرد کے تصویریا ویڈیوز دوسروں تک پہنچ جائیں تو بھی اس خاتون کے قتل ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
"قبائلی علاقے کی ایک طالبہ نے مجھے بتایا کہ اب انہیں باہر جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی ان کی تصویریا ویڈیو نہ بنا لے کیونکہ اپنے گھروں اور گرد و نواح میں اکثر خواتین پردہ نہیں کرتیں"۔
نوشین کے مطابق عورتوں کو قتل کرنے کے طریقے بدل گئے ہیں۔ اب گولی کے بجائے انجکشن یا کرنٹ لگا کر یا پھر دیوار گرا کر مارا جانے لگا ہے۔
"تین برس قبل شمالی وزیرستان میں دو لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی موت کا سبب گھر کی چھت کا گرنا بتایا گیا۔ تفتیش کے بعد پتا چلا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک وڈیو میں وہ ایک نوجوان کے ساتھ دکھائی دی تھیں۔ پولیس نے ان لڑکیوں کے والد، ایک کزن اور ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوان کو گرفتار کر لیا تھا۔ مقدمہ چلنے کے بعد ان میں سے ایک کو آٹھ سال قید کی سزا سنائی گئی اور وہ بنوں جیل میں اپنی سزا پوری کر رہا ہے جبکہ باقی افراد رہا کیے جا چکے ہیں۔"
اسی طرح ضلع خیبر میں بھی گزشتہ سال مقامی عدالت نے غیرت کے نام پر بیوی سمیت دو افراد کے قتل کے الزام میں ملزم زیور شاہ کو سزائے موت اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم د حوا لور (حوا کی بیٹی) کی انتظامی افسر خورشید بانو کا کہنا ہے کہ رواں برس خیبرپختونخوا میں صرف ایک مہینے میں 44 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
ان کے مطابق قبائلی اضلاع میں بعض خواتین کو جائیداد میں حق کے لیے آواز اٹھانے پر غائب کر دیا گیا۔ گھر والے بغیر ثبوت کہتے ہیں کہ خاتون دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی یا کرنٹ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں
نصیر آباد ڈویژن: ایک سال میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ
"تھانوں میں جہاں ایسے واقعات کی ایف آئی آر درج ہوتی ہیں وہاں مرد محرر بیٹھے ہوتے ہیں۔ جب کسی ملزم کو وہاں لایا جاتا ہے تو وہ مقتولہ کے بارے میں بڑھا چڑھا کر منفی باتیں کرتا ہے۔ اس طرح وہ محرر کی حمایت حاصل کر کے اپنا کیس مضبوط کرا لیتا ہے۔"
خورشید بانو کہتی ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل میں اکثر گھر یا خاندان کے مرد ملوث ہوتے ہیں جو قاتل کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضلع کرم میں صوبائی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن نائلہ الطاف کے مطابق قبائلی اضلاع میں لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے باز رکھنے کے لیے حکومت کو بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
مہوش کاکاخیل کے مطابق محض ایف آئی آر درج کرانے سے فائدہ نہیں ہوگا۔ "غیرت کے نام پر قتل میں کمی قانون پر عمل درآمد، درست تفتیش اور واقعے پر متعلقہ اداروں کی موثر کارروائی سے ہی لائی جا سکتی ہے۔"
تاریخ اشاعت 23 اگست 2023