جسٹس افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر از خود نوٹس لینے کے لئے مشہور تھے۔ اکثر انہیں ایسا نوٹس لینے کے لیے محض ایک اخباری تراشے کی ضرورت ہوتی تھی۔ لہٰذا جب 2012 میں انہیں ایک اخباری کالم کے ذریعے پتہ چلا کہ پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حصول میں بہت سی مشکلات درپیش ہیں تو انہوں نے بلاتاخیر اس کا نوٹس لے لیا۔
اس معاملے پر تفصیلی سماعت کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان تمام مسائل کی جڑ ہندو شادیوں کی رجسٹریشن کے لیے کسی قانون کا نہ ہونا ہے۔ چنانچہ انہوں نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ فی الفور اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔
تاہم ان کے حکم پر کوئی عمل درآمد نہ ہوا۔
جب جسٹس تصدق حسین جیلانی چیف جسٹس آف پاکستان بنے تو انہوں نے بھی 19 جون 2014 کو حکم دیا کہ وفاقی حکومت ہندو شادیوں کی رجسٹریشن کے لئے دو ہفتوں کے اندر ایک قانون کا مسودہ تیار کر کے اسے کابینہ کی حتمی منظوری کے لیے پیش کرے۔لیکن اس ہدایت کے باوجود بھی اگلے دو سال میں ایسا کوئی قانون نہ بنایا جا سکا تاآنکہ اپریل 2016 میں سندھ کے صوبائی وزیر برائے قانون اور پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے سندھ اسمبلی میں ایک مختصر مسودہِ قانون پیش کیا اور کہا کہ اس کی منظوری سے "پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسا قانون بن جائے گا جس کی مدد سے ہندو شادیوں کی رجسٹریشن ممکن ہو سکے گی"۔
اگرچہ صوبائی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کے کچھ ارکان نے اس موقعے پر کہا کہ اس مسودے کو ایک سٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجا جائے تا کہ اس پر تفصیلی بحث مباحثہ کر کے اس کو بہتر بنایا جا سکے لیکن نثار احمد کھوڑو نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ ہندو مذہبی رہنماؤں اور ہندو قانون ساز نمائندوں سے مسودہِ قانون کی تیاری کے دوران پہلے ہی تفصیلی مشاورت ہو چکی ہے۔ ان کی اس وضاحت کے بعد اسمبلی نے متفقہ طور پر نئے قانون کی منظوری دے دی اور یوں سندھ ہندو میرج ایکٹ وجود میں آگیا۔
تاہم رمیش کمار وانکوانی، جو اس وقت وفاقی سطح پر حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکنِ قومی اسمبلی تھے، دعویٰ کرتے ہیں کہ سندھ حکومت نے مرکزی حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے محض دو صفحات پر مشتمل یہ قانون بہت عجلت میں منظور کرا یا تھا حالانکہ اس وقت وفاقی سطح پر ایک ملک گیر ہندو میرج ایکٹ کے مسودے پر تفصیلی بحث اور گفتگو جاری تھی جس میں جبری تبدیلیِ مذہب کو بھی اس کا حصہ بنانے پر غور کیا جا رہا تھا۔
کئی دوسرے ہندو قانون ساز بھی یہی چاہتے تھے کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کا دائرہ کار شادیوں کی رجسٹریشن سے بڑھا کر اس میں طلاق، نان و نفقہ اور بچوں کی دیکھ بھال جیسے معاملات کو بھی شامل کیا جائے۔ لہٰذا مئی 2018 میں پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سے تعلق رکھنے والے سندھ اسمبلی کے رکن نند کمار گوکلانی نے اس ایکٹ میں کئی اہم ترامیم تجویز کیں جن میں ہندو جوڑوں کو ایک دوسروں سے علیحدگی اختیار کرنے اور طلاق یافتہ اور بیوہ ہندو عورتوں کو دوسری شادی کا حق دینے کی شقیں شامل تھیں۔ انہوں نے یہ بھی تجویز کیا کہ جن عورتوں کے خاوند انہیں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں انہیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ان سے اپنے لئے خرچے کا مطالبہ کر سکیں۔ مزید برآں طلاق کی صورت میں بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تربیت کے اخراجات کے بارے میں تجاویز بھی ان ترامیم میں شامل تھیں۔
سندھ اسمبلی نے یہ تمام تجاویز اسی ماہ متفقہ طور پر منظور کر لیں اور انہیں سندھ ہندو میرج ایکٹ کا حصہ بنا دیا۔ نند کمار گوکلانی نے ترمیم شدہ قانون کی منظوری کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تجاویز کا مقصد "ہندو برادری کو پرانے اور فرسودہ رواجوں سے نجات دلانا ہے"۔ ان کا کہنا تھا کہ "ان ترامیم کی منظوری سے قبل ہندو خواتین کو طلاق دینے اور لینے کا حق نہیں تھا کیونکہ انہیں دوسرے درجے کا انسان سمجھا جاتا تھا"۔
تاہم اس قانون کا فوری نفاذ بھی ممکن نہ ہو سکا۔
دوسری طرف مرکزی پارلیمنٹ نے 2017 میں ہندو میرج ایکٹ کے نام سے ایک قانون منظور کیا جس کا مقصد وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقوں اور بلوچستان، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں ہندو شادیوں اور دیگر عائلی امور کو سرکاری عمل داری میں لانا تھا۔ اس ایکٹ میں کئی چیزیں ایسی ہیں جو ترمیم شدہ سندھ ہندو میرج ایکٹ میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ان دونوں قوانین میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے اور شادی کے وقت دو گواہوں کی موجودگی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
لیکن ان میں کچھ چیزیں مختلف بھی ہیں۔ جیسا کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کے مطابق شادی کے 45 دن کے اندر اس کا سرکاری اندراج کرانا ضروری ہے (بصورتِ دیگر شادی کرنے والے جوڑے کو 1000 روپے جرمانہ کیا جائے گا) لیکن وفاق کے ہندو میرج ایکٹ میں 15 دن کے اندر شادی کے سرکاری اندراج کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح وفاقی قانون میں شادی شدہ جوڑوں کو عدالتی مداخلت کے بغیر ایک دوسرے کو طلاق دینے کا حق دیا گیا ہے لیکن سندھ ہندو میرج ایکٹ میں اس کا ذکر نہیں ملتا بلکہ اس میں عدالت کے ذریعے علیحدگی اختیار کرنے کو ہی طلاق کے مترادف گردانا گیا ہے۔
رمیش کمار وانکوانی، جو پاکستان مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کر اب پاکستان تحریکِ انصاف کے رکن قومی اسمبلی بن چکے ہیں، کہتے ہیں کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ کون سا سرکاری محکمہ ہندو شادیوں کی رجسٹریشن کرے گا، شادیاں کرانے والے پنڈتوں کا انتخاب اور رجسٹریشن کیسے کی جائے گی، طلاق کے حصول کے لیے کیا طریقہ کار ہو گا اور طلاق کی صورت میں بچوں کی دیکھ بھال کا ذمہ دار کون ہو گا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ صرف سندھ کی صوبائی حکومت بلکہ وفاقی حکومت بھی ہندو شادیوں سے متعلق قوانین کے اطلاق کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کے مطابق اس کا ثبوت یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ہندو میرج ایکٹ 2017 کے نفاذ کے لیے سرے سے کوئی قواعد و ضوابط ہی نہیں بنائے جبکہ سندھ حکومت نے بھی ایسے قواعد بنانے میں بہت تاخیر سے کام لیا ہے اور ابھی بھی انہیں پوری طرح لاگو کرنے میں ناکام ہے۔
دوسری طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت سندھ ہندو میرج ایکٹ کے اطلاق میں بہت سنجیدہ ہے۔ فروری 2020 میں امریکی حکومت کے ایک وفد سے بات کرتے ہوئے اگرچہ انہوں نے تسلیم کیا کہ ابھی تک اس قانون پر من و عن عمل درآمد نہیں ہو سکا لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی محکمہِ اقلیتی امور نے 2017 میں ہی اس کے نفاذ کے لئے درکار ضوابط جاری کر کے واضح کر دیا تھا کہ اس پر کس طرح عمل درآمد ہو گا اور کون سا محکمہ اور سرکاری اہل کار اس ضمن میں کیا کردار ادا کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے عہدیداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نہ صرف اس ایکٹ کا نفاذ یقینی بنائیں بلکه اس کے قواعد و ضوابط پر بھی سختی سے عمل درآمد کرائیں۔
قانون پر عمل درآمد میں رکاوٹیں
سندھ میں مقیم ہندو آبادی کا ایک بڑا حصہ شیڈولڈ کاسٹ برادریوں سے تعلق رکھتا ہے جو تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جس کے باعث ان برادریوں کی خواتین اکثر اوقات شادی، طلاق، گھریلو تشدد اور مذہب کی جبری تبدیلی جیسے معاملات پر کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کرتیں۔
اگرچہ ہندوؤں کے حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں کو توقع تھی کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کی منظوری کے بعد اس صورتِ حال میں تبدیلی آئے گی اور خواتین اپنے حقوق کے لیے اس قانون کا استعمال کریں گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی منظوری کے پانچ سال بعد بھی اس کے تحت گنی چنی شادیوں کا اندراج ہی ہو سکا ہے۔ (حیدر آباد شہر کی یونین کونسل علی آباد کے سیکرٹری محمد کفیل کہتے ہیں کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کی منظوری کے بعد انہوں نے لگ بھگ 250 ہندو شادیوں کا اندراج کیا ہے۔)
سیاسی اور سماجی کارکنوں کے مطابق ایکٹ کے نفاذ میں تاخیر کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہندو برادری اور حکومتی اہل کاروں دونوں کو اس کے بارے میں زیادہ آگاہی حاصل نہیں۔ مثال کے طور پر ضلع میر پور خاص کے گاؤں درگاہ راہو مشاق سے چند کلومیٹر دور واقع مقامی یونین کونسل کے دفتر میں موجود اہل کار کہتے ہیں کہ انہیں صوبائی حکومت کی طرف سے اس قانون کے متعلق کسی قسم کی معلومات یا ہدایات نہیں دی گئیں (حالانکہ سندھ لوکل باڈیز ایکٹ 2013 کے تحت وہ اپنے علاقے میں پیدائش، شادی اور وفات کے تمام واقعات کا اندراج کرنے کے پابند ہیں)۔
حیدر آباد کے میونسپل کمشنر فاخر شاکر کا بھی کہنا ہے کہ حیدر آباد شہر کے اندر موجود 96 یونین کونسلوں میں سے اکثر کے اہل کاروں کو سندھ ہندو میرج ایکٹ کے بارے میں علم ہی نہیں۔ اسی بنا پر وہ کہتے ہیں کہ "ابھی تک یہ ایکٹ صرف قانون کی کتابوں تک محدود ہے اور اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا"۔
ان کا یہ دعویٰ سندھ کے محکمہ مقامی حکومت کے سیکرٹری خالد حیدر شاہ کی طرف سے 2019 میں دیے گئے اس بیان کی نفی کرتا ہے جس میں انہوں نے اپنے محکمے کے اہل کاروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہندو شادیوں کے اندراج کے لیے سندھ حکومت کی طرف سے مرتب کیا گیا ہدایت نامہ تمام یونین کونسلوں کے نمائندوں تک پہنچائیں۔
تاہم محمد کفیل کے مطابق قانون پر عمل درآمد کی وجہ محض ان کاغذات کی مقامی سطح پر عدم موجودگی نہیں بلکہ ان کا کہنا ہے کہ ہندو پنڈتوں کی سرکاری رجسٹریشن نہ ہونے سے بھی ہندو شادیاں رجسٹرڈ نہیں ہو رہیں۔
حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے ہندو سماجی کارکن ایم پرکاش بھی اس نکتے پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان نکاح خوانوں کی طرح ہندو پنڈتوں کی موجودگی نہ صرف شادی کی مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ وہ شادی کا ابتدائی ریکارڈ تیار کرنے اور محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک سندھ کے 95 فیصد علاقوں میں یونین کونسل کی سطح پر پنڈتوں کی رجسٹریشن نہیں کی گئی جو ان کی نظر میں سندھ ہندو میرج ایکٹ پر عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
عائلی مسائل میں مذہب کا کردار
پاکستان تحریکِ انصاف کے سندھ کے اقلیتی ونگ کے نائب صدر جے کمار دھیرانی کا کہنا ہے کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کا "بنیادی مقصد شادیوں کی رجسٹریشن کرنے کے ساتھ ساتھ کم عمری کی شادیوں اور ہندو لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی کو روکنا تھا"۔ لیکن ان کے مطابق صوبائی حکومت ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے "نہ تو لوگوں کو کسی قسم کی آگاہی فراہم کر رہی ہے اور نہ ہی اس نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی تیار کی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
سندھ ہندو میرج ایکٹ: 'شیڈولڈ کاسٹ ہندو عورتوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ قانونی طریقے سے طلاق لے سکتی ہیں'۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے صوبائی اقلیتی ونگ کے جنرل سیکرٹری رمیش کمار گپتا بھی اسی طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ پر عمل درآمد کے لئے ضروری ہے کہ ہندوؤں کے لئے علیحدہ عائلی عدالتیں بنائی جائیں جن میں ایسے ہندو ججوں کا تعین کیا جائے جنہیں نہ صرف ہندو مذہبی عقائد اور رسم و رواج سے آگاہی ہو بلکہ انہیں ملکی قوانین پر بھی مکمل دسترس ہو تاکہ انہیں ہندو عورتوں کی طلاق، نان و نفقے اور بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق معاملات کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
ان کے اس مطالبے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ "فی الحال ان مقدمات کی شنوائی اکثر اوقات مسلمان ججوں کے سامنے ہوتی ہے جو انہیں مسلمانوں کے لیے بنائے گئے قوانین کی نظر سے دیکھتے ہیں جس کے باعث ان کے لئے ایک منصفانہ فیصلے پر پہنچنا آسان نہیں ہوتا"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 29 جولائی 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 17 فروری 2022