رواں سال 30 جولائی کو ننگر پارکر پولیس کو اطلاع ملی کہ دو بہنوں نے خود کشی کی ہے۔ یہ واقعہ ننگر پارکر کے سیاحتی مرکز ساڑدھڑو کے قریب گاؤں راڑ کووؤ میں پیش آیا۔اٹھارہ سالہ نیلاں کولہی کی لاش درخت سے بندھی رسی سے جھول رہی تھی جبکہ 15 سالہ مرواں کی لاش بظاہر رسی ٹوٹ جانے سے نیچے گر گئی تھی۔
یہ جگہ ان کے گھر سے کچھ دوری پر واقع ہے۔
لڑکیوں کے والد جودھو کولہی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی کچی منگنی کی تھی۔ ان کی برادری میں اس کچی منگنی کو بعد ازاں پکی منگنی میں تبدیل کر کے رشتے کا اعلان کیا جاتا ہے یا لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے۔
"دونوں کی منگنی ان کی رضا مندی کے بغیر ہوئی تھی جس کی وجہ سے رات کو انہوں نے مل کر خود کشی کر لی۔ لڑکیاں چاہتی تھیں کہ ان کے رشتے قریبی عزیز لڑکوں سے طے کیے جائیں جس کی ہمارا عقیدہ اجازت نہیں دیتا۔"
ایس ایچ او تھانہ ننگر پارکر علی اصغر جروار بتاتے ہیں کہ پولیس نے جائے وقوع سے لڑکیوں کی لاشیں ہسپتال پہنچائیں جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا۔
"ورثا کا بیان تھا کہ دونوں بہنوں نے خودکشی کی ہے۔ ان کے والد جودھو اور چچا سجن کولہی کے مطابق لڑکیاں جن لڑکوں سے اپنی منگنی چاہتی تھیں وہ ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں۔ تاہم ثقافتی پابندیوں کے باعث ان کی شادی ممکن نہیں تھی۔"
علی اصغر نے کہا کہ پوچھ گچھ کے دوران جودھو کولہی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے منگل 29 جولائی کو دونوں بیٹیوں پر تشدد کیا تھا جس کی وجہ سے وہ خفا تھیں اور رات کو جا کر پھندے سے جھول گئیں۔
ایم ایس ننگر پارکر ہسپتال ڈاکٹر شاہد جنجھی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں خودکشیوں کے شواہد ملنے کی تصدیق کرتے ہیں۔ تاہم مزید طبی جانچ کے لیے لاشوں کے اجزاء (نمونے) اور ڈی این اے لیبارٹریوں کو بھیج دیے گئے ہیں۔
ان کے بقول دونوں لڑکیوں سے جنسی زیادتی کی کوئی شہادت نہیں ملی۔
ایک زمانے میں سب سے زیادہ خود کشیاں خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع چترال سے رپورٹ ہوتی تھیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کی ایک سٹڈی رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ضلع چترال میں 2016ء سے 2022ء تک خود کشی کے سالانہ لگ بھگ 24 کیسز رپورٹ ہوتے رہے۔
واضح رہے کہ ضلع چترال کی آبادی 2017ء میں ساڑھے چار لاکھ کی قریب تھی جو اب چترال اپر اور لوئر ملا کر پانچ لاکھ 16 ہزار بنتی ہے۔ یہاں 65 فیصد سنی مسلمان، 32 فیصد اسماعیلی مسلمان اور تین فیصد کیلاشی ودیگر اقلیتیں آباد ہیں۔
تاہم اب ایسا لگتا ہے جیسے 'خود کشییوں کا ہیڈکوارٹر' چترال سے تھرپارکر منتقل ہو گیا ہے۔
ضلع تھرپارکر کی مجموعی آبادی 17 لاکھ 78 ہزار 123 نفوس پر مشتمل ہے جن میں نو لاکھ 64 ہزار 137 مسلمان، آٹھ لاکھ گیارہ ہزار 507 ہندو(بشمول شیڈیولڈکاسٹ)، 518 قادیانی/احمدی اور ایک ہزار 610 مسیحی شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس کے مطابق تھر میں گزشتہ دو سال سات ماہ (20 جولائی تک) 339 خود کشیاں ریکارڈ پر آ چکی ہیں جن میں 182 خواتین شامل ہیں۔ جبکہ خودکشی کرنے والوں کی اکثریت یعنی 270 کا تعلق ہندو کمیونٹی سے تھا۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق 2022ء میں 72 عورتوں سمیت 129 افراد نے خودکشی کی جن میں 26 مسلمان اور 104 ہندو شامل تھے۔
پچھلے سال (2023ء میں) 69 خواتین سمیت 125افراد نے اپنی جانیں لیں جن میں 34 مسلمان اور 96 ہندو تھے۔
روان سال(20 جولائی تک) 41 خواتین سمیت 86 افراد خودکشیاں کر چکے ہیں جن میں 16 مسلمان، 70 ہندو کمیونٹی کے لوگ تھے۔
پولیس ریکارڈ بتاتا ہے کہ مذکورہ تمام کیسز میں دفعہ 174 کے تحت کارروائی کی گئی۔
تاہم ریکارڈ میں 2022ء کے 18 کیسوں، پچھلے سال کے چھ اور رواں سال کے صرف ایک کیس کو 'رپورٹڈ'(جن کی باضابطہ اطلاع دی گئی) جبکہ باقی تمام کیسز کو 'ان رپورٹڈ' (اطلاع دینے والے نے نام نہیں بتایا) لکھا گیا ہے۔
صحرائے تھر میں درخت اور پانی کے کنویں ویسے تو جینے کا سہارا ہیں مگر یہاں کے لوگ ان درختوں سے پھندا ڈال کر اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں یا کنویں میں کود جاتے ہیں۔
ایس ایس پی تھرپارکر غلام شبیر سیٹھار بھی تصدیق کرتے ہیں کہ خودکشی کرنے والوں میں زیادہ تعداد ہندو خواتین کی تھی۔ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اکثر مرضی کا رشتہ نہ ہونے، ہراسگی، گھریلو تشدد اور ذہنی مسائل کی وجوہات پر خودکشی کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ بعض کیسوں میں غربت کو خودکشی کی وجہ بتایا جاتا ہے مگر جانچ پر حقائق مختلف نکلتے ہیں۔
"حال ہی میں ایک 60 سالہ شخص نے خودکشی کی جس کی وجہ اس کی بیوی کے کسی اور سے تعلقات تھے۔ اس کو ہم نے کال ریکارڈ سے پکڑا جو متوفی کی بیوی سے مسلسل رابطے میں تھا اور اس نے جنسی تعلقات کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
ننگر پارکر سے تعلق رکھنے والی پیپلز پارٹی کی سینیٹر کرشنا کولہی کا ماننا ہے کہ عدم برداشت بڑھ گئی ہے، بچے والدین کے فیصلے کم مانتے ہیں جس کے باعث تھرپارکر میں خودکشیوں کا رواج سا ہوگیا ہے۔
"کچھ کیسز میں قتل کو چھپانے کے لیے اسے خودکشی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ ایک بار تو شوہر کے میکے جانے کی اجازت نہ دینے پر خاتون نے خودکشی کر لی ہے۔"
وہ سمجھتی ہیں کہ ایک دوسرے کی مرضی یا پسند کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے زیادہ خودکشیاں ہو رہی ہیں۔ اس کے لیے پڑھا لکھا، امیر یا غریب ہونا ضروری نہیں کیونکہ یہ اقدام تعلیم یافتہ افراد نے بھی اٹھایا ہے۔
"یہاں لوگ خود کشی والے کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کراتے تھے جس کو ہم نے لازمی قرار دلوایا تاکہ حقائق سامنے آئیں۔"
ماہر نفسیاتی امراض ڈاکٹر جمیل جونیجو تھر میں خودکشیوں پر تحقیق کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں خاندانی اور گھریلو معاملات، پسند کی شادی کا نہ ہونا، مائیکرو فنانسنگ کا قرضہ اور سماجی پابندیاں خودکشیوں کے بڑے اسباب ہیں۔
"تھری لوگوں کے آپسی تعلقات کی نوعیت بہت جذباتی ہوتی ہے۔ہندو کلچر میں رشتہ دار سے شادی نہ ہونا خود کشی کی وجوہات ہیں، نفسیاتی مسائل ان کے علاوہ ہیں۔"
سندھ میں 2013ء کے ایکٹ کے تحت اگست 2017ء میں مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی بنیاد رکھی گئی جس کا پہلا چیئرمین سینیٹر(ر) ڈاکٹر کریم خواجہ کو مقرر کیا گیا تھا۔
اتھارٹی کی مقاصد میں حکومت کو نفسیاتی علاج سے متعلق مشورے دینا اور اس حوالے سے قانون سازی اور ہیلتھ کیئر میں رہنمائی فراہم کرنا وغیرہ شامل ہے۔
اتھارٹی نے سب سے پہلے 2016ء سے 2020 ء کے درمیان صوبہ بھر میں خود کشیوں کے رپورٹڈ کیسز کے اعداد و شمار جاری کیے اور بتایا تھا کہ ان پانچ سالوں میں کل 767 خودکشی کیس رجسٹر ہوئے جن میں تھرپارکر 79 کے ساتھ ٹاپ پر تھا۔
اتھارٹی کا اپنی تجزیاتی رپورٹ میں کہنا تھا کہ تھر میں خود کشی کے واقعات کی تحقیق (سائیکالوجیکل اٹاپسی) کے لیے 33 کیسز بطور نمونہ لیے گئے۔ ان میں 12 مرد (9 ہندو، 3مسلم) اور 21 خواتین(14 ہندو، 7 مسلم) شامل تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق خودکشی کرنے والوں میں اکثریت کے ساتھ معاشی، سماجی اور نفسیاتی مسائل تھے جن کو نفسیاتی مسائل درپیش تھے ان کا کوئی باقاعدہ نفسیاتی علاج نہیں ہوا۔
"کچھ کیسز میں 'وٹہ سٹہ' کے تنازع، ایک لڑکی کا بغیر شادی اولاد ہو جانا، کچھ واقعات مرضی کی شادی کے نہ ہونے اور محبت میں ناکامی خود کشی کی وجوہات تھیں۔ ایک کیس واضح طور پر نفسیاتی بیماری(شیزوفرینیا) کا معلوم ہوا۔"
رپورٹ یہ بھی بتایا گیا کہ سندھ کے 17اضلاع میں نفسیاتی مسائل کا کوئی سرکاری ڈاکٹر موجود ہی نہیں ہے۔
انہتر سالہ ڈاکٹر سونو کھنگارانی، یہاں غیر سرکاری تنظیم تھردیپ مائیکرو فنانس فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ہیں جو غریبوں کی قرض کے ذریعے مدد کرتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں یہاں حقائق کے برعکس ہر خودکشی کو غربت اور قرض سے جوڑ کر تھردیپ کو قصور وار ٹھہرایا جاتا تھا۔
"ایسے ہی واقعہ کے بعدجب میں خود کشی کرنے والے ایک شخص کے گاؤں گیا تو لواحقین نے بتایا کہ متوفی کی 12 بکریاں ہیں اور کھیتی کی آمدنی الگ تھی۔ ان پر قرضہ ایک لاکھ تین ہزار روپے تھا جو چار بکریوں کی قیمت کے برابر بھی نہیں بنتا۔"
وہ کہتے ہیں کولہی(ہندو شیڈیولڈ کاسٹ) سخت محنتی برادری ہے جس کے غریب سے غریب فرد کے پاس بھی ایک بھینس یا چار پانچ بکریاں ضرور ملیں گی۔
یہ بھی پڑھیں
خیبرپختونخوا میں خواتین کی خودکشی کے واقعات: 'ان کی وجوہات جاننے کے بجائے انہیں غیرت سے جوڑ کر چھپا دیا جاتا ہے'۔
بقول ڈاکٹر سونو ان میں (کولہی برادری) بغاوت، غصہ بہت ہے اور سندھ میں سب سے زیادہ خودکشیاں بھی یہی لوگ کرتے ہیں۔
"کولہی برادری میں لڑکے کی شادی ہو تو جوڑے کے لیے الگ گھر بنانا لازم ہے۔ چاہے یہ جھونپڑی ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں چھوٹی عمر کی شادیاں عام ہیں مسائل سے تنگ آ کر بعض اوقات جوڑا ہی خود کشی کر لیتا ہے۔"
ان کا ماننا ہے کہ گھٹن زدہ خاندانی ساخت، گھریلو و جنسی تشدد خودکشی کی بڑی وجوہات ہیں۔ بیشتر خواتین جبری شادی اور زبردستی کے جنسی تعلقات سے تنگ آکر خود کشی کرتی ہیں۔ یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر بات کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کہتا ہے کہ دنیا میں ہر سال سات لاکھ 26 ہزار لوگ اپنی جان لے لیتے ہیں جبکہ اس سے کہیں زیادہ افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔
"ہر خودکشی المیہ ہوتی ہے جو نہ صرف خاندان بلکہ برادری اور پورے ملک کو متاثر کرتی ہے۔ ویسے تو ہر عمر کے لوگ خودکشی کرتے ہیں تاہم 2021ء میں یہ 15 سے 29 سال عمر کے افراد کی اموات کی تیسری بڑی وجہ تھی۔"
ڈبلیو ایچ او کے مطابق زیادہ آمدنی والے ملکوں میں خودکشی اور دماغی مسائل (ڈپریشن اور نشے سے خرابی) کا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ تاہم بہت سی خودکشیاں مالی مسائل، رشتوں کے تنازعات یا دائمی بیماری سے نمٹنے کی صلاحیت میں کمی کے باعث ہوتی ہیں۔
"تشدد، بدسلوکی یا نقصان اور تنہائی کا احساس بھی خود کشی کے رویے سے جڑے ہیں۔ تاہم خود کشی کی شرح کمزور گروہوں میں زیادہ ہے جن کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔"
تاریخ اشاعت 2 اکتوبر 2024