"علاقے میں ہسپتال ہونے کے باوجود ملیریا کا ٹیکہ لگوانے 45 کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے"

postImg

ملک جان کے ڈی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"علاقے میں ہسپتال ہونے کے باوجود ملیریا کا ٹیکہ لگوانے 45 کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے"

ملک جان کے ڈی

loop

انگریزی میں پڑھیں

ساٹھ سالہ موسیٰ گوادر کی تحصیل پسنی کے گاؤں زہرین کہور میں رہتے اور جنگل سے لکڑی کاٹ کر گزربسر کرتے ہیں۔ پانچ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کی روزی روٹی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔

 موسیٰ کو چند روز قبل ملیریا ہو گیا تھا ۔ابھی ان کا علاج چل رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں روزانہ انجکشن لگلوانے کے لیے 45 کلومیٹر دور پسنی شہر جانا پڑتا ہے۔ جانے آنے اور ٹیکے پر ان کے ایک ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔

"میرے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا ہی دشوار ہے۔ ایسے حالات میں ہر روز ہزار روپے ایک ٹیکے پر خرچ کروں تو بچوں کو کیا کھلاؤں؟ یہاں گاؤں کے ہسپتال میں ڈاکٹر تو کیا ایک ڈسپنسر بھی حاضر ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی۔"

ماسی ماہکان اب عمر کی پانچویں دہائی میں ہیں۔ چند سال قبل ان کی آخری زچگی کے دوران پیچیدگی ہو گئی تھی۔چونکہ مقامی ہسپتال بند تھااس لیے انہیں پسنی جانا پڑا۔

وہ کہتی ہیں اگر ہمیں بر وقت گاڑی نہ ملتی یا گھر میں 15 ہزار روپے نہ ہوتے تو آج میں اپنی بچی سے محروم ہوتی یا خود دنیا سے رخصت ہو چکی ہوتی"۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس گاؤں کے ہسپتال میں کئی سال سے ڈاکٹر نہیں ہے۔ معمولی بخار کے لیے بھی روزی روٹی چھوڑ کر پسنی جانا پڑتا ہے۔ کسی حکومتی نمائندے کو کبھی لوگوں کا خیال نہیں آیا۔ بس ووٹ مانگنے آ جاتے ہیں۔

ضلع گوادر کا یہ علاقہ' شادی کور' کہلاتا ہے۔یہ کئی چھوٹے دیہات پر مشتمل زرعی خطہ ہے۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر پسنی یہاں سے 45 کلو میٹر اور دوسرا قریبی شہر تربت تقریباً 130 کلو میٹر دور ہے۔

زہرین کور شادی کور میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا گاؤں ہے۔دو ہزار کے قریب آبادی کے اس گاؤں میں 2007ء میں ایک ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 2009ء میں عمارت کی تعمیر مکمل ہو نے پر اسے محکمہ صحت کے حوالے کردیا گیا۔ یہ سول ڈسپنسری (سی ڈی) ہسپتال کہلاتا ہے۔

شادی کور کے 39 سالہ دل مراد بتاتے ہیں کہ اس ہسپتال بلڈنگ کی تکمیل پر علاقے کے باسیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ ہر جگہ یہی بات ہورہی تھی کہ اب معمولی علاج کے لیے پسنی یا تربت  نہیں جانا پڑے گا مگر لوگوں کی امید پوری نہیں ہوئی۔

"ہسپتال ہونے کے باوجود ہم علاج کی سہولت سے محروم ہیں۔ سواری کے لیے الگ خوار ہونا پڑتا ہے۔ ہم لکڑی یا گھاس سے لوڈ پک اپ گاڑیوں پر پسنی جاتے ہیں۔ بوڑھے لوگ ان گاڑیوں پر سوار ہی نہیں ہو سکتے۔"

زہرین کہور ہی کے فضل علی بتاتے ہیں کہ ہسپتال بننے پر یہاں ڈاکٹر پھلان بلوچ کو تعینات کیا  گیا تھا۔ ہسپتال چل پڑا مگر چار سال بعد ڈاکٹر پھلان بلوچ کا یہاں سے کلمت تبادلہ ہوگیا۔ تب سے ہسپتال میں کسی ڈاکٹر کی تعیناتی نہیں ہوئی۔

"ڈاکٹر کی عدم موجودگی میں عملہ بھی ہسپتال سے غائب ہوتا گیا۔آخر کار یہ خوبصورت عمارت کھنڈر بن گئی۔ دروازوں پر زنگ آلود تالے اور کمروں کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ اب یہ بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتی ہے جس میں کوئی داخل نہیں ہوتا۔

محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ زہریں کہور ہسپتال میں چند ماہ پہلے تک چھ ملازم تعینات تھے۔ان میں دو ویکسی نیٹر، دو خواتین اہل کار اور دودرجہ چہارم کے اہلکار شامل ہیں۔ا ایک چپڑاسی کا انتقال ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صرف ڈاکٹر اور ایک چپڑاسی کی اسامیاں خالی ہیں۔ ہسپتال کے دیگر اہلکار گاؤں میں موجود ہیں مگر ڈیوٹی پر نہیں جاتے ۔ڈاکٹر کا تبادلہ ہوا تو سٹاف نے بھی ڈیوٹی پر آنا کم کر دیا تھا۔

"اس دوران ہسپتال کی عمارت کو ایک سرکاری ادارے نے استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ برس عمارت ان کے پاس رہی ۔پھر ایک ٹھیکدار نے اس پر قبضہ جما لیا۔اس صورت حال پر اہل کاروں نے عمارت میں جانا مناسب نہیں سمجھا۔اب توبلڈنگ کی حالت ویسے ہی خراب ہے۔"

مقامی سماجی کارکن لعل بخش بتاتے ہیں کہ ہسپتال دس سال سے بند ہے۔ یہاں کبھی کوئی حکومتی نمائندہ آیا ہے نہ ہی محکمہ صحت کا کوئی افسر۔ ہسپتال کا تمام عملہ مقامی ہے لیکن ڈیوٹی نہیں دیتا۔ تاہم سرکاری کاغذوں میں یہ ہسپتال فعال ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'

گوادر کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر لطیف دشتی بتاتے ہیں کہ شادی کور، کیچ سے کافی دور ہے۔ راستے انتہائی غیر ہموار ہیں۔ڈاکٹروں کے لیے وہاں جانا مشکل ہے۔ اب ہسپتال کی عمارت بھی ناکارہ اور ناقابلِ رہائش ہوچکی ہے۔ تاہم اس کے باوجود ان کی پوری کوشش ہے کہ شادی کور ہی کے رہائشی کسی ڈپلومہ ہولڈر ڈسپنسر کو وہاں تعینات کر دیا جائے۔اس کے لیے دو افراد کے نام تجویز بھی کئے گئے ہیں۔ امید ہے ہسپتال کو جلد فعال کر لیا جائے گا۔

لطیف دشتی نے بتایا کہ کہ جب ہسپتال فعال تھا تو اس مہیں ہر ماہ دو سو کے قریب مریض آتے تھے۔ان میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی تھی۔ سی ڈی ہسپتال کے قریب ہی ایک مویشی ہسپتال کی عمارت 2011 ء میں مکمل ہو گئی تھی لیکن اس کا اب تک افتتاح نہیں ہوسکا۔ یہ عمارت بھی خراب ہونے لگی ہے۔ اب کوشش ہے مویشی ہسپتال کی عمارت میں سی ڈی ہسپتال کو دوبارہ  فعال کیا جائے۔

تاریخ اشاعت 4 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ملک جان کے ڈی، بلوچستان کے ساحلِ سمندر گوادر کے گیٹ وے پسنی، مکران سے تعلق رکھتے ہیں۔ جامعہ کراچی میں اردو ادب کے طالب علم اور سوشل ایکٹیوسٹ ہیں اور وہ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

لاہور کے کن علاقوں میں سب سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.