"تورغر میں کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی دینا نہیں چاہتا، جو آ جائے وہ تبادلے کی کوشش میں رہتا ہے"

postImg

عبدالستار

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

"تورغر میں کوئی ڈاکٹر ڈیوٹی دینا نہیں چاہتا، جو آ جائے وہ تبادلے کی کوشش میں رہتا ہے"

عبدالستار

loop

انگریزی میں پڑھیں

خیبرپختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں دو لاکھ آبادی پر مشتمل ضلع تورغر کو پہلے کالا ڈھاکہ کے نام سے جانا جاتا تھا اور اس کا شمار قبائلی علاقوں میں ہوتا تھا۔ 2011 میں اسے الگ ضلعے کا درجہ دے کر بندوبستی علاقہ قرار دے دیا گیا۔ تاہم یہ درجہ اس کے کچھ زیادہ کام نہیں آیا اور یہاں کی آبادی کو بنیادی نوعیت کی سہولیات اور خدمات بھی بمشکل دستیاب ہیں۔

تورغر کی ضلعی سرحدیں شانگلہ، ہری پور، بٹ گرام، مانسہرہ اور ضلع بونیر کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ ضلع تین تحصیلوں جدبا، میرا مداخیل اور دوڑ میرا پر مشتمل ہے اور اس کی آبادی دو لاکھ سے کچھ زیادہ ہے۔ بیشتر آبادی پہاڑی علاقوں میں آباد ہے جس میں پشتون قبائل بسی خیل، مدا خیل، اکازئی، حسن زئی اور نصرت زئی اکثریت میں ہیں۔

ضلعی ہیڈکوارٹر جدبا کے رہنے والے فرمان اللہ بتاتے ہیں کہ تورغر میں صحت کی سہولیات کا خاص طور پر فقدان ہے۔ اگرچہ یہ مسائل سبھی کے لیے یکساں ہیں لیکن خواتین کے علاج میں بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ پورے ضلعے کے ہسپتالوں میں کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں جو حاملہ خواتین کو زچگی کے دوران ابتدائی طبی امداد دے سکے۔

"جو لوگ پیسے والے ہیں، وہ اپنے مریض کیلئے کرائے پر ایمبولینس لے کر اسے قریبی اضلاع بٹ گرام، مانسہرہ یا ایبٹ آباد کے ہسپتالوں میں لے جاتے ہیں۔ لیکن کم وسائل والے لوگوں کیلئے ان کے دیہات میں چندہ اکھٹا کیا جاتا ہے تاکہ مریضہ خاتون کو بروقت کسی دوسرے ضلع میں لے جا کر کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھایا جائے اور اس کی زندگی بچائی جا سکے۔"

بسی خیل کے احسان خان بتاتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے جٹ کول گاؤں میں ایک گاڑی کھائی میں جا گری جس میں سات مرد و خواتین شدید زخمی ہوگئے تھے، لیکن تورغر میں فرسٹ ایڈ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو بٹ گرام اور مانسہرہ کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا، اس دوران ایک خاتون سمیت چار افراد راستے میں ہی جاں بحق ہوگئے تھے، جبکہ باقی تین زیر علاج ہیں۔

اسی علاقے کے محمد زاہد کہتے ہیں کہ ضلع تورغر کے لوگ اب بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔  یہاں ہسپتالوں میں لیبر روم اور میٹرنٹی ہوم نہیں ہے، خواتین کے علاج کیلئے کوئی لیڈی ڈاکٹر نہیں ہے، خواتین ڈلیوری کیسز کے دوران سہولیات کی فقدان کی وجہ سے جاں بحق ہو جاتی ہیں اور لوگ حادثات میں بروقت طبی امداد نہ ملنے سے انتقال کر جاتے ہیں۔

انہوں نے شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بارہ برس گزر گئے ہیں جب تورغر کو ضلع کا  درجہ ملا، لیکن ابھی تک یہاں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال تعمیر نہیں ہوسکا اور نہ ہی پورے ضلع میں کوئی رورل ہیلتھ سنٹر بنا ہے۔

"اسی وجہ سے ضلع تورغر میں لیڈی ڈاکٹر کی سرکاری پوسٹ نہیں ہے اور نہ ہی ابھی تک کوئی ایل ایچ وی یا نرس تعینات کی گئی ہے"

محمد زاہد نے بتایا کہ ضلع بٹ گرام کا ہسپتال تورغر سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں خواتین فرسٹ ایڈ لینے جاتی ہیں اور اگر مسئلہ زیادہ ہو تو مانسہرہ یا ایبٹ آباد کے ہسپتال جانا پڑتا ہے، جہاں آنے جانے پر ہزاروں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔

تحصیل ہیڈ کوارٹر جدبا میں ایک میڈیکل سٹور کے مالک احمد خان کہتے ہیں کہ تورغر میں اباسین (دریائے سندھ) پر تعمیر تربیلا ڈیم کے بند کے قریب  کھڑے پانی میں مچھروں کی افزائش کے باعث دو ماہ سے ملیریا وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس دوران سیکڑوں لوگ ملیریا کے بخار میں مبتلا ہوئے، لیکن پورے ضلع میں کسی سرکاری ہسپتال میں سرکاری لیبارٹری نہیں ہے جس میں ملیریا کے ٹیسٹ ہو سکیں۔

اس معاملے پر جب ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر مدثر اقبال خان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ تورغر میں ابھی تک ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی تعمیر مکمل نہیں ہوئی۔

"علاقے میں دس بنیادی صحت مراکز (بی ایچ یو) موجود ہیں، جو افعال ہیں، ان میں دوڑا میرا بی ایچ یو اور میرا مداخیل بی ایچ یو کو آر ایچ سی میں اپ گریڈ کردیا گیا ہے لیکن کام نہیں ہوا، بس عمارتیں بنی ہوئی ہیں جن میں سامان اور عملہ نہیں ہے۔ ضلع میں میڈیکل آفیسرز کی دس پوسٹیں ہیں۔ اس وقت پورے ضلع میں چار ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کام کر رہے ہیں باقی سارے میڈیکل ٹیکنیشنز ہیں۔ ایل ایچ ویز(لیڈی ہیلتھ ویزیٹرز) کی پورے ضلع میں چھ پوسٹیں ہیں وہ بھی خالی پڑی ہیں اور ان پر تعیناتی کے لیے کام جاری ہے۔"

ضلع تورغر میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کے سوال پر ڈاکٹر مدثر نے بتایا کہ ضلع میں میڈیکل آفیسر کی پچاس فیصد سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں لیکن ڈاکٹر ان دوردراز علاقوں میں آنا نہیں چاہتے اور یہاں ٹرانسفر آرڈرز ہونے کے بعد وہ کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح یہاں سے نکل سکیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع قلعہ عبداللہ: 'میری اہلیہ کو لیڈی ڈاکٹر میسر آتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی'

انہوں نے بتایا کہ تورغر کیلئے ڈاکٹروں کے انٹرویو ہوئے تھے تو خواتین میڈیکل آفیسر اس علاقے میں نوکری کیلئے تیار نہیں تھیں کیونکہ یہ آمدوروفت کےحوالے سے مشکل جگہ ہے۔

ڈپٹی ڈی ایچ او تورغر کا خیال ہے کہ جب ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بن جائے گا تو پھر خواتین میڈیکل افسر بھی آجائیں گی کیونکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال میں سہولیات زیادہ ہوتی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر ضلع تورغر ضیاء الرحمن مروت نے بتایا کہ ضلع کا درجہ ملنے کے بعد ہی یہاں ترقیاتی کام شروع ہوئے جن میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کی عمارت پر تعمیراتی کام جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دس سول ڈسپنسریوں کو بی ایچ یو میں اپ گریڈ کیا گیا جبکہ دو بی ایچ یوز کو کو اپ گریڈ کر کے آر ایچ سیز میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ان میں سٹاف آنے کے بعد صحت کے شعبے میں مسائل کافی حد تک حل ہو جائیں گے۔

محمد زاہد یاد کرتے ہیں کہ ضلع بننے کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے یہاں دورہ کیا تھا اور ضلع کے ترقیاتی کاموں کیلئے چھ ارب روپے پیکیج کا اعلان کیا تھا، جس میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال کیلئے بیس کروڑ روپے رکھے گئے تھے، لیکن 12 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ڈی ایچ کیو ہسپتال یا ایسا کوئی دوسرا منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا۔

سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی رواں سال چھ جولائی کو تورغر کا دورہ کرچکے ہیں، جس میں انہوں نے ضلع میں دریائے سندھ پرایک رابطہ پل، دو گرلز کالج، ایک دانش سکول اور ایک بوائز کالج بنانے کا اعلان کیا تھا۔  لیکن صحت کی سہولیات کو پورا کرنے کے حوالے سے کسی منصوبے کا اعلان نہیں ہوا اور نہ ہی پہلے سے منظور شدہ منصوبوں پر کام کے حوالے سے کوئی پیش رفت دیکھنےکو ملی۔

تاریخ اشاعت 30 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبدالستار نے انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے وہ ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے لیے خیبرپختونخوا کے ضلع مردان سے رپورٹنگ کررہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.